عورت اپنے مقام کو پہچان!

 بسم اﷲ ا لرحمٰن الرحیم ۃ ۔ از:-مختار احمد فخرو ولکوی

وجودِ زن سے ہے تصویر کایٔنات میں رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

یاد کریں اس وقت کو جب غیرت کے نام پر لڑکی زندہ در گور کر دی جاتی تھی زمانے قدیم یا دور جہالت میں عورتوں کو نہایت حقارت سے دیکھا جاتا تھا، اور اُن کے نزدیک اس کی وقعت ایک گری پڑی چیز سے ذیادہ نہ تھی یا ایک ذلیل شۓ جو صرف مردوں کی خوایٔشات کو پورا کرنے یاجسمانی لذت کو حاصل کرنے کے لیٔے پیدا کی گیٔ ہے،اور یہ صرف مردوں کی غلام بن کر زندگی گزارنے پر ہی مجبور رہے گی ، یہاں تک کہ کویٔ اسکا اپناحق ملکیت سمجھ بیٹھا تھا، تو پھر ان کے حقوق پر سوچھنا ہی بے معنی تھا ، تیسری صدی میں تو عورت پر اس قدر ظلم ہوا کہ اسکے سارے حقوق دبا لیٔے گۓ یعنی شادی بیاہ پر پابندی لگادی گیٔ اور چھوتی صدی میں یکسانیت کے نام عورت کو کسی پابندی کے بغیر سب پر حلال قراد دے کر اس پر ظلم کا پہاڑ ٹوڑاگیا ، پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں ماں بیٹی کی تمیز ہی ختم ہو گی ٔ اور اس وقت کا ایرانی فرمارواں یزد گرددوم نے اپنی ہی بیٹی کو زوجیت میں رکھّا پھر قتل کردیا، اور بحرام جو چھٹی صدی عیسوی میں ایران پر حکومت کی تھی اس نے اپنی ہی سگی بہن کو بیوی بنا لیا تھا،اور ،ہندستان میں تو مذہب کے نام پر (ستی کی رسم) اسکے جینے کا حق ہی ختم کردیا تھا،یعنی بیوی اپنے شوہر کی موت کے بعد اسکی چیتا کے ساتھ زندہ جل کر راکھ ہو جاتی تھی، اور پہلی بات اب یوروب میں دیکھنے کی ملے گی جہاں ماں بیٹی کی تمیز بھی ختم ہو رہی ہے اور یہ ستی کی ظالمانہ رسم شایٔد اب بھی ہندستان کے کچھ علاقوں میں چبی ہویٔ ہوں، لیکن جب شمِ رسالت روشن ہویٔ یعنی رسات وھدایٔت کا پیغام لے کر محسن انسانیٔت سرور ددجہان فخر موجودات محمدﷺ دنیا میں تشریف لاے تو اس سسکتی بلکتی اور دم توڑتی انسانیت کو انسانوں کے حقوق سمجھایا اور عورت کو وہ مقام دیا جو اس کی سوچوں سے بھی دور تھا، جب اسکو ماں کا درجہ ملا تو اسکا مقام بھی سمجھایا اور اس کے قدموں تلے جنت بتا کر ایک نا قابل انکار حقیقت کو دنیا کے سامنے رکھّا اور بہن؛بیٹی اور بیوی بنا کر اس کی عزت وتکریم ، اور اس پاکیزہ رشتوں کی اہمیت یا اس کی قدر منزلت کو اجاگر فرمایا،مگر افسوس آج خواتین اپنے مقام کو بھول کر آزادی کے جھوٹے نعروں کے پیچھے پڑ کر اپنی عزت نیلام کر رہی ہیں اور انسان نما بھیڑوں کی حوس کا شکار ہو رہی ہیں،
دراصل عورت لفظ عربی سے ہے جسکے معنی چھپانے کے ہوتے ہیں، جب یہ نمایٔش پر آیٔں تو انجام ؟ جب فطرت کے خلاف ہوگا تو بات یقینی ہے کہ نتیجہ بھی غلط نکلے گا اور انجام ذلت و رسوایٔ شرمندگی یا ندامت، افسوس، دکھ آہ وبقا پیچھا کرے گی ،جو قانونِ قدرت سے ٹکراؤ یا انحراف کا لازمی نتیجہ ہوگا ، غور کریں ایک انگریز خاتوں کالم نگار مسلمان نوجوان لڑکیوں کے احوال کو دیکھ بڑے ہی افسوس سے اس طرح مخاطب ہو کرلکھتی ہیں::جس تہذیب کو ہم نے تھوکا ہے کیاتم اس کو آٹھا کر لے رہی ہو؟::

