ڈاکٹر مبشر ندیم
کئی بار سوچا کہ دہشت گردی کے حوالے سے اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنا
کر زیبِ قرطاس کروں ، مذاکرات مذاکرات اور آپریشن آپریشن کھیلنے والے
سیاستدانوں ، دانشوروں ، تجزیہ نگاروں اور صحافی دوستوں کو بتانے کی کوشش
کروں کہ یہ صرف شاخ تراشی کی باتیں ہیں اور ان سے دہشت گردی کا درخت مزید
مضبوط ہو گا ۔ ٹی وی پر بیٹھ کر اسلام کی آڑ میں قتل و غارت گری کرنے والوں
کیلئے نرم گوشہ رکھنے والوں ، ان کی حمایت کرنے والوں اور مذہبی شدت پسندی
کو بنیاد بنا کر اسلام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے والوں ، مذہب کو دیس
نکالا دینے کی بات کرنے والوں کو اپنی اس تشویش سے آگاہ کروں کہ آپ کی ان
باتوں سے قوم دو متحارب دھڑوں میں تقسیم ہو رہی ہے ۔ سب کو یہ بات بھی باور
کرانے کی کوشش کروں کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمہ دارصرف طالبان
نہیں یہاں اور بھی بہت سے ظالمان ہیں ۔بلوچستان میں بد امنی کی بڑی وجہ
وہاں پیداہونے والا احساس محرومی ہے ، کراچی سیاسی اختلافات اور مختلف
گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان شہر کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے ہونے
والی جنگ کی وجہ سے جل رہا ہے،مساجد، امام بارگاہیں اور علماء مسلکی
اختلافات کی وجہ سے نشانہ بن رہے ہیں ۔ اس موضوع پر لیکن جب بھی قلم اٹھایا
یہ سوچ کر رکھ دیا کہ ان باتوں کاتوسب کو علم ہے ۔ ہماری سیاسی اور عسکری
قیادت کو سب پتہ ہے ، ہمارے دانشور اور تجزیہ نگار بہت جانتے ہیں،بس اپنے
اپنے مفادات ہیں جس کی وجہ سے بھانت بھانت کر بولیاں بولی جا رہی ہیں ۔
سیاستدانوں نے سیاست کرنی ہے ، عسکری قیادت نے فوجی امداد لینی ہے، تجزیہ
نگاروں اوردانشوروں نے اپنی مرضی کے تجزیے کر کے اور اپنے تئیں دانش کے
موتی بکھیر کر قد بڑھانے ہیں، جتنے قد بڑھیں گے اتنی قیمت زیادہ ملے گی،کسی
کو ملک سے اور کسی کو ملک کے باہر سے۔ٹی وی چینلز نے ریٹنگ بڑھانی ہے اور
پیسے کمانے ہیں، اور بھی بہت سے مفادات ہیں ان سب کے بھی اور دیگر بہت سارے
لوگوں کے بھی ۔ ڈالر کی چکا چوند اس کے علاوہ ہے ، اس لیے کوئی بھی اس
مسئلے کے حل میں سنجیدہ نہیں،یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے ،
دھماکوں سے زمین لرز رہی ہے انسانی خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے لیکن سارا
زور کانفرنسوں ،میٹنگوں اور ٹی وی پر ہونے والے گرما گرم مباحثوں پر ہے۔
سوائے دہشت گردوں کے کسی کو نہیں پتہ کہ کیا کرنا ہے ، کب کرنا ہے اور کس
نے کرنا ہے، مذاکرات اور آپریشن کے حق میں دلیلیں دی جا رہی ہیں ، لیکن
مذاکرات ہو رہے ہیں نہ آپریشن ۔ اصل میں مرنے والے عام اور غریب لوگ ہیں ،
فوجی ہوں یا سویلین اس لیے بڑوں کو کوئی پرواہ نہیں وہ تو بس ان کی لاشوں
پر کھڑے ہو کہ اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں ۔
اسی مخمصے میں تھاکہ کیا کروں ، اپنے احساسات و خیالات سپرد قلم کروں یا
رہنے دوں،جب اتنے بڑے بڑے صحافی جن کا ارباب حل و عقد کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا
ہے ان کے لکھنے سے کوئی فائدہ نہیں تو میرے لکھنے سے کیا ہو گا ؟اس پرایک
صاحب نے بہت خوبصورت بات کی،کہنے لگے آپ کے پاس بہتری کی کوئی تجویز ہے وہ
اگر پیش نہیں کریں گے تو آپ بھی مجرم ہوں گے، عمل کرنا نہ کرنا ان کا مسئلہ
ہے ، اس کا جواب خالق کائنات کے سامنے وہ دیں گے کہ انہوں نے مخلوق خدا کی
بہتری کے بجائے اپنی ذات کیلئے کیوں سوچا ؟آپ سے سوال ہو گا کہ جو صلاحیت
آپ کو دی تھی اس کا کتنا اور کیا استعمال کیا، یہ سن کر کچھ حوصلہ ہوا اور
چند گزارشات قلمبند کرنے کا فیصلہ کیا۔
ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ جب میرے جیسے عام آدمی کوبھی اندازہ ہے
کہ یہ مسئلہ صرف مذاکرات یا صرف آپریشن سے حل نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے
