کچھ قوتیں مذاکراتی عمل کوسبوتاژ کرسکتی ہیں

ایک طویل عرصے سے ملک میں امن کے قیام کی کوششوں کے کامیاب ہونے کی امید پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کو عملی جامہ پہنائے جانے کی کوشش عملی طور پر شروع ہوچکی ہے۔

حالانکہ ملک دشمن عناصر اور ان کے بہت سے آلہ کار طالبان کے خلاف آپریشن کرنے پر مصر تھے، کافی حد تک تو وہ عناصر اپنے مشن میں کامیاب بھی ہوچکے تھے۔ قریب تھا کہ حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر آپریشن کا اعلان کردیا جاتا۔اسی لیے مذاکرات کے فیصلے سے چند گھنٹوں قبل تک حکومت کے اعلیٰ حلقوں میں ہر ایک کو یقین تھا کہ وزیراعظم بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کی شروعات کا اعلان کرنے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ قومی اسمبلی میں ان کا پالیسی بیان بھی فوجی آپریشن کے جواز میں تھا اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے یہاں تک کہہ دیاتھا کہ فوجی آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور اسے 10سال قبل کرلیا جانا چاہیے تھا، لیکن اچانک وزیر اعظم نے مذاکرات کا فیصلہ کرکے سب کو حیران کردیا۔ یہ سب کچھ امریکا کے محفوظ انخلاءکے لیے ہوا ہے یا پھرواقعی وزیراعظم میاں نوازشریف ملک میں امن کے قیام کے خواہاں ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ ضرور محسوس کیا جارہا ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے ہونے والی تازہ کوشش میں سنجیدگی اور امن کی خواہش دکھائی دے رہی ہے۔اسی لیے وزیر اعظم نے فوری طور پر چاررکنی مذاکراتی ٹیم بھی تشکیل دے دی۔

وزیراعظم کی طرف سے تشکیل دی گئی اس کمیٹی میں عرفان صدیقی، میجر عامر، رحیم اللہ یوسف زئی اور رستم شاہ مہمند شامل ہیں۔ عرفان صدیقی کی معاملہ فہمی اور مذہبی حلقوں میں پذیرائی سے ایک زمانہ واقف ہے۔ میجر عامر کی قوت عمل بھی اپنے آپ کو منوا چکی ہے۔ ان کے والد مولانا محمد طاہر ایک ممتاز عالم دین تھے، مولانا عبداللہ سندھیؒ کے حلقہ بگوش اور مفتی محمد شفیع ؒ کے ہم سبق تھے۔ رحیم اللہ یوسف زئی صوبہ خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اخبار نویس ہیں۔ رستم شاہ مہمند صوبہ سرحد کے چیف سیکرٹری اور وفاقی سیکرٹری داخلہ رہے ہیں، افغانستان میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھی کام کیا۔ اب تحریک انصاف میں شامل ہیں، لیکن طالبان کے معاملات پر گہری نظر رکھتے۔وزیراعظم نوازشریف نے طالبان سے مذاکرات کے لیے معتدل غیر سرکاری شخصیات پر مشتمل کم درجہ کی کمیٹی جان بوجھ کر تشکیل دی ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اہم وفاقی وزرا یا فوجی افسران کو کمیٹی میں شامل کرنے سے طالبان کو غلط پیغام جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی ہوسکتی تھی۔ وزیراعظم نوازشریف نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کے لیے تشکیل دی جانے والی چار رکنی کمیٹی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ امن معاہدے کے لیے سنجیدہ ہے اور امن کے لیے کیا جانے والا یہ اقدام دھوکا نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کمیٹی کو اجازت دی ہے کہ وہ براہِ راست طالبان رہنماﺅں کے ساتھ رابطہ قائم کرسکتے ہیں اور وزیراعظم نے کمیٹی کو یہ اختیارات بھی دیے کہ وہ کسی بھی سرکاری ادارے یا محکمے سے معاونت حاصل کرسکتے ہیں۔جس کے بعدحکومتی مذاکراتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی نے عزم ظاہر کیا کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر تمام خطرات کو پس پشت ڈال کر جان کی پروا کیے بغیر طالبان سے مذاکرات کے لیے شمالی وزیرستان بھی جانا پڑا تو ضرور جائیں گے، طالبان بھی نتیجہ خیزمذاکرات چاہتے ہیں اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں، کمیٹی بے اختیار ہے نہ ڈاک خانے کاکرداراداکرے گی، بلکہ مطالبات پر بحث بھی کرسکتی ہے، کوشش ہو گی بات چیت مہینوں یا سالوں نہیں بلکہ دنوں پر محیط ہو، ہم کوشش کریں گے کہ باریکیوں میں نہ جائیں۔ ہمارا کام امن کے قیام کا ہدف پورا کرنا ہے، اگر طالبان یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کمیٹی سے کسی کو نکال دیا جائے تو ہم ضد نہیں کریں گے۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لیے جہاں معروف اور سینئر صحافیوں کو کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے، وہیں فریقین میں رابطہ کار کے لیے انصار الامہ کے امیر مولانا فضل الرحمن خلیل سے بھی معاونت طلب کی ہے اور انہیں مذاکرات میں اہم کردار دینے کے لیے سعودی عرب سے جہاں وہ عمرہ کی ادائی کے لیے گئے ہوئے تھے، خصوصی طور پر واپس بلا یاہے۔طالبان نے حکومتی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے حکومت کی سنجیدگی کو سراہا اوراسی روزحکومتی چاررکنی کمیٹی پر اطمنان کا اظہار کیا ، جبکہ ہفتے کے روز شیخ خالد کی قیادت میں طالبان شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے 20 سے زاید طالبان کمانڈروں نے شرکت کی اور طالبان شوریٰ نے حکومت سے مذاکرات کے لیے 5 افراد نامزد کیے، ان میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم، جمعیت علماءاسلام (ف) کے مفتی کفایت اللہ اور لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز شامل ہیں۔ جن میں سے اکثر نے کھلے یا دبے لفظوں میں طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں شمولیت کی تصدیق کرتے ہوئے آمادگی کا اظہار کیا ہے، جبکہ تحریک انصاف نے عمران خان نے اس حوالے سے کور کمیٹی کا اجلاس(آج) پیر کو طلب کیاہے۔

