ہمارے ہاں معمولی سی بات کو بھی‘ بڑھا چڑھا کر‘ غیر معمولی اور پچیدہ بنا
دینے کا عام رواج ہے۔ شاید اسی حوالہ سے‘ محاورہ بات کا بتنگڑ بنانا‘ تشکیل
پایا ہے۔ دفاتر میں کلرک بادشاہ‘ معاملے کو گھمبیر مسلہ بنا کر‘ پیش کرتے
ہیں‘ جییسے ابھی ابھی قیامت ٹوٹنے والی ہے اور قانون ان پر ستویں آسمان سے
اترا ہے۔ یہ کھیل ساءل سے ہی نہیں‘ اپنے افسر سے بھی کھیلتے ہیں۔ افسر کلرک
کی نہیں مانیں گے‘ تو ناصرف کام رک جاءے گا‘ لفافے سے بھی مرحوم ہو جاءیں
گے۔ محرومی اور مرحومی سے الله ویری دشمن کو بھی محفوظ رکھے۔ محرومی
پشیمانی کے ساتھ ساتھ‘ احساس کہتری کا بھی سبب بنتی ہے۔ اس میں عذاب کی سی
صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ مرحومی میں نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ اس کے کیے کو‘ کوئ
اپنی مرضی کی وضع قطع دے سکتا ہے۔ یہاں‘ کرپٹ سیاسی‘ معاشی اور دفتری
فرشتوں کے ہاتھوں‘ ہر لمحے قتل ہونا پڑتا ہے۔ وہاں قبری فرشتے قابو کر لیتے
ہیں۔ سوال و جواب کا مرحلہ بڑا دشوارگزار ہوتا ہے۔ اگر یہ سوال جواب کا
معاملہ آسان ہوتا تو‘ ہر کوئ اپنی مرضی کی افسری یا کلرکی کے تخت پر‘ خود
اختیاری اختیارات کا تاج پہن کر بیٹھ جاتا۔
معاملات کی تفیہم سادہ اور عام فہم ہوتی‘ تو مسائل جنم نہ لیتے۔ قدم قدم پر
رپھڑوں اور لفڑوں سے پالا نہ پڑتا۔ دوسری طرف یہ بھی پرابلم ہے‘ کہ سادگی
رہتی اور پچیدگی پیدا نہ کی جاتی‘ تو معاملات کی اوقات باقی نہ رہتی۔ یہ
پچیدگی اور گھمن گھیریاں ہی‘ معمولی کو‘ غیر معمولی بنا کر‘ بالائ کا ذریعہ
بنتی ہیں۔
مجھے زندگی سے متعلق اور دفتر شاہی سے ڈنگ رسیدہ ہو کر بھی‘ گلہ یا شکوہ
نہیں‘ کیوں کہ یہ نہ کبھی شفاف تھے اور ناہی بادشاہ لوگ اس کی شفافی کے طلب
گار رہے ہیں۔ جنتا الجھاؤ پچیدگی اور ٹنشن کا شکار رہے‘ تو ہی کاروبار شکم‘
تروتازہ اور صحت مند رہ سکتا ہے۔ مجھے دانش گاہوں سے متعلق لوگوں پر افسوس
ہوتا ہے‘ کہ وہ آگہی سے متعلق معاملات کو‘ الجھاؤ اور پچیدگی کے گٹر میں
کیوں گھسیڑتے ہیں۔ کسی پر اپنی اہلیت اور قابلیت کا سکہ جمانے کی‘ ایسی کیا
ضرورت ہوتی ہے۔ کیا یہ شرف کافی نہیں‘ کہ اس سے پوچھا جا رہا ہوتا ہے۔ وہ
سامنے والی کرسی پر تشریف رکھتا ہے‘ جبکہ سامنے والی کرسیوں سو پچاس لوگ
بیٹھے ہوتے ہیں اور اسے‘ خود سے متعلقہ سبجیکٹ میں‘ بہتر سمجھ رہے ہوتے ہیں۔
آگہی کو سادہ اور اس کی ترسیل بھی سادگی سے نتھی رہنی چاہیے۔ لوگ معاملے یا
مسلے سے متعلق جان کر‘ اسے عملی زندگی پر لاگو کریں گے۔ معاملہ جلد تجربے
کے میدان میں آ کر‘ زندگی کو کچھ نیا دے سکتا ہے۔
آج کل میجک ان ریسرچ کو سر پر چڑھایا جا رہا ہے۔ بات کو معاشی مسلہ یا پھر
سیاسی گتھی بنا دیا گیا ہے۔ سیدھی اور سادہ سی بات ہے کہ یہ انگریزی اصطلاح
نہیں۔ اس کا اسلوب دیسی ہے۔ اس لیے اسے‘ کسی رواں فقرے سے نکال کر‘ ہوا سا
بنا دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ جان کیٹس کے مرکب a fine excess
کو اصطلاح کا نام دیتے ہیں۔ میجک ان ریسرچ کی طرح اسے فقرے سے الگ کیا گیا
ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ انگریز کا اسلوب تکلم ہے اور باقاعدہ انگریزی
