سْپر پاور(لالہ جی سے)

مردان سے پنڈی آنے والی ہائی ایس پر کنڈیکٹر نے ڈیڑھ گْنا کرایہ طلب کیا تو ایک یونیورسٹی سٹوڈنٹ نے انکار کردیا۔ کنڈیکٹر کا کہنا تھا کہ سی این جی والوں کے بائیکاٹ کے بعد اْنہیں پٹرول مہنگا پڑتا ہے، چْنانچہ زیادہ کرایہ لینا اْنکی مجبوری ہے۔ سٹوڈنٹ کا کہنا تھا کہ چونکہ کرائے ڈیزل کے ریٹ کے حساب سے طے ہوتے ہیں لہٰذا سی این جی اور پٹرول دونوں غیر متعلقہ چیزیں ہیں۔ قصہ مختصر، ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے مطلْوبہ کرایہ نہ دینے والوں سے اْترنے کا مطالبہ کردیا۔ مْجھ سمیت پانچ افراد اس شرط پر تیار ہوگئے کہ ہمیں واپس اڈے پر پہنچادیا جائے۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر راضی ہوئے ہی تھے کہ اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے ایک مْعمر شخص نے داڑھی چباتے ہوئے پڑھے لکھے لوگوں کو کوسنا شروع کردیا۔ پتا یہ چلا کہ حضرت کوپنڈی پہنچنے کی جلدی ہے اورہماری خوامخواہ کی تکرارسے اْنکا ٹائم ضائع ہورہا ہے۔ اْن کیساتھ بیٹھی ہوئی خاتون نے بھی حسبِ توفیق ہمیں کوسنوں سے نوازدیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ باقی سارے لوگ الخاموشی،نیم رضا کے مصداق راضی برضائے کنڈیکٹر ہوگئے سوائے میرے اور اْس یونیورسٹی سٹوڈنٹ کے۔ ہم دونوں بھی بادلِ ناخواستہ بیٹھ گئے۔ دھیان بدلنے کیلئے اخبار کھولا تو پہلے ہی صفحے پرڈرون حملے کی خبر تھی۔ چند لمحوں میں یہی ڈرون حملہ سب کی زبان پرتھا۔ اچانک اگلی نشست سے آواز اْبھری بھائیو! ہمارے حکمران بے حس ہیں، ورنہ خْدا کے فضل سے ہم کسی امریکہ وغیرہ سے نہیں ڈرتے۔ اگر ہمارے حکمران چاہیں توہماری فوج لمحوں میں گرا مارے ان ڈرونوں کو؟

اس سے پہلے کہ کوئی اور جوابی تبصرہ آتا، یونیورسٹی سٹْوڈنٹ نے جلے کٹے لہجے میں کہا، چاچا جو قوم نہتے کنڈیکٹر کے سامنے کھڑی نہیں ہوسکتی، وہ اپنے لیڈروں سے سْپر پاور کے سامنے کھڑا ہونے کا مطالبہ کرتی اچھی نہیں لگتی۔پنڈی پہنچنے تک چاچا کی آواز نہیں آئی۔
Malik Sajid Awan
About the Author: Malik Sajid Awan Read More Articles by Malik Sajid Awan: 7 Articles with 4608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.