حکومتی ذرائع کاکہناہے کہ حکومتی کمیٹی سے طالبان کے باضابطہ مذاکرات آئندہ چند روز میں شروع ہوجائیں گے۔حکومتی ذرائع کے مطابق اعلیٰ حکومتی شخصیت کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعدحکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ایک اہم رکن رکن میجر(ر)محمدعامرنے ایک مذہبی شخصیت کے توسط سے طالبان قیادت تک حکومتی پیغام پہنچادیاہے،اس پیغام میں کہاگیاہے کہ باضابطہ مذاکرات کے آغازکے بعدحکومت یہ یقین دہانی کراتی ہے کہ مذاکرات کے نتائج تک اگر طالبان کی جانب سے کوئی حملہ نہیں کیا جاتا ہے تو حکومت طالبان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کرے گی،اس مثبت پیغام کے بعدطالبان نے بھی حکومتی ذرائع کویقین دہانی کرائی ہے کہ شوریٰ کے حتمی فیصلے کے بعدباضابطہ طور پر اعلان کیاجائے گا کہ مذاکراتی عمل کے دوران کوئی حملہ نہیں ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق مذاکرات میں سب سے پہلے دونوں جانب سے سیز فائر کے اعلان کے بعد طالبان کے بعض رہنماﺅں کی رہائی اور ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے حوالے سے باضابطہ بات چیت ہوگی، ان مذاکرات کو کامیاب بنانے میں ملک کے چندجیدعلمااہم کردار اداکررہے ہیں اورمسلسل فریقین سے رابطے میں ہیں ،ابتدائی مذاکراتی عمل کے بعد فاٹا کے کسی مقام پر باضابطہ ملاقات کی جائے گی،ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان شوریٰ نے اپنی مذاکراتی کمیٹی کو مکمل اختیارات دینے کا بھی فیصلہ کیاہے اور حکومتی کمیٹی کے ایک اہم رکن جلد پشاور روانہ ہوں گے اور اگر طالبان کی جانب سے اعلان کردہ پانچوں ارکان کمیٹی میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر پشاور سے ہی مذاکرات کا آغاز ہوگا،دونوں جانب سے بیک ڈور چینل کے ذریعے شرائط طے کی جارہی ہیں،شرائط نامہ مکمل ہونے کے بعد اعلیٰ حکومتی قیادت کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد باضابطہ طور پر رابطہ کیا جائے گا۔ طالبان کے بڑے رہنماءملا فضل اللہ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز جلد ہونے کا سگنل مل گیا ہے۔ملا فضل سے باقاعدہ رابطہ ہوگیا ہے،لیکن وزیراعظم کی طالبان سے رابطہ کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے ایک اہم رکن جلد افغانستان کے نامعلوم مقام پر مولوی فضل اللہ سے ملنے جائیں گے اور دیگر طالبان رہنماﺅں سے وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی کے ارکان جلد وزیرستان کے نامعلوم مقام ان رہنماﺅں سے ملاقات کریں گے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ کمیٹی کے کچھ ارکان نے مختلف طالبان رہنماﺅں کے ساتھ رابطے کیے تھے،جن میںانہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مذاکرات میں کسی بھی سطح پر انٹیلی جنس سے وابستہ کوئی شخص شامل نہیں ہوگا۔ چار رکنی کمیٹی کے دو ارکان نے پہلے ہی ٹی ٹی پی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ کسی بھی سطح پر مذاکرات میں کسی بھی انٹیلی جنس عہدیدار کو شامل نہیں کریں گے۔ادھر طالبان کے لیڈروں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اور قطر کے حکمرانوں سے نئی صورت حال کے بعد باقاعدہ رابطہ کیا جا رہا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان نے سیاسی قیادت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دے کر ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔ ایک طرف تو حکومت کو مخمصے میں ڈال دیا ہے تو دوسری طرف عمران خان کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا ہے۔ طالبان نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے جواب میں ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بال ایک مرتبہ پھر سیاسی قیادت کے کورٹ میں پھینک دی۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کے مطابق پانچوں کمیٹی ممبران کی منظوری مرکزی شوریٰ نے دی۔ پانچوں ممبران کو نام شامل کرنے سے پہلے اعتماد میں لیا گیا، جبکہ 22نکاتی شرائط کمیٹی کے ذریعے حکومتی کمیٹی کو بھجوا دی جائیں گی۔ حکومت اور طالبان دونوں نے اپنے تئیں بھرپور سیاسی چال کا مظاہرہ کیا۔ کمیٹیوں کے اصل فریقین نے اپنے آپ کو مذاکراتی عمل میں براہ راست شمولیت سے دور رکھا ہے۔ کمیٹی میں جہاں خیبر پختونخوا کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے، وہاں دو جید علمائے کرام کو بھی حصہ بنایا گیا ہے۔ اب اس صورتحال میں مذاکرات میں کوئی بھی اونچ نیچ ہو گی تو دونوں طرف سے ذمہ دار سیاسی قیادت ہو گی۔ تحریک طالبان پاکستان کے ذرائع کے مطابق اب اگر حکومتی کمیٹی کی جانب سے کوئی بدنیتی دکھائی گئی تو وہ ذمہ دار حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کو سمجھیں گے۔ اسی طرح حکومتی کمیٹی کے ممبران بھی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی و دیگر پر مشتمل کمیٹی کو ہدف بنا سکتے ہیں۔