مرکب ہے۔ تفہیمی اعتبار سے‘ اصطلاح سمجھا جا سکتاہے‘ لیکن اپنی اصل میں
اصطلاح نہیں ہے جبکہ میجک ان ریسرچ کسی غیر انگریز کا اسلوب ہے اور اسے
جملے سے نکالا گیا ہے۔ اس کے دائرہ میں کئی باتیں آ جاتی ہیں۔ مثلا
١۔ مستعمل کی صحت مشکوک قرار دے دی جائے۔
٢۔ مستعمل کو یکسر مسترد کر دیا جائے۔
٣۔ اس کی ہءیت وہی رہے‘ لیکن استعمال بدل دیا جائے یا برعکس راءج کر دیا
جاءے اور کسی قسم کی خرابی راہ نہ پکڑے۔
اس طرح کی یا اس سے ملتی جلتی چیزیں مراد لی جا سکتی ہیں۔
زندگی اور اس سے متعلق معاملات محدود نہیں ہیں۔ محدود کینوس پر رکھ کر‘
حاصل کی گئ تفہیم‘ مستعمل ہو گئ ہواور اس کے برعکس یا اس سے آگے کی سوچنا‘
لکیر کے فقرا کے لیے‘ سراسر بدعت ہوتی ہے حالانکہ امکانات کو کبھی اور کسی
سطع پر‘ رد کرنا درست نہیں۔ جب مستعمل سے الگ دریافت ہو‘ وہی میجک ان ریسرچ
ہے۔ کچھ نیا‘ پہلے سے بڑھ کر دریافت ہی تو‘ میجک ان ریسچ ہے۔
اب میں اسے مثالوں سے واضح کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ مارکونی کی دریافت کے
نتیجہ میں‘ ٹی وی‘ ریڈار‘ انٹرنیٹ‘ موباءل فون وغیرہ آج ہمارے استعمال میں
ہیں۔ یہ نئ نئ اور حیرت میں ڈال دینے والی اشیا‘ میجک ان ریسرچ ہی تو ہیں۔
سکندر کو فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ میں اسے مفتوح اور جنگی بھگوڑا ثابت کرتا
ہوں‘ یہ کیا ہے‘ میجک ان ریسرچ ہی تو ہے۔
پورس ہندو تھا۔ بغض معاویہ کے تحت‘ سکندر کو فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ ارسطو
جو اس کا استاد تھا‘ بذات خود بھگوڑا تھا۔ اگر جان باز ہوتا‘ میدان جنگ میں
جان دیتا۔ حسین نے میدان میں جان دی۔ ٹیپو میدان سے بھاگا نہیں۔
سکندر کے حامی بتائیں‘ کہ آخر وہ کون سی انسانی خدمت کی غرض سے برصغیر میں
آیا۔
بستیاں تباہ برباد نہ ہوئیں؟
بچے بوڑھے اور عورتیں ہلاک نہ ہوءیں؟
ان کا کیا جرم تھا؟
اس نے برصغیر میں کون سی اصلاحات کیں؟
سچائ اور درستی کا معیار‘ طاقت ور ہونا‘ کون سے مذہب‘ اصول اور ضابطے کی
لغت میں درج ہے؟
اگر وہ زخمی ہو کر پلٹا‘ تو وہ کون لوگ تھے‘ جو گھاؤ کا سبب بنے۔
برصغیر والے تھے‘ تو بھی بھگوڑا ہوا۔ اس کے کسی اپنے نے زخمی کیا تو بھی
فاتح قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اگر مچھر کے کاٹنے کے سبب‘ بیمار ہو کر بھاگا‘ تو بھی مفتوح اور بھگوڑا‘
کیوں کہ مچھر برصغیر کا تھا۔
کہتے ہیں اس کی فوج نے مزید لڑنے سے انکار کر دیا‘ تو بھی اسے کامیاب جرنل‘
منتظم اور حاکم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اگر میں ان حقائق کے تناظر میں کہتا ہوں سکندر ناکام‘ مفتوح اور ناکارہ
جرنیل تھا‘ تو یہ میجک ان ریسرچ ہے۔
طارق ابن زیاد نے کشتیاں جلاءیں‘ فوج منہ کو نہ آئ‘ اس لیے وہ کامیاب جرنیل
تھا۔ ہٹلر ناکام ہو گیا‘ لیکن اس نے برطانیہ کا چراغ بجھا دیا۔ مار کر مرا‘
اس لیے اسےناکام جرنیل اور حاکم نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے برعکس‘ چرچل نے
پچھلی تمکنت کا ستیاس مار کر رکھ دیا دوسرا وہ امریکہ کے سہارے‘ جیت حاصل
کرکے‘ لامحدود سے محدود ترین ہو گیا۔
میں جو عرض کر رہا ہوں مستعمل سے ہٹ کر ہے اور الگ تر ہے۔ یہی تو میجک ان
ریسرچ ہے۔۔ |