پاکستان کا عدالتی نظام اور دہشت گردی

اولاتو ہمارے حکمرانوں میں دہشت گردوں کے خلاف موئثر کاروائی کرنے کی جرات و ہمت ہی مفقود ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ سرمایہ دار اور جاگیردار اپنے سرمائے کے بڑھانے اور جاگیردار جائدادوں میں اضافے کا خواہشمند ہے اسے دوسروں سے کیا غرض؟ رہادین کامعاملہ تو یہودوہنود کے اخلاط کی وجہ سے دین دنیا کے معاملات میں غیریت کے نظریات رکھتے ہیں۔اگر عوامی دباؤ اور دھرنوں سے خوف زدہ ہوکر کچھ محض اشک شوئی اور مصلحت کے تحت کردیں بھی تو وہ محض ایک فریب ہوتا ہے۔ ابھی تک بڑوں کے اہلخانہ اور انکے فرزندان ارجمند دہشت گردی کے عفریت سے محفوظ ہیں۔ اگر مرتے ہیں تو غریب ، مزدور،عوام اور ملک وملت کے محافظ شہید ہوتے ہیں۔ بڑوں کے گرد تو کئی کئی دائرے محافظین کے ہوتے ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھے حکمرانوں کا تحفظ کرتے ہیں۔جب کوئی حادثہ ہوتا ہے اور غریبوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے، بچے تیم اور عورتیں بیوہ ہوجاتی ہیں، ماں کے سامنے اسکے جگر گوشوں کے ٹکڑے پڑے ہوتے ہیں تو میڈیا پر بیان آتا ہے، وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا، ایک ہفتے میں تحقیقات طلب کرلیں، مرنے والوں کے ورثاء کو پانچ پانچ لاکھ روپے دیئے جائیں وغیرہ وغیرہ۔ اس خبر کے ساتھ ہی خبر نشر ہوتی ہے کہ فلاں جگہ ایک درج افراد لقمہ اجل بن گئے، ابھی یہ خبر چل رہی ہوتی ہے کہ سندھ فیسٹیول ، ناچ گانے اور عورتوں کی کرکٹ ٹیم کے انٹرویو آتے ہیں، یہ ختم ہوتے ہیں تو نہائت مخرب الاخلاق اشتہار آجاتے ہیں۔ پہلے سنتے تھے کہ جہاں بجتی ہیں شہنائیاں وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں۔ اب کچھ اسطرح کے مناظر ہیں کہ جہاں قتل و غارتگری ہوتی ہے وہاں حکومت کی طرف سے بے حیائیاں بھی ہوتی ہیں۔ حکمرانوں کے نوٹس لینے کی منطق اگر کسی کو سمجھ آئی ہوتو کوئی بیواؤں اور ستم رسیدہ ماؤں اور یتیم بچوں کو بھی بتادے۔ جس ملک میں کھلے عام گدھوں۔کتوں اور مردہ جانوروں کا گوشت بکتا ہواور عوام کو کھلایا جاتا ہو، جہاں درآمد کی گئی سور کی چربی سے خالص گھی اور مکھن بنا کر عوام کو کھلایا جاتاہو۔ وہاں کاروباری حکمرانوں سے یہی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہاں کوئی صدام حسین تو ہے نہیں کہ ایوان صدر آنے والی لڑکی کو میلی نگاہ سے دیکھنے والے کو خود گولی ماردے۔ ملاوٹ کرنے والوں اور ذخیرہ اندوزوں کو گولیوں سے اڑادے۔ سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان کے عوام ان کاروباری حکمرانوں کو کیونکر برداشت کرتے ہیں جبکہ ان میں عوا م کے جان و مال کو تحفظ دینے، لاقانونیتی کو ختم کرنے ، قاتلوں اور دہشت گردوں کو ختم کرنے کی صلاحیتیں ہی نہیں۔ روزانہ دہشت گردوں کی گرفتاری کی خبریں آتی ہیں اور یہ کئی سالوں کا عمل ہے لیکن آج تک ملک کے مظلوم عوام کسی ظالم کی سزائے موت کی خبر سننے سے محروم ہیں۔ عوام بھی پوچھتے ہیں اور اپنی محفلوں میں کہتے ہیں کہ دال میں کچھ کالاہے ۔ اگر حکومت ملک میں امن قایم کرنا چاہے تو کرسکتی ہے لیکن انکی نیتیوں میں فتور ہے۔ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اقتدار کے مزے لینے والوں کے گھروں میں کوئی صف ماتم نہیں بچھی، انکے بچے یتیم نہیں ہوئے، انکی عورتیں کیوں بیوہ نہیں ہوتیں کیا یہ صرف غریبوں کا مقدر بن چکا ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہم دہشت گردوں کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کردیتے ہیں ۔