اچھا سیاستدان بننے کے طریقے؟؟

۷۸۶

سیاستدانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ جو جتنا جھوٹ بولے اسے پھر بھی کالا کوا نہیں کاٹتا بلکہ وہ اتنا ہی اچھا اور مشہور سیاستدان بنتا ہے۔ بلکہ انکے بارے میں ملتان کے سوہن حلوے ، خانپور کے پیڑے، حیدرآباد کی چوڑیوں کی طرح اور بھی بہت کچھ مشہور ہے مثلا: ایک لاکھ جھوٹے مریں تو ایک اچھا سیاستدان پیدا ہوتا ہے۔ ایک لاکھ مکر بازوں کا جھوٹا کھاؤ پیو تو اچھی سیاست آتی ہے۔ ایک لاکھ عمرو عیار وں کے برابر عیاری اور ایک کروڑ لومڑیوں کے برابر چالاکیاں پیدا ہو جا ئیں تو پختہ سیاستدان بنتا ہے۔ مزید اچھا سیاستان بننے کے لیے بندہ صبح شام بیان بدلنے، جھوٹ بولنے اور وضاحتیں دینے میں ڈپلومہ ہولڈر ہو۔پارٹیاں بدلنے میں پی ایچ ڈی ہو۔ حلال حرام کی تمیز ندارد۔ رات کے بارہ کے بعد سوکر صبح بارہ کے بعد اٹھے۔ سارا دن فون پر گپ شپ یوں کرے جیسے دوسری طرف میرا جی ہوں ۔ جھوٹ ایسا بولے کہ کسی ڈیٹیکٹر سے بھی پکڑا نہ جائے۔ نت نئے طریقے سے ایسا لوٹا بنے کہ اصلی لوٹا بھی شرما جاوے۔جعلی ڈگری لینے میں ڈگری یافتہ ہو۔( تضاد دیکھیے کہ لوگ یہاں بیس بیس سال پڑھ پڑھ کر گنجے ہوجاتے ہیں پھر ڈگری ملتی ہے ۔ یہ بغیر پڑھے جعلی ڈگریاں لیکر اصلی ڈگری والوں پر حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں)۔

اسکے علاوہ روزانہ بیان ایسا دے کہ پڑھنے والا حیران پریشان ہو کر اپنا سر پیٹ لے کہ اس نے کل کیا کہا تھا اور آج کیا؟ رشوت کو ایسے حلال جانے جیسے اسکے باپ کا مال ہو، اورایسے لیوے کہ دوسرے ہاتھ کو تو کیا خود کو بھی پتہ نہ لاگے۔ چکمہ ایسے دیوے کہ کبڈی اور کشتی کے کھلاڑی اور دیکھنے والے بھی حیران ہو جاویں۔ پینتر ا ایسے بدلے کہ اسکی گھر والی کو بھی خبر نہ ہو۔ قرض لیکر لوٹانے کا نام نہ لیوے یا معاف کرا نا اپنا حق جانے ،یا اپنے باپ کی چھوڑی جاگیر کا مال جانے ۔ (تضاد دیکھیے کہ اگر کوئی عام آدمی یا کوئی بیوہ کسی بنک کا چند ہزار کا قرض نہ لوٹائے تو چند ماہ بعد انکے نام اخبارات میں اورچرچے ہر زبان پر ہوتے ہیں ۔انکی زمین جائداد فار سیل ہو جاتی ہے اور پکڑنے کے لیے پولیس گھر پہنچ جاتی ہے۔ یا پھر وارننگ لیٹر اور کچھ روز بعد انکا نمائندہ اکیلا اور مزید دیر کرنے پر بمعہ پولیس یا وکیل نادہندہ کے گھر پہنچ جاتا ہے ۔ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کونسے ایسے خوش نصیب سلیمانی ٹوپی پہنے سیاستدان یا افراد ہوتے ہیں کہ جن کے اربوں روپے کے قرضے ان اداروں کو نظر نہیں آتے، نہ ہی ان کے نام اخبارات میں آتے ہیں نہ ہی بنکوں کے نمائندے، وکیل یا پولیس والے انہیں تنگ کرتے ہیں)۔ انکم ٹیکس دینے کو گناہِ کبیرہ جانے ۔(تضاد دیکھیے کہ ایک تنخواہ دار ملازم کی تو تنخواہ ہی ٹیکس کٹوتی کے بعد ملتی ہے۔ جبکہ ہمارے نام نہاد ممبرانِ اسمبلی بغیر این ٹی این نمبر کے اسمبلیوں میں فراش، کئی تو اتنے غریب کہ کروڑوں الیکشن پر لگا دیے، پر نہ گھر نہ گاڑی نہ در۔ اربوں کی آمدن پر صرف چند ہزار ٹیکس، واہ رے کیلکولیشن! غریب آدمی اگر اپنا پیٹ کاٹ کر کوئی ایک آدھ پلاٹ یا مکان بنا لے تو وہ بھی ایف بی آر کی نظروں میں آجاتا ہے ،پر بڑے لوگوں کی اربوں کی پراپرٹی اوربینک بیلنس انہیں ہوائی مخلوق کی طرح نظر ہی نہیں آتے ۔پتہ نہیں کونسی نظر سے دیکھتے ہیں کہ صرف ہرا ہرا ہی دکھتا ہے۔