دوسری جانب ملک کے جید علمائے کرام نے حکومت اور تحریک طالبان کی مذاکرات پر آمادگی کا خیرم مقدم کرتے ہوئے اس مقصد کے لیے بنائی گئی کمیٹی کو مثبت قدم قرار دیا اور یہ اپیل کی کہ ہر طرح کی مسلح کارروائیوں، خوںریزی اور تخریب کاری کے ہر اقدام کو فوری طور پر بند کیا جائے، مذاکرات سنجیدگی،حقیقت پسندی اور ملک و ملت کی خیرخواہی کے ساتھ کیے جائیں۔ علمائے کرام نے کہا ہے کہ جو دشمن طاقتیں لڑاﺅ اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت ملک کو خانہ جنگی کا شکار دیکھنا چاہتی ہیں، وہ مختلف حربوں سے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گی، جیسا کہ ماضی میں کیا ہے، ہم فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسی ملک دشمن کوششوں کو اپنے اخلاص کے ذریعے ناکام بنائیں اور جذبات پر قابو رکھ کر قیام امن کی کوشش کو ہر قیمت پر جاری رکھیں۔جہا ں ایک طرف مذاکرات کے حوالے سے کی گئی کوشش ثمر آور ہوتی نظر آرہی ہے، وہیں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ دشمن ملک عناصر ان مذاکرات کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکا نے سرتاج عزیز کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ مذاکرات کے دوران ڈرون حملہ نہیں کریں گے، لیکن اس کے باوجود ملک میں بلیک واٹر جیسی خفیہ تنظیموں کے ذریعے کارروائی کی جاسکتی ہے۔ ان مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے دشمن عناصر کسی بھی قسم کی کارروائی کرسکتے ہیں۔ ملک میں بڑے پیمانے پر دشمن کے خفیہ عناصر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں،ذرائع کے مطابق بلیک واٹر ملک میں مقامی این جی اوز اور ملکی اداروں میں اپنے بہت سے کارندوں کو بھرتی کروا چکی ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان نے بھی اس خطرے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے عمل کوسبوتاژ کرنے کے لیے کچھ قوتیں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں اندرونی اور بیرونی سازشی عناصر کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امیر جماعت اسلامی سید منورحسن نے بھی اس سے ملتا جلتا بیان دیا ہے کہ امریکا و بھارت طالبان سے مذاکرات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے اور مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے۔ لہٰذا طالبان سے مذاکرات کے مخالف گروپوں، لابیوں، بیرونی و اندرونی قوتوں کی قوت اور اثر و رسوخ کے باعث حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی کے چاروں ارکان کو سلامتی کے سنگین خطرات ہیں، حکومت نے انہیں مکمل سیکورٹی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ طالبان سے مکالمے کی پاکستانی حکومت کی خواہش پربعض غیر ملکی حکومتوں نے اپنی کھلی ناراضی کا اظہار بھی کیا ہے اور بات چیت کو عملاً روکنے یا ناکامی کے لیے کوشاں ہیں، ان بیرونی قوتوں کے نمائندے پاکستان کے اندر تقریباً تمام شعبوں میں موجود ہیں، انتہائی طاقتور خفیہ کھلاڑیوں کی مدد سے یہ لابیاں نہ صرف اپنے مخالفین کو بزور قوت منظر سے ہٹا دیتی ہیں، بلکہ پاکستان میں مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچانے میں ہمیشہ کامیاب رہتی ہیں، وفاقی حکومت ان حقائق سے بخوبی واقف ہے اور طالبان سے بات چیت کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے تشکیل کردہ کمیٹی کے چاروں ارکان کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرے گی۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 641784 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.