ایک ہمہ جہت (multidimentional)پالیسی کی ضرورت ہے تو ان کی عقل میں یہ بات
کیوں نہیں آتی جو ملک کی قسمت کے مالک ہیں یا جن کا کام صبح شام تجزیے کرنا
اوردانش بگھارنا ہے ۔ جو لوگ صرف مذاکرات کا راگ الاپ رہے ہیں ان میں سے
اکثر جان کی امان چاہتے ہیں اور کچھ کے سیاسی مفادات ہیں ، جو صبح شام
آپریشن کی بات کر رہے ہیں ان کا مقصد امریکہ بہادر کی خوشنودی اور شاہ سے
بڑھ کر شاہ سے وفاداری کا اظہار ہے اور کچھ بین الاقوامی دنیا کو یہ بتانا
چاہتے ہیں کہ ہم ’’روشن خیال ‘‘ ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ہیں،دونوں طرف
بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ملکی مفادات میں مذاکرات یا آپریشن کی بات کر رہے
ہیں۔جولوگ سنگلاخ چٹانوں میں مورچہ زن گروہوں کے بارے میں تھوڑابہت جانتے
ہیں ان کے علم میں ہے کہ وہاں کچھ گروہ ایسے ہیں جو اپنے سارے مخالفین کو
واجب القتل سمجھتے ہیں،ملکی آئین کو نہیں مانتے اورطاقت کے زورپراپنے
نظریات سب پرمسلط کرنا چاہتے ہیں، ان سے کیا مذاکرات کیے جائیں گے اور کن
شرائط پر کیے جائیں گے ؟ ایسے ہی وہاں بہت سارے قبائل ایسے ہیں جنہیں ہماری
پالیسیوں اور دوسروں کی خاطر لڑی جانے والی اس جنگ نے جس میں ان قبائل
کاجانی اورمالی نقصان ہواہے ہمارا مخالف بنا دیا ہے ، ان میں محسودقبائل
سرفہرست ہیں،وہ نہ صرف محب وطن ہیں بلکہ انتہائی سخت جان بھی ہیں ۔ ان کی
سخت جانی کا قصہ ایک فوجی جوان نے مجھے سنایا ،بقول اُس کے ایک گاؤں میں
آپریشن کے دوران جب وہ ایک گھرمیں داخل ہوئے توبستر پر لیٹی اسی سالہ بیمار
بوڑھی نے جس کے ہاتھوں میں رعشہ تھااور پستول بھی ٹھیک سے نہیں پکڑ سکتی
تھی اس نے بھی فوجیوں پر فائرنگ کی اس کے چہرے پر نفرت اور غصہ تھا ۔ان میں
سے اکثر کسی نظریے کی خاطر نہیں لڑ رہے بلکہ اپنی انا اور عزت کی جنگ سمجھ
کر لڑ رہے ہیں ، ان کے خلاف آپریشن سے نہ صرف ہم خود کو ایک نہ ختم ہونے
والی جنگ میں پھنسا دیں گے بلکہ ان قبائل کو اپنا مزید دشمن بھی بنا لیں گے
۔ پھر وہاں بہت سارے وار لارڈز ہیں ان کے نظریات ہیں نہ کوئی منزل ، وہ نہ
تو محب وطن ہیں اور نہ ہی ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے ذاتی
مفادات ، طاقت ، اختیار اور بد معاشی کیلئے اسلحہ اٹھایا ہوا ہے،ان سب
کیلئے الگ الگ حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ پہلے گروہ کے خلاف آ پریشن کرنا ہو
گاآج نہیں تو کل ، لیکن اس سے پہلے ایسے حالات پیدا کرنے ہوں گے جس سے ملک
کے طول و عرض سے دامے ، درمے ، سخنے ان کی جو مدد ہو رہی ہے وہ بند ہو جائے
۔امریکہ دشمنی کے نام پر وہ نوجوانوں کواپنے ساتھ ملارہے ہیں اوہمدردیاں
سمیٹ رہے ہیں،اس لیے ان کے خلاف آپریشن کرنے سے پہلے حکومت کو امریکی
اتحادسے نکلناہوگا،دوست نما اس دشمن سے اپنا دامن چھڑاناہوگا،واضح اعلان
کرناہوگاکہ امریکی جنگ میں ہم فریق نہیں ہیں،ساتھ ہی یہ جراتمندانہ موقف
بھی اپناناہوگاکہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے،ریاست
کے اندرریاست برداشت نہیں کی جائیگی۔امریکی جنگ سے نکلنے کے باوجودجو لوگ
ہتھیار نہیں رکھیں گے(اور ایسے کچھ گروہ ضرورہوں گے)،اُن کے خلاف آپریشن پر
سب حکومت کے ساتھ ہوں گے اور وہ لوگ معاشرے سے کوئی افرادی قوت بھی حاصل
نہیں کرسکیں گے۔ساتھ ہی قبائل سے مذاکرات کی پالیسی بھی اپناناہوگی، جو عزت
کی جنگ سمجھ کر لڑرہے ہیں انھیں عزت دیناہوگی،اُن کی روایات کاخیال رکھتے
ہوئے ان کی معاشی اور تعلیمی حالت بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں
گے،ان کویقین دلاناہوگاکہ جب بھی آپریشن ہوگااس کی زد میں کوئی بے گناہ
نہیں آئے گااوریہ صرف یقین دہانی نہیں ہونی چاہیے۔وارلارڈزمیں سے
جوسُدھرسکتے ہیں ٹھیک جوسدھرنے والے نہیں ان کے خلاف بھی طاقت استعمال
کرناہوگی۔ان تمام اقدامات کے بغیرامن کاحصول دیوانے کا خواب ثابت ہوگا۔ |