انکے بنک اکاؤنٹ میں رقم آجائے انہیں پتہ ہی نہیں چلتا اور نہ کوئی پوچھتا ہے ۔ غریب آدمی اگر کسی سے چند ہزار ادھار کے بھی آن لائن ٹرانسفر کرالے تو انکم ٹیکس والے پیچھے پڑجاتے ہیں )۔پاکستانی اکاؤنٹ میں ہزاروں اور غیر ملکی اکاؤنٹوں میں کروڑوں اور اربوں پڑے ہوں ، پر پھر بھی فقیروں کی طرح مانگتا پھرتا ہو ۔ مخالفانہ دھرنوں، مظاہروں اور جلسے جلوسوں سے جھوٹی تسلیاں اور لارے دیکر نمٹنا بخوبی جانتا ہو۔سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کا صحیح طریقہ بھی بخوبی آتا ہو۔مفاد پرستی میں اس حد تک آگے چلا جائے کہ دین اور ایمان تک بیچ دیوے۔اپنی دم پر پاؤں آتا دیکھے تو اپنے سگوں کو بھی ٹھکانے لگا سکے۔اسمبلیوں میں ایک دوسرے پر جوتے اور گالیوں کے گولے برسانے میں ماہر ہو، پر اجلاس ختم ہوتے ہی دوست دشمن اکٹھے ٹھٹھے مارتے ہنستے کھیلتے ، بانہوں میں بانہیں ڈالے باہر نکلے، کھاتے پیتے موج اڑاتے سو چے کہ آج ایک بار پھر بیوقوف پاکستانی عوام کو مزید بیوقوف بنادیا!۔

اسکے علاوہ کمیشن کو منڈی کے آڑھتی کا کمیشن سمجھ کر حلال جانے۔ نوکر چاکر کی فوج ایسے آ گے پیچھے رکھے کہ جیسے اسکے باپ پڑدادا وراثت میں دے گئے ہوں۔پا کستانی عوام کو اچھوت اور اپنی رعایا جانے کہ انکے ساتھ جو مرضی آئے کیتی جاؤ ۔ اپنے خاندان کے علاوہ کسی اور کی حکومت کو شودر جانے۔ بڑھکیں مارنے میں مولا جٹ کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔ اپنے حلقے میں صرف ووٹوں ، لوٹوں اور نوٹوں کے لیے نظر آئے۔ باہر کے ممالک کے دوروں کا ایسا شو قین ہو جیسے شیخ صاحب سگار کے ۔ سات ستارہ ہوٹل سے نیچے رہنے کو توہین جانے۔ٹی وی ٹاک شوز میں کشتی اور کبڈی ایسے لڑ سکتا ہوکہ ہارنے کا چانس دیکھتے ہی لائیو پروگرام سے اٹھ کر بھاگ جا ئے ۔کار ، بنگلہ ، کوٹھی،زیورات، کاروبار سب کچھ ہوتے ہوئے بھی غریب ، مسکین اور مستحقینِ زکوٰۃ میں سے لگے۔ آنکھوں میں دھول جھونکنے میں ایسا ماہر ہو جیسے گھر والیاں گھر کے خرچے میں ڈنڈی مار کر غریب شوہروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتی ہیں ۔ بے وفائی اور وعدہ خلافی اسکی گھٹی میں ایسے ہو جیسے امریکیوں کی۔ میں نہ مانوں جیسا تکیہ کلام اسکا ایسا تکیہ ہو کہ ٹھیک کو بھی ایسے غلط مانے جیسے میرا صاحبہ نکاح اور ولیمہ ہونے کے باوجود بھی شادی سے انکاری ہیں۔ ویسے بائی دا وے آپنے کبھی سنا کہ کسی لڑکی کی شادی تو ہوئی ہو پر نکاح اور ولیمہ نہ ہوا ہو؟؟؟؟ وعدہ کر کے بھی کسی کا کام نہ کرے جیسے آجکل لڑکیاں فونوں پر بہت سے وعدے کر کے مکر جاتی ہیں ۔

