ایک اچھی خبر۔طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ

اس دورِ پر آشوب میں بم دھماکوں، قتل و غارت اغواء جیسی خبروں کے علاوہ اگر کسی دن اچھی خبر سننے کو مِلے تو دِل خو شی سے جھوم اٹھتا ہے اور دلوں میں امید کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں ۔ایسی ہی ایک اچھی خبر ہمیں اس وقت سننے کو مِلی جب وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں طالبان سے مذاکرات کے لئے چا ر رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا۔جس میں ان کے خصوصی معاون اور معروف کالم نگارؑعرفان صدیقی، رحیم اﷲ یو سف زئی ،سابق سفیر رستم شاہ مہمند اور میجر (ر) محمد عامر شامل ہیں ۔وزیرِ داخلہ چو ہدری نثارکمیٹی کی معا ونت کریں گے جبکہ وزیر اعظم نواز شریف خود مذاکراتی عمل کی براہِ راست نگرانی کریں گے۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، ہم پر امن حل کو ایک اور مو قعہ دینا چا ہتے ہیں، ہم نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ آگے بڑھیں گے،امن ہمارا خواب نہیں، منزل ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کا یہ اعلان پوری قوم کے لئے امید کی ایک کرن ہے ۔اس اعلان کے ساتھ ہی طالبان کی طرف سے شوریٰ کا اجلاس بلا کر مذاکراتی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے جو ایک اچھی علامت ہے۔طالبان کی طرف سے مزاکراتی کمیٹی پر بھی کو ئی اعتراض سامنے نہیں آیا ۔ یہ امر بھی خو ش آئیند ہے کہ ملک کے کی بڑی سیاسی جماعتوں (ما سوائے ایم کیو ایم )نے بھی مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور مذاکراتی عمل کی تائید کی ہے۔ لہذا امید کی جا سکتی ہے کہ اگر دونوں طرف سے خلوصِ نیّت کے ساتھ کو شش کی گئی تو مذاکراتی عمل کے کامیابی کا قوّی امکان ہے۔ لیکن حکومت کو یہ بات مدِ نظّر رکھنی چا ہئیے کہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن بحال ہو، وہ پسِ پردہ اپنی پو ری کو شش کریں گے کہ دونون فریقین کے درمیان بد گمانی پیدا کرکے مذاکراتی عمل کو سبو تاژ کیا جائے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے دشمنوں سے تویہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ پاکستان میں مذاکراتی عمل کے ذریعے امن کی بحالی چاہیں گے مگر اپنے کچھ نادان سیاستدانوں کی اس مذاکراتی کمیٹی پر اعتراض عجیب سا لگتا ہے۔حالانکہ اس کمیٹی میں شامل تمام افراد کو معاشرے میں نہایت عزّت و احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی غیر جانبداری اور بالغ نظری پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ،اس کے باوجود سیا ست کا چوزہ بلاول زرداری بھٹو فرماتے ہیں کہ مذاکراتی کمیٹی کے ارکان تو طالبان کے ترجمان جیسے ہیں،شاید وہ کسی غیر مسلموں کو اس کمیٹی کے ارکان بنانا چا ہتے ہیں جس طرح انہوں نے پاکستان کا صدر کسی عیسائی کو بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ وہ چونکہ غیر مسلموں کے درمیان ہی پھلے پھولے ہیں، ان کی پرورش، ان کی تعلیم اور ان کی صحبت غیر مسلموں کے درمیا ن ہو ئی ہے۔انہوں نے غیر مسلموں کی زبانی پاکستانیوں کی بد خواہی اکثر سنی ہو گی اور یہ بھی سنا ہو گا کہ پختون قوم دہشت گرد ہے اس لئے اس کو وزیراعظم کی بنائی ہو ئی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان انہیں طالبان کے ترجمان لگتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ قوتیں جنہوں نے پہلے بھی امن کی کوششوں اور طالبان سے مزاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کو شش کی تھی وہ اب پھر سرگرمِ عمل ہو سکتے ہیں ۔امریکہ ، انڈیا اور اسرائیل پسِ پردہ کوئی ایسا کھیل کھیل سکتے ہیں جس سے مذاکراتی عمل ناکام ہو کر پاک فوج کو جنگ میں دھکیل دیا جائے ماضی اس بات کی گواہ ہے کہ پاک فوج کو بدنام کرنے اور اسے کمزور کرنے کی کئی مرتبہ ناکام کو ششیں ہو چکی ہیں۔ طالبا ن کے کم و بیش 35گروپ اس وقت موجود ہیں چونکہ سب کو مذاکرات کے لئے ایک میز پر لانا ممکن نہیں ہو گا اس لئے ناراض گروپ مذاکرات کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان کے اندر کو ئی بھی تخریبی کا روائی کر سکتے ہیں۔علاوہ ازیں ہماری میڈیا خصوصا الیکٹرانک میڈیا میں کچھ ایسے نادان بیٹھے ہیں جو جان بوجھ کر نہیں، مگر اپنی کم علمی کے باعث ایسی ایسی باتیں کر جاتے ہیں یا کہلوا جاتے ہیں جس سے فریقین کے درمیان بد گمانی پیدا ہوسکتی ہے، غلط فہمی جنم لے سکتی ہے اور مذاکرات ناکامی سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ لہذا دونوں طرف کے مذاکراتی کمیٹیوں کو متذکرہ تمام عناصر سے خبر دار رہ کرنہایت تحمل، برداشت اور اعلیٰ ظرفی کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے لئے سر توڑ کو شش کرنی چا ہئیے اور مستقبل میں انسانی جانوں کی ضیاع کو روکنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چا ہیے۔مناسب ہو گا کہ دونوں طرف سے فوری طورپر سیز فا ئر کا اعلان کیا جائے تاکہ مذاکرات پر امن ماحول میں کئے جا سکیں ۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315587 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More