اس وقت مایوسی اپنے انتہا ء درجے
کو پہنچ چکی تھی اور امید کا کوئی سہا را با قی نہیں تھا عزت کی تمام
علامتیں مفقود ہوگئی تھی ہر چہرہ افسردہ تھا زندگی کی ندیاں خشک ہو گئی تھی
اسلام آباد کی سرزمین کو ہماری میڈیا ساری دنیا میں براہ راست دکھارہی تھی
کہ اکیلا سکندر پاکستان کی دارالحکومت کو مفلوج بنائے ہوئے ہاتھ میں بندوق
لئے ہوئے پولیس کو نچارہا تھا وزیر داخلہ سٹین گن ڈھونڈنے نکلا ہوا تھا
پاکستان کی انتظامی بد نظمی کی بدترین مثال سامنے آئی تھی پھر عالم سمادی
سے ایک عظیم انسان نمودار ہوا بجلی کی چمک اور بادل کی گرج اور صدائے امید
بن کر اس سکندر پر حملہ آور ہوا جس کے حملے کے نتیجے میں پولیس فورس سکندر
پر بھاری ہوگئی اور اسے گرفتار کرلیاوہ عظیم انقلابی اور صدائے امید
پاکستان کی معروف شخصیت زمرد خان تھے جس نے موقع پر پہنچ کر ساری دنیا کو
ایک بار پھر یہ بتلادیا کہ پاکستان میں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں یہ ایک
معمولی سی مایوسی تھی-
ایک مایوسی گزشتہ کئی سالوں سے ہیں کیونکہ آئے روز پاکستان میں منتخب
نمائندوں کے نت نئے مسائل سامنے آرہے ہیں کسی کو اخلاقی مجرم کی حیثیت سے
اسمبلی سے نااہل کیا جاتا ہے کسی کو اپنی تعلیمی صلاحیتوں کی وجہ سے اسمبلی
سے نکالا جاتا ہے کیونکہ انکی قابلیت جعلی ہوتی ہے کسی کو گزشتہ ریکارڈ کی
وجہ سے اسمبلی سیٹ سے معزول کیا جاتا ہے کسی کو جھوٹ بولنے کی وجہ سے غرض
پاکستان کے عوام میں شاید اتنی برائیاں موجود نہیں لیکن ہر نئی سے نئی
برائی منتخب نمائندوں میں موجود پائی جارہی ہے حتیٰ کہ بعض نمائندے اسمبلی
میں ہی انڈیا کے چینلز دیکھتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو مایوسی
پھیلی ہوئی ہے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کیونکہ وہی عوام ان کو
مجبوراً ووٹ بھی دیتے ہیں یہ ایسی مایوسی کی شام ہے کہ جس کی تاریکی کو
امید کا کوئی چراغ روشن نہیں کرسکتا ہے جب بھی ہوس تعمیر ہوئی اگلے دن راکھ
کا ڈھیر بن جا تا ہے کسی کو امید کی آواز سمجھے تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے نکل
جاتی ہے اس مایوسی سے نکالنا شاید اتنا آسان کو جلد ممکن نہیں ہے لیکن آنسو
بہانے سے بہتر ہے ہم اس فرد کا تزکرہ کرے جس نے امید کی کرن بنتے ہوئے
اسلام آباد میں نئے عزم سے بنیاد سحر رکھی تھی -
اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام حسنین ہے وہ نرینہ اولاد ہے ایسے میں
انکی نظر ایک ایسے بچے پر پڑتی ہے جس کا گناہ صرف یتیم ہونا ہی نہیں تھا
بلکہ اس کے آگے اور پیچھے آنسو بہانے والا بھی کوئی نہیں تھا شاید اس کا
جنازہ بھی کسی مجنون عاشق کی طرح عورتیں نکال لیتی لیکن اس کو مرد حر زمرد
خان نے گود لیا اور اس کی زمہ داری اپنے سر لی اور کہا کہ اس یتیم کا ماں
اور باپ زمرد خان ہوگا لیکن معاشرے میں کئی ایسے لوگ موجود تھے جو کسی بھی
وجہ سے دنیا میں موجود تو تھے لیکن ان کے ہونے اور نہ ہونے سے عزرائیل ؑ کے
