وقفے وقفے سے ملک کی حکمراں
جماعت یوپی اے یا کانگریس مسلمانوں کو اپنی جانب لبھانے کی کوششیں کرتی رہی
ہے۔کوششیں صرف کوششیں ،عمل نہیں ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی 29جنوری کو نئی
دہلی کے وگیان بھون میں مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے رحمان خان کی
قیادت میں وزیر اعظم منموہن سنگھ اور چیر پرسن سونیا گاندھی کے
روبرو’نواڈکو‘نامی کریہہ الصوت اسکیم کے ذریعے انجام دی گئی نیز ہر مرتبہ
کی طرح دعوا کیا گیا کہ اب مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کی منزلیں دو
ر نہیں ۔ان کی اوقاف کی آمد نی امیدوں سے زیادہ ہوگی اور ان کی موقوفہ
جائدادوں سے ناجائز قبضے بھی ہٹائے جائیں گے۔اتنے بڑے دعوے ہیں اور عمل کچھ
بھی نہیں ۔چاردن کے بعد دیکھیے گا اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا اور جب وزیر
موصوف یا حکومت سے پوچھا جائے گا کہ ’کیا ہوا تیرا وعدہ؟‘تو جواب ہوگا
’چھوڑو کل کی بات پرانی !آج کا نیا انداز دیکھواور مگن رہو !!‘
’نواڈکو‘حکومت ہند یا وزارت اقلیتی امور کا کوئی نیا شگوفہ نہیں ہے بلکہ
مسلم ووٹ بنک کے حصول کی کوشش ہے۔ اس سے قبل بھی ’وقف ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘کے
نام سے ایسا ہی ڈھونگ رچا گیا تھا جس کی تقریب افتتاح کے وقت کیے وعدے آج
ایفا نہیں سکے۔حسب معمول ’نواڈ کو ‘ کی افتتاحی تقر یب میں صدا رتی خطاب کر
تے ہو ئے وزیر اعظم نے وقف املاک کی تعداد اور آمدنی کی رقوم کا تذکر ہ کیا
جسے ایک عظیم اثا ثہ بتا کر یہ تاثر دیا کہ ہندو ستا نی مسلما نوں کو اب
حکومتوں سے توقع رکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کی اوقافی جائداد ہی ان کی
زندگی کے لیے کافی ہیں ۔حالانکہ وزیر اعظم منمو ہن سنگھ یہ بات بخوبی جا
نتے ہیں کہ اوقاف کی جائدادیں آزاد نہیں ہیں سرکاروں نے ہی ان پر قبضہ کر
رکھا ہے اور ان پر برسوں سے محکمے،وزارتیں اور حکومتی ادارے بنے ہوئے ہیں
لیکن چو نکہ انھیں بیان دینا ہے جو آج سے 10سال پہلے لکھا گیا تھا،وہ انھوں
نے دیا اور نئے عہد میں پرانی بات دہرا کر اپنا ’فرض‘پورا کر دیا۔
حقائق بتاتے ہیں کہ مرکزی حکومت ،کے رحمان خان یا ان کے پیشرو سلمان خورشید
کے اس طرح کے بیانات اور رویوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو پوری طرح ناامید
کر رکھا ہے۔مسلمان ان جھوٹے اور فریبی وعدوں سے پوری طرح پک چکے ہیں اس کے
باوجود ان لوگوں کو خوش گمانی ہے کہ مسلمان ان کے جھانسے میں آجائیں
گے۔لیکن مسلمانوں نے جو سوچ رکھا ہے اس کی انھیں بھنک بھی نہیں ہے۔اگر میرا
احساس کانگریس ،یوپی اے یا کے رحمان خان تک پہنچ رہا ہے تو میں کہنا چاہوں
گا کہ اس مرتبہ مسلمانوں کا عزم کانگریس کے اقتدار کو خاک میں ملانا ہے اور
’عام آدمی ‘کی حکومت بنا نا ہے ۔
کے رحمان خان یا کانگریس میں شامل مسلمان کس قدر عام مسلمانوں یا عوام کے
ہمدرد ہیں اس کا اندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے جو بے قصور مسلم
نوجوانوں کی گرفتاریوں اورمابعد گر فتاری ان کی رہائی کی راہوں میں اڑچنیں
پیدا کر نے سے تعلق رکھتے ہیں ۔طارق قاسمی ،خالد مجاہد ،محمد کفیل ،قتیل
صدیقی ،اسی طرح کے متعدد نام ہیں جن کے متعلق انھیں کسی طرح یقین ہی نہیں
آتا کہ یہ مسلم نوجوان معصوم و بے قصور ہیں بلکہ یہ آنکھ بند کر کے ان کے
تعلقات غیر ملکی ایجنسیوں سے جوڑے ہوئے ہیں اور انھیں سبق سکھانے لیے جیلوں
میں بھر رکھا ہے ۔ کیا یہ صورت حال افسوس ناک نہیں ہے کہ مظفر نگرجلتا رہا
اور یہ لیڈران اسے ریاستی مسئلہ کہہ کر دست کش رہے۔آسام دہکتا رہا اور یہ