عدالتوں کی کار کاردگی کیوں مایوس کن ہے؟ دہشتگردوں کے پاس دولت کی کمی نہیں جج خریدے بھی جاسکتے ہیں اور انہیں دہشت زدہ بھی کیا جاسکتاہے ۔ انگریز کا بوسیدہ عدالتی نظام ہمارے ہاں رائج ہے۔ جس کی بنا پر عدالتی عمل طوالت کا شکار ہوتا ہے۔ کئی جج تبدیل ہوتے ہیں۔ اور کئی ایسے بھی ہیں کہ دہشت گردوں سے خوفزدہ ہوکر کیس لیتے نہیں، التوا میں رکھتے ہیں یا کسی لالچ اور مصلحت کا شکار ہوتے ہیں۔ صاحب اقتدار لوگ خود بھی اپنے اور اپنے اہلخانہ کے بارے شدید خوفزدہ ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہیں کہ دیگر ممالک کے اشاروں پر چلتے ہوئے دہشت گردوں کی پوشیدہ طور پر سرپرستی کرتے ہیں۔ کہیں امریکہ میں اپنے مفادات ،کہیں بھارت میں اپنے مفادات کہیں یورپی ممالک میں اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے ملک میں امن وامان کو دیدہ دانستہ نظرانداز کرتے ہیں۔سب سے بڑامسئلہ اقوام متحدہ کا ہے اور دوسرا مسئلہ آئی ایم ایف کا۔ اقوام متحدہ کا ادارہ امریکہ کی کٹھ پتلی ہے جو صرف اسلام اور اسلامی ممالک کے مفادات کو سبوتاژ کرتا ہے۔ ہمارے حکمران سرمایہ دار اور کارخانہ دار اپنے تجارتی اور مالی مفادات کو دین و مذہب اور ملک و ملت پر مقدم رکھتے ہیں۔ جہاں اس قدر غلاظت پھیلی ہوئی ہو وہاں امن یا سکو ن کیونکر قائم ہوسکتا ہے؟ انہیں مغربی جمہوریت اپنے دین و ایمان سے زیادہ عزیز ہے۔ کیونکہ اسی میں ان کو اپنی عافیت نظر آتی ہے۔ اسی میں پارلیمنٹ لاجز میں شراب و کباب کے مزے اڑائے جاتے ہیں( چند روز قبل شراب کی سپلائی پکڑی گئی)۔مغربی سیاسی کھیل میں نورا کشتی کرتے ہوئے کبھی ایک گروہ ملک پر قابض ہوکر ملکی دولت پر ہاتھ صاف کرتا ہے تو پھر دوسرا آجاتا ہے۔ عوام تو ملکی و غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اٹھانے کے لیئے ہیں۔ عوامی ترقیاتی کام اگر کچھ ہوئے تو فوجی حکمرانوں کے عہد میں، اسی طرح عوامی ضرورت کی اشیاکی فراوانی رہی اور دام بھی آج کی نسبت بہت کم تھے۔ بجلی ،گیس اور تیل کی فراہمی میں عوام کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ آج عوام کا م کا کہنا ہے کہ ہم تو مرگئے اس جمہوری استبداد سے۔ ان تمام مشکلات پر دہشت گردی کا عفریت بلائے جاں ہے کہ کوئی گھر میں محفوظ ہے نہ بازاروں اور سڑکوں پر۔ لیکن حکمران قومی خزانے سے خریدی گئیں بلٹ پروف گاڑیوں اور سرکاری ملازمین کے جلوس میں محفوظ ہیں۔ لگتا ہے کہ انہیں خوف خدا اور پاس رسول سرے سے نہیں۔ چاروں طرف مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ حکومت اور طالبان کے مذاکراتی عمل کے نتائج بارے قوم پر امید نہیں۔ حکومتی ٹیم بھی ایک خانہ پری ہے اور طالبان نے تو اپنے نمائندے نامزد ہی نہیں کیئے ، جو کیئے ہیں محض خانہ پری کی ہے۔ ٹی ٹی پی والے پاکستان میں ہی ہیں۔اگر شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری لاکھوں لوگوں کو ڈی چوک اسلام آباد لاسکتے ہیں تو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیئے ٹی ٹی پی والے تشریف لائیں ۔ اگر اسلامی نظام نافذ کرالیں تو یہی سارے امراض کا علاج ہے۔بے گناہ لوگوں کا خون اپنے سر لینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128273 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More