مزید یہ کہ ایک سے زیادہ شادیوں ،لڑکیوں کا شوقین اور رسیا ہو۔ہنی مون ایسے منائے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ مکے لہرانے اور باکسنگ میں ماہر ہو، پر جہاں لڑنے کی بات آئے تو دم دبا کر بھاگ جائے ۔ جس طرف کی ہوا چلے اسی طرف چل پڑے، چاہے ہوا کا رخ دشمن ملک کی طرف ہی کیوں نہ ہو ۔ محکمہ غلط موسمیات کی طرح عوام کو مختلف قسم کے جعلی طوفانوں سے ڈرانے کا فن بخوبی جانتا ہو۔اسکا اپنا پورا خاندان امریکن نیشنل ہو ، پر عوام کے سامنے امریکہ کو دشمن بتائے او رانکے پتلے جلائے ۔ وزارت اور مال نہ ملے تو تحفظات ، مِل جائے تو سکون کی دن رات ۔ کمیشن یا باہر کا دورہ نہ ملے تو فورا بدک کر اپنے ہی ساتھیوں کے پول کھولنا شروع کر دے ۔ عہدے سے استعفی دینا اور پھر کسی عوام؟؟ کی بھر پور ڈیمانڈ؟ پر واپس لینا جانتا ہو۔ ٹسوے بہا کر عوام کو رلانے کافن بھی جانتا ہو۔۔۔۔ د ہشت گردوں کے خلاف
کاروائی کو پاکستان کے خلاف کاروائی جانے۔ دہشت گردوں کا نام ڈر ڈر کر لے۔ لارا لپا لارا لپا لائی رکھے۔ خود کچھ نہ کر سکے تو ملبہ ہم سب کی طرح دوسروں پر ڈال دے۔ اپوزیشن میں ہو تو پاکستان کا مستقبل ہمیشہ تاریک جانے اور نام نہاد جعلی نجومیوں کی طرح پاکستان ٹوٹنے کو پیشنگوئیاں با آسانی کر تا رہے۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے اتنی آسانی سے کرے جیسے شیریں فرہاد کے خاندان سے رشتہ داری ہو۔ اداکاراؤں اور کھلاڑیوں سے اچھے تعلقات رکھتا ہو ۔ سرکاری دوروں پر اربوں خرچ کر ڈالے اور ڈکار بھی نہ لے !بڑے ملکوں سے بھیک مانگنے میں پکے بھکاریوں کو بھی شرما دیوے۔ کبھی کبھی انور مقصود ٹائپ بیان دیوے جو کئی روز بعد عوام کی سمجھ میں آئیں اور وہ اپنا گنجا سر پیٹیں ۔امپورٹڈ اشیاء استعمال کرے، لوکل اشیاء کو گھٹیا جانے۔ الیکشن سے پہلے حلقے کی ہر غمی خوشی میں بھاگ بھاگ کے جاو ے ، پر جیتنے کے بعد دیدار کو بھی ترساوے اور پہچاننے سے بھی انکاری ہو۔ جیب میں نہیں دھیلا تے کردی پھرے میلا میلا کے مصداق خزانہ خالی میں بھی عوام کو سبز باغ دکھانے کا ماہر ہو۔پل کی خبر نہ ہو پر عوام کو پچیس پچیس سالہ منصوبوں کے پیچھے سردار کی بتی کی طرح لگاوے۔ پاکستانی عوام کے سامنے بڑھکیں ما ر ے اور غیر ممالک میں جا کر بھیگی بلی بن کر تراہ نکلوا آئے۔ توند اتنی نکلی ہو کہ بچے فٹ بال اور جمپنگ والا کھیل آسانی سے کھیل سکیں۔ مٹی تے سواہ پانے میں ماہر ہو۔بندے ایسے اٹھوائے اور غائب کرائے جیسے کہ کبھی پیدا ہی نہ ہوئے ہوں۔ مخالفین کو اور اسکے گھروالوں کو اٹھانے اور بلیک میلنگ میں ایسا ماہر ہو جیسے مائیکل شوماکر فیراری ریس میں، یا ما دھوری ڈانس میں۔خطاب کرنے میں ایسا ماہر ہو کہ جید علماء اور مقرر کو بھی پیچھے چھوڑ کر لوگوں کو سانپ سونگھا دے۔اپنی اولاد امریکہ میں پڑھائے لکھائے، پاکستانی غریب عوام کو پیلے کالے اسکول میں ٹاٹ بھی مہیا نہ کرے ، بلکہ انکی تعلیم کا تو سرے سے مخالف ہو ۔گھر والی کی ناراضگی برداشت کرے پر امریکہ کی نہیں۔ عوام کی خدمت میں دن رات گھلنے کا راگ گلوکاروں سے اچھا گا سکے۔الیکشن پر کروڑوں لگائے پر کسی مانگنے والے کو دھیلا بھی نہ دے، بلکہ الٹا اسکی دن بھر کی کمائی اینٹھنے میں ماہر ہو۔نماز قرآن سے ایسا دور ہو کہ ایک چھوٹی سی قرآنی سورت بھی زبانی نہ پڑھ سکتا ہو۔بھوکی ننگی عوام میں ہزار دو ہزار بانٹ کر ایسے اکڑ رہا ہو جیسے کہ انہیں مریخ پر گھر بنادیے ہوں۔ہر غلط واقعے کا فوری نوٹس لے اور شام تلک وہ نوٹس واپس کر وا کر الٹا اسی بندے کو ڈھکوادے۔تھانے ، کچہری کی سیاست کا ایسا ماہر ہو جیسے زبیدہ آپا کھانے پکانے میں۔ایک بھائی تھانے میں ڈھکوانے میں ماہر ہو اور دوسرا ہمدردی جتا کر ، لے دے کر چھڑانے میں ماہر ہو۔پولیس سے اپنا حق وصول کر نا ایسے ہی جانتا ہو جیسے قانونی جائداد میں حصہ۔ غنڈے پالنا اور انسے جائز؟؟؟ کام لینا بخوبی بلکل ایسے جانتا ہو جیسے مرحوم امریش پوری لیا کرتے تھے۔عرب شیخوں کی طرح ہر پسندیدہ شے کو اٹھوانا اسکے الٹے ہاتھ کا کام ہو۔ غیروں کے ملک میں بیٹھ کر پاکستان کی یاد میں ٹسوے بہانا بخوبی جانتا ہو۔ جمہوریت میں جمہوریت کے ساتھ اور ڈکٹیٹر شپ میں ڈکٹیٹروں کے ساتھ ایسے لگا رہے کہ جیسے۔۔ ۔۔وہ گانا ہے نہ کہ ۔۔ہم تم سے جدا ہو کر۔۔۔ مر جائیں گے رو رو کے۔۔! ۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔ بس کر و شفیق صاحب! ملک میں رہنا ہے کہ نہیں؟۔۔۔

اچھا جی، چلیں آپ کہتے ہیں تو بس کیے دیتے ہیں، ورنہ ان پر تو اور بھی بہت سا تبرا بھیجا جا سکتا ہے۔
تو جناب! مذکورہ تمام خوبیاں جس انسان میں ہوں وہ ایک بہت ہی اچھا سیاستدان بن سکتا ہے۔
 
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247548 views self motivated, self made persons.. View More