اس کی جانب سے لاپرواہ رہے ۔کشمیرآتش فشاں پے ٹکا ہے اور انھیں کوئی ہوش
نہیں ہے۔اکثریتی فرقے مسلمانوں کی زمینیں ہڑپ کررہے ہیں اورانھیں خبر تک
نہیں ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ کانگریس کا دامن تھامنے والے تمام مسلمانوں
نے اپنے دلوں کو انسانیت اور ہمدردی سے خالی کر رکھا ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے
ان سے کانگریس میں شمولیت کے وقت باقاعدہ اس بات کا عہد لیا گیا ہو کہ
تمھیں بالخصوص مسلمانوں کی لاشوں پربھی جشن منانا ہے اور انھیں ہی ان کے
قتل کا ذمے دار ٹھیرا کر مسلم اقلیت کے جذبات پر آری چلانا ہے۔آج کے رحمان
خان،وجاہت حبیب اﷲ، غلام نبی آزاد،پرو فیسرسیف الدین سوزاور دیگر کانگریسی
لیڈران و اتحادی جماعتوں کے مسلم چہرے اس عہدکو پوری طرح نبھارہے ہیں اور
میڈم سونیا گاندھی ، شہزادے راہل گاندھی کی خوشنودی حاصل کر رہے ہیں ۔انھیں
خدا کا خوف نہیں ہے ۔یوم حساب کا ڈر نہیں ہے ۔مسلمانوں کی بے بس چیخوں سے
انھیں ہول نہیں آتا ۔انھیں مہنگائی کے سبب خودکشی کر نے والوں اور مرنے
والوں کے متعلق سن کر کپکپی نہیں آتی ہاں! سو نیا گاندھی یا راہل گاندھی کے
نرم گرم تیور انھیں دہلا دیتے ہیں ۔ میں آج جنوں میں جانے کیا کیا بک رہا
ہوں ۔خدا کرے کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آئے ۔تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہ اس قوم
کے فرد کے احساسات ہیں جسے ملک کی آزادی کے 68سال بعد بھی نام چارے کے لیے
حکومتوں کی جانب جھوٹے وعدو ں اور محرومیوں کے سو ا کچھ نہیں ملا !
سونیا گاندھی ،منموہن سنگھ یاکے رحمان خان !یہ سیاسی بازیگر کیا جانیں کہ
وقف کیا ہے۔اوقاف کی شرعی حیثیت کیا ہے اور جائداد موقوفہ کے حقوق کیا ہیں
؟ آج دہلی و اطراف میں ایسی سیکڑوں مسجدیں ، مقبرے اور قبرستان ایسے ہیں
جنھیں دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی،ایم سی ڈی یا محکمہ آثار قدیمہ نے اپنے قبضے
میں کر رکھا ہے وہاں مسلمانوں کے جانے پر تو پابندی ہے اور جرائم پیشہ
عناصر کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔یہ لوگ وہاں لڑکیاں گھما کر ،منشیات کا
استعمال کر کے اور مسلمانوں بادشاہوں کی تو ہین کرکے اوقاف کی بے حرمتی
کرتے ہیں ۔یہ صرف دہلی کا حال ہے مدھیہ پردیش ،آندھرا،رجستھان ،ہریانہ ،اتر
پردیش اور ملک کی دیگر ریاستوں کا کیا حال ہے اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں
۔ اگر کے رحمان خان کچھ کرنا ہی چاہتے ہیں تو ان اوقاف کو غنڈہ عناصر سے
آزاد کرائیں ،مگر اب کیا کرا ئیں گے ۔اب ان کی زندگی ہی کتنی ۔بہت جلد پورا
ملک اور پوری دنیا دیکھے گی کہ ’عام آدمی‘کے سخت تیوروں اور تبدیلی کی لہر
کے سبب آنے والا طوفان کانگریس کے محلات کو اڑا کر رکھ دے گا۔
احـســاس
کیا یہ صورت حال افسوس ناک نہیں ہے کہ مظفر نگرجلتا رہا اور یہ لیڈران اسے
ریاستی مسئلہ کہہ کر دست کش رہے۔آسام دہکتا رہا اور یہ اس کی جانب سے
لاپرواہ رہے ۔کشمیرآتش فشاں پے ٹکا ہے اور انھیں کوئی ہوش نہیں ہے۔اکثریتی
فرقے مسلمانوں کی زمینیں ہڑپ کررہے ہیں اورانھیں خبر تک نہیں ہے ۔سچی بات
تو یہ ہے کہ کانگریس کا دامن تھامنے والے تمام مسلمانوں نے اپنے دلوں کو
انسانیت اور ہمدردی سے خالی کر رکھا ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے ان سے کانگریس
میں شمولیت کے وقت باقاعدہ اس بات کا عہد لیا گیا ہو کہ تمھیں بالخصوص
مسلمانوں کی لاشوں پربھی جشن منانا ہے اور انھیں ہی ان کے قتل کا ذمے دار
ٹھیرا کر مسلم اقلیت کے جذبات پر آری چلانا ہے۔ |