علاوہ کسی مخلوق کو شاید فرق نہیں پڑتا زمرد خان نے کچھ اور بچوں کو گود
لیا اور ایک گھر کی بنیاد رکھی جس کا نام sweet Home رکھا ان کی تر بیت کی
زمہ داری ان کی تعلیم کی زمہ داری ان کے رہائش کی زمہ داری ان کی خوراک کی
زمہ داری غرض ماں کے دودھ تک کی زمہ داری زمرد خان نے اپنے زمے لے لی ان کو
اعلیٰ اخلاق کے درس کیلئے انکو اسلامی تربیت دی جارہی ہے ان کو معاشرے میں
نمایاں مقام دلانے کیلئے سب سے بہترین اور مہنگے ترین سکولوں میں ان کی
تعلیمی ضروریات پوری کردی وہ حسنین کا باپ وہ نرینہ اولاد کا باپ زمرد خان
وہ جس کے کان کسی اور بچے سے ابو،بابا،یا ڈیڈی جیسے الفاظ سننے کیلئے ترستے
تھے کچھ ہی عرصے میں sweet home کے زریعے ان تمام معصوم بچوں کا باپ بن گیا
جنہوں نے خود کبھی شاید کسی کو بھی باپ،ابو یا ڈیڈی کے الفاظ پکارے ہو اب
ایک حسنین نہیں پورے پاکستان میں 3100 بچے زمرد خان کو ڈیڈی کہہ کر پکار تے
ہیں جن میں تقریباً3000 لڑکے اور 100 لڑکیاں ہیں جب زمرد خان کے کان ایک
حسنین نہیں ملک کے مختلف کونوں میں 3100 مزید بچوں نے ڈیڈی کہنا شروع کردیا
تو زمرد خان نے بھی اعلان قبولیت کرتے ہوئے کہا کہ آج سے اکیلا حسنین میرا
بیٹا نہیں بلکہ دیگر 3100بچے بھی اس کے اپنے اولاد ہیں اور جس طرح حسنین کی
پرورش کی جائیگی اسی طرح دیگر 3100 بچوں کی پرورش کی جائیگی جہاں حسنین
پڑھے گا جہاں حسنین جائیگا وہاں دیگر 3100 بچے بھی زمرد خان کی اولاد کی
حیثیت سے پرورش پائیں گے -
اگر ایک وقت میں 3101 افراد اسلامی اقدار سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے معیاری
تعلیم حاصل کریں اور ہر طرح کی تربیت بیک وقت حاصل کرتے ہو تو راکھ کے اندر
پڑی ہوئی چنگاری بھی پکاراٹھے گی کہ اگر مستقبل ان افراد کے ہاتھوں چلا گیا
تو یقینا وہ معاشرتی مسائل اور اقدارسے آشنا ہونگے آنکھیں جب کھولا تو کوئی
ماں یا باپ نہیں تھا عہد شباب میں پہنچ کر دیکھا کہ 3100 بندوں کا ایک ہی
باپ ہے جس نے ملک کے مستقبل کیلئے بیک وقت ایک ہی گھر یعنی sweet home میں
3100 افراد کو اپنی زمہ داری سے پالا اور ان کیلئے ماں بھی بن گیا اور باپ
بھی بن گیا انکی ولولوں اور خواہشوں کی شبنم سے ایک شاداب پھول بنادیا پہلو
میں سیماب کی جگہ دل کوپائیں گے نا امیدی اور ناکامی کی شام ٹل چکی ہوگی
میں زمرد خان کے مستقبل کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا کہہ
سکتا ہو کہ یقینا مستقبل کی بیوروکریسی میں سفارت کاری میں اور سیاست میں
ان 3101 افراد کا نمایاں کردار ہوگا اس لئے ایک امید کی کرن نظر آرہی ہے کہ
اس ملک کے جنگل کے قانون کو جس طرح اسلام آباد کی سرزمین میں زمرد خان نے
نیست و نابود کیا تھا اسی طرح مستقبل کے اندھیروں میں وطن عزیز کے اجالے ان
نوجوانوں کے ہاتھ میں ہونگے ہم امید کے دامن کو پکڑ کر مستقبل کو دیکھ رہے
ہیں
فارسی میں کہتے ہیں کہ
نو امید مشو کہ نا امیدی کفر است
اور اقبال کہتے ہیں کہ
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے سا قی |