پھر مذاکرات کا راگ

یہ مذاکرات ایک بہانہ ہیں

یوں لگتا ہے کہ وطن عزیز کے رہنے والوں کیلئے جائے اماں کم ہوتی جارہی ہے، کسی کی زندگی محفوظ نہیں،ملک کا کوئی گوشہ دہشت گردوں کی پہنچ سے دور نہیں، ہر گزرنے والی ساعت اپنے ساتھ ہلاک اور خونریزی کی اِک نئی خبر لاتی ہے،مٹھی بھر عناصر کے ہاتھوں پورا ملک دہشت اور بربریت سے لرز رہا ہے ، بنوں، راولپنڈی، لاہور، کراچی، مستونگ، فیصل آباد، گوجرا نوالہ، کبیر والا، مانسہرہ ،پشاور اور پنجگور ملک دشمن عناصر اور تخریب کاروں کے نشانے پر ہے ،صرف ایک ماہ کے دوران سو سے زیادہ بے گناہ شہری،پولیس اور عسکری اہل کارشہید ہو چکے ہیں،اِس بے گناہ ہلاکتوں میں راہ گیر، انسداد پولیو مہم کی رضا کار خواتین اور مرد، بہادر اور جانباز محافظ اور طالب علم سبھی شامل ہیں۔محب وطن حلقے اس صورتحال پر دل گرفتہ اور بے چین ہیں،جبکہ سیاسی اور سماجی حلقے اپنی برہمی کا اظہار کرتے رہے ہیں،دہشت گردی کا پھنکارتا ہوا بے لگام عفریت ملک وقوم کی بنیادیں ہلا رہا ہے مگر ہمارے ارباب اقتدار سوچ وبچار کی کیفیت سے باہر ہی نہیں آرہے ہیں، گذشتہ دنوں کابینہ کے اجلاس کے حوالے سے یہ اطلاع بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت درپیش حالات میں ایک اور اے پی سی بلانے کا منصوبہ بنا رہی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ پچھلے سال 9ستمبر کو ہونے والی اے پی سی کے فیصلوں پر آج تک کوئی سنجیدہ پیش رفت کیوں نہیںکی گئی،جب پچھلی اے پی سی بے مقصد رہی تو پھر ایک اور اے پی سی بلانے کا فائدہ۔؟

امر واقعہ یہ ہے کہ بہت ہو چکی ہے ، تباہی وبربادی نے ہماری معیشت ومعاشرت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے،ایک عشرے سے زائد عرصے پر محیط دہشتگردی نے ہمیں بحیثیت مجموعی مسائل ومصائب کی ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچارکررکھا ہے، جس کا تقاضہ ہے کہ جلد از جلد اس عذاب سے باہرنکلا جائے ،دوسری طرف طالبان یا دہشتگرد عناصر اپنی حکمت عملی میںبہت واضح دکھائی دیتے ہیں، انہوں نے پہل قدمی کا آپشن اپنا رکھا ہے جس کے نتیجے میں وہ جب، جہاں اور جیسے چاہتے ہیں دہشتگردی کی وارداتوں کو عملی جامہ پہنا دیتے ہیں، بنوں میں ہمارے بہادر سپاہیوں کے کانوائے پر حملہ سے لے کر، راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے قرب میں آر اے بازار میں خودکش واردات اور چاروں صوبوں میں انسداد پولیو مہم کے رضا کاروں پر قاتلانہ حملے سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیںجو حکومت سے جوابی حکمت عملی اختیار کرنے کی متقاضی ہیں، اب تو رائے عامہ کا ایک بڑا حلقہ مطالبہ کرتا نظر آتا ہے کہ حکومت جرات کا مظاہرہ کرکے اِن ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرے اور آمادہ پیکار عناصر کو پوری ریاستی طاقت کے ساتھ کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔

لیکن شدید عوامی دباؤ کے باجود حکومت نے ایک بار پھر مذاکرات کا راستہ اپنایا ہے اور وزیراعظم نے 4 ارکنی مذاکراتی کمیٹی جس میں عرفان صدیقی،رحیم اللہ یوسف ذئی،میجر ریٹائرڈ عامر اور سابق سفیر رستم خان مہمند شامل ہیں،جبکہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی جو کہ جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم، جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مفتی کفایت اللہ، لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور عمران خان پر مشتمل ہے، میں ان کا اپنا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہے۔بظاہر کمیٹی کے قیام اوراپوزیشن جماعتوں کواعتمادمیں لئے جانے کے اقدام پر قومی اسمبلی میں وزیراعظم کو غیر معمولی پذیرائی ملی اور طالبان کے حوالے سے صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا ہے،وزیراعظم کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش نے بظاہر منظرنامہ بدل کر رکھ دیا ہے اور امن کو ایک بار پھر موقعہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے،وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ قوم کو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیں گے اوردہشت گردی اور قتل وغارت مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔

واضح رہے کہ وزیراعظم کے خطاب سے دو دن پہلے تک کچھ اس قسم کے اشارے مل رہے تھے کہ حکومت طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ، پچھلے کچھ عرصے سے جس انداز میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ،اس نے نفسیاتی طور پر لوگوں میں آپریشن کی حمایت بڑھادی تھی اور اس بات کا اعتراف خود وزیر اعظم نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کیا تھا، وزیر اعظم نے اس وقت دو ٹوک انداز میں کہا کہ مذاکرات صرف انہی قوتوں سے ہونگے جو ریاست کی رٹ قبول کریں گے جبکہ وہ عناصر جو ریاست کی رٹ قبول کرنے کی بجائے جنگ چاہتے ہیں ان سے اب کھلی جنگ ہوگی،یہ منظر نامہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی سطح پر کہیں نہ کہیں آپریشن کی حمایت کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا، تاہم اس دباﺅ کے باوجود امن کو ایک بار پھر موقعہ دیا گیا ہے اورحکومت نے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دے کر گیند طالبان کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے،ماضی کے تلخ تجربات اور کئی بار ہونے والے مذاکرات کی روشنی میں بہت سے حلقے بے یقینی کا شکار ہیں ، انہیں مذاکرات کی کامیابی کایقین نہیں، یہی صورتحال قوم کی بھی ہے ،لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ پہلے مذاکرات کون سا دیرپا اور حوصلہ افزا ثابت ہوئے جو ایک بار پھر مذاکرات کا راگ الاپا جارہا ہے، یہ درست ہے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ،معاملات بات چیت سے ہی حل ہوتے ہیں،لیکن یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں جانب سے معاہدوں کی پاسداری کی جائے،مگر دیکھا یہ گیاکہ ماضی کے معاہدوں سے فریق مخالف نے نہ صرف فائدہ اٹھایا بلکہ معاہدوں کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومتی رٹ کو چیلنج بھی کیا،اسی طرح اُن قوتوں کا کردار بھی شک و شبے سے بالاتر نہیں جو دہشت گردوں کے خلاف سرجیکل آپریشن کا سن کر بات چیت اور امن معاہدوں کیلئے متحرک ہوجاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں تادیبی کاروائی سے بچایا جائے،اس بار بھی یہی قوتیں متحرک ہیں اور حکومت کو باور کروارہی ہیں کہ وہ فوجی آپریشن کی غلطی نہ کرے وگرنہ یہ جنگ قبائلی علاقوں سے نکل کر ملک کے شہری علاقوں میں داخل ہوجائے جو حکومت کیلئے نئی مصیبت کھڑی کرسکتی ہے، سوال یہ ہے کہ اس وقت کونسا سا ملک کے شہری علاقے ان دہشت گردوں کی کاروائیوں سے محفوظ ہیں۔

بہرحال حقیقت یہ ہے کہ اصل امتحان حکومت وقت کا ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب آنے والے دنوں میں پوری قوم اور بالخصوص سیاسی قیادت کو کیسے ساتھ لے کر چلتے ہیں،اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں،تب یقینا سرجیکل آپریشن ہی آخری آپشن رہ جاتا ہے،جس کی حمایت میں رائے عامہ کو تیار کرنامشکل نہیں،عوام پہلے ہی آئے روز کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے عاجز اور پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک کے گلی محلوں کو بے گناہ انسانی خون سے نہلانے والے ان عناصر کا قلع قمع کیا جائے،اب جبکہ دوبارہ سے مذاکراتی عمل شروع ہونے جارہا ہے تواسے بڑی احتیاط اور دانش سے آگے بڑھنا ہوگا،دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے امن مذاکرات کیلئے ڈالا گیاڈول دہشت گردی کے خوفناک کنویں سے امن کا پانی نکال سکتا ہے اور ملک وقوم کو عافیت و سلامتی کی راہ پر ڈال سکتا ہے یا نہیں،ہمارا ماننا ہے کہ امن کو آخری موقع دینے کے خواہاں وزیر اعظم صاحب کا اصل امتحان اب شروع ہونے جارہا ہے اورآنے والا وقت بتائے گا کہ وہ اپنی کوششوں میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں -
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357811 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More