میکھایٔل گوربچّو جو سویت یونین کا صدر تھا،ملک ٹوٹنے اور اپنے صدارت کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد اسلامی پردے کی اہمیت پر کتاب لکّھی ہے اور اس نے عورت کی آزادی کے نام پر کیٔے ہوے جرم پر اعتراف کے طور پر یوں لکھّا ہے کہ ::سب سے پہلے لڑکی کو کام میں خلل (Disturb) ہونے کے بہانے اسکا دوپٹہ یا اوڑنی غایٔب کردی گیٔ،اور پھر اسکو تھوڑا چست رکھنے کے نام پر اس کا ڈھیلا ڈھالا لباس اتار کر اسے ٹی شرٹ اور جینس پینٹ کی صلاح دی ، اور اسے مکتبوں کی زینت کا ہیلہ بنا کر یا گاہیکوں کی جاذیبیت کے لیٔے تنگ یا چست یا چھوٹے لباس (Skirt's) پہنے پر مجبور کیا گیا،پھر آخر میں ترقی یاجدیدیت ((Modernisation کے نام پر بے وقوف بنا کر ننگا کر کے چھوڑ دیا گیا؛؛

افسوس کس طریقے سے شرم و حیا کا جناہ نکالا گیا ہے در اصل یہ ایک جال ہے جو اس دنیا کے شہوت پرست انسان نما حیوانون نے بچا رکھّاہے, لیکن اس اعترافِ جرم یا اس کھیل کی حقییقت سامنے انے کے باوجود آج کی نوجوان لڑکیاں اسی دلدل میں ترقی کے نام سے پہنس کر اپنی ابرو و عزت کا سودہ کر رہی ہیں،

اسلام نے نہ صرف سے اسکی عزت و عصمت کی حفاظت کی تعلیم دی ہے بلکہ اس کا باقعدہ طریقہ یا نظم بھی بتایا ہے ، مذہبِ ا سلام میں خواتین کی قدر منزلت یا اکرام کا اندازہ صرف حج و عمرہ کے مقدس فریضہ یا اس عمل سے لگایا جاسکتا ہے، دوران حج و عمرہ صفا و مروہ پر جو سعی کی جاتی ہے،اس پر سوچ سوچھیں یہ کیوں ہے؟ یہ وہ ڈور تھی جو حضرت حاجرہ علیہ السلام نے اپنے لاڈلے اور اکلوتے بیٹیے کو روتا بلکتا دیکھ کر پانی کی تلاش میں لگایٔ تھی،جس کی پکار اور اسکی آہ بقا اور اسمایٔل علیہ السلام کا پیاس کی شدّت سے ایڑیاں رگڑنا جس کا نتیجہ تھا رحمتِ الٰہی جوش میں آیٔ اور پانی کاچشمہ ابل پڑا تھا جو آج بھی زمزم کے نام سے جاری ہے اور دنیا بھرکے مسلمان سیراب ہو رہے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے ،عورت ذات حضرت حاجرہ علیہ السلام کی صفا و مروا پر ڈو ر بارگاہ الٰہی میں اس قدرمقبول ہویٔ کہ اﷲ تعالیٰ نے شریعیتِ اسلامی کے اہم فریضہ میں اسکو شامل کر دیا ،اور مردوں کیلیٔے اس طرح کی ڈور کے بغیر حج یا عمرہ کو ادھورا یا نا مکمل ٹھرایا مگر عورتوں پر مزید اکرام و احسان کرتے ہوے ٔ اسے اس ڈور سے مشتسنا رکھّا ہے،

پھر بھی اگر عورت اسلام کے اس عظیم احسان کی قدر نہ کرے اور اﷲ کے احکام نبیﷺ کی تعلیمات کوبھول کر یا نظر انداز کر کے عیش و طرب کی محفلیں سجانے یا اسکی زینت (ماڈلس ،مس ورلڈیا مس یونیورس یا ریمپسٹس اور ایکٹرس وغیرہ )بننے یا لوگوں کی تسکین کا سامان مہیا کرنے میں لگ جاے تو اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا ؟

اسلیٔے خواتین کو چاہے کے وہ سب سے پہلے اپنے مقام کو جانے اور ربّ کایٔنات کی دی ہویٔ اس لازوال نعمتوں کی قدر کرے اور اس دنیا کی چند روزہ رنگینی کو دیکھ کر اپنی اُخروی زندگی کو برباد نہ کرے،، تاکہ تو سہی معنوں میں علّامہ اقبال ؒکے اس شعر کی حقدار یا مصداق بن جاے،
وجود زن ہے تصویر کایٔنات میں رنگ،اُسی کی ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
Mohammed Mukhtar
About the Author: Mohammed Mukhtar Read More Articles by Mohammed Mukhtar: 28 Articles with 37735 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.