لیجئے۔۔ پاکستان میں ایک نئی جنگ
چھڑ گئی ہے ۔ یہ ہے قلم اور تلوار کی جنگ، کیمرے اور بم کی جنگ، مائک اور
بندوق کی جنگ، جس کی پہلی جھلک پچھلے دنوں اس وقت ملی جب کراچی میں تحریک
طالبان پاکستان نے ایک نجی نیوز چینل کے تین ارکان کو موت کے گھات اُتار نے
کے ساتھ پاکستانی میڈیا کے خلاف فتویٰ جاری کر دیا کہ ـ"اگر ساتھ نہیں ،تو
خلاف نہیں، غیر جانبدار رہو، ورنہ مرنے کو تیار رہو۔" ایک خوفناک پیغام جس
نے پاکستانی میڈیا میں کہرام مچا دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب طالبان نے میڈیا
کو نشانہ بنایا اور وارننگ دی ہے کہ خبر کو خبر کی طرح دکھاؤ، ذیادہ دماغ
مت کھپاؤ، مذمت کرو نہ تنقید، بس غیر جانبدار رہو۔ طالبان نے موت کہ سر
ٹیفیکیٹ تقسیم کرنے کے ساتھ وارننگ جاری کی ہے کہ پاکستانی میڈیا اسلام
مخالف جنگ میں کافروں کے ساتھ نظر نہ آئے اور سیکولر نظریات کو فروغ نہ دے۔
اگر ایسا نہ ہوا تو موت ملے گی۔ چند محافظ اور سیکورٹی کا گھیرا زندگی کی
ضمانت نہیں، کیونکہ جب ہم فوجی تنصیبات کو اُڑا سکتے ہیں تو میڈیا کے دفاتر
کیا ہیں ؟ میڈیا کے خلاف طالبان کی خونریزی نے پاکستانی حکومت پر سوالیہ
نشان لگا دیا ہے جو پچھلے سات ماہ سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بات کر
رہی ہے اور نام نہاد افراد کی کمیٹیاں بنا کر طالبان سے رابطہ کرکے معاملہ
ٹھیک کرنے کی بات کر رہی ہے جس کی وجہ سے نواز شریف کی نیت اور ارادے پر
سوال اُٹھ رہے ہیں کہ حکومت کیا کرے گی؟
ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جب شدت پسند عناصر نے میڈیا کے خلاف کھل کر
مورچہ لیا ہے ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ پاکستانی میڈیا کا معاشرے پر گہرا
اثرہے ۔ طالبان کو خوف ہے کہ میڈیا دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جو
بیداری پیدا کر رہا ہے وہ ان کے وجود کے لئے کہیں خطرہ نہ بن جائے اس سوال
یہ ہے کہ نواز شریف کی حکومت کا مؤقف کیا ہو گا۔ مگر اب بھی حکومت طالبان
سے امن مذاکرات کا ارادہ رکھتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہوا ہے اور نہ ہو
گا۔ اب تک شدت پسند وں کے دباؤ میں خاموش نواز شریف پر میڈیا کا دباؤ بڑھ
رہا ہے کہ وزیر اعظم آپ کس کی جانب ہیں طالبان کی جانب یا میڈیا کے ساتھ
کراچی میں میڈیا کے تین ارکان پر حملے نے نئی جنگ کا بگل بجا دیا ہے ۔ اب
طالبان کے ہاتھوں میں صحافیوں کی ہٹ لسٹ ہے اور صحافیوں کے ہاتھ میں قلم۔
دہشت گرد للکار رہے ہیں کہ ہم سے کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی ۔ ہم کہیں بھی
پکڑ لیں گے، جکڑ لیں گے اور مسل دیں گے۔ صحافی طبقہ ایک طرف تو پاکستانی
انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دباؤ اور دھمکیوں کا شکار ہے جبکہ دوسری طرف طالبان
اُنہیں موت کے گھات اُتار دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا
ہے کہ طالبان کی ان دھمکیوں پر چند صحافیوں نے جھوٹی ایف آئی ار درج کروانی
شروع کر دی ہیں، اور کئی ایک نے یہ افواہیں اُڑائی ہیں کہ طالبان کی جانب
سے جو ہٹ لسٹ جاری کی گئی اس میں اُن کا نام بھی شامل ہے مگر جب اس سلسلے
میں طالبان سے رابطہ قائم کیا گیا تو اُنہوں نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے
کہا کہ ہم نے صحافیوں کے ناموں پر مشتمل کوئی لسٹ جاری نہیں کی چند صحافی
دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ کے غرض سے ایسی جھوٹی افواہیں اُڑا رہے ہیں
بلکہ طالبان کی جانب سے ایک جھوٹی لسٹ بنا کر خود کو مظلوم ثابت کرکے اپنا
فائدہ لینا چاہتے ہیں۔ طالبان نے اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان کی
جانب سے کسی کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ ہم تم
کو مارنے آ رہے ہیں، طالبان نے یہ بھی بتایا کہ ہاں ہمارے پاس ایسے صحافیوں
کی لسٹ موجود ہے جو ہمارے خلاف کام کر رہے ہیں مگر اُن کی تعداد ستر سے
ذیادہ ہے جو ہم نے نہ جاری کی ہے اور نہ جاری کریں گے۔ جن میں اکثریت خیبر
پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی ہے۔
اب سب سے بڑا مسلہ پاکستانی میڈیا کے سامنے یہ ہے کہ کرے تو کیا کرے ۔
اگرمیڈیا پاکستانی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو پاکستان میں بڑی
تبدیلی کا خواب پہلے مرحلے میں ہی چکنا چور ہو جائے گا۔ پچھلے چند سالوں کے
دوران پرائیویٹ میڈیا نے ہلچل پیدا کی ہے اور اس بات کا احساس حکومت سے
دہشت گردوں کو ہے کہ میڈیا کا معاشرے پر گہرا اثر ہے یہی وجہ ہے کہ اب
طالبان نے میڈیا کو للکارا ہے ۔ موت کا خوف پیدا کرنے کی کوشش ہے ۔ دراصل
میڈیا نے طالبان کی دہشت گردی پر تنقید کرنی شروع کی ہے اور مختلف ٹی وی
چینلز اور مباحثے ہو رہے ہیں، جس نے دہشت گردوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا
ہے کہ اگر میڈیا کا آزادانہ کردار ختم نہیں ہوا تو عوام میں ان کی مذہبی
جنگ کی آڑ میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ میڈیا برادری پر خوف طاری
ہونا لازمی ہے ، مگر شدت پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینا بھی صحافتی قدروں
اور اصولوں کے خلاف ہے ۔ طالبان کی جانب سے میڈیا کو وارننگ کا فائدہ
انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس طرح ہوا ہے کہ اب اگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی
جانب سے کسی صحافی کو کوئی نقصان پہنچایا گیا تو نام طالبان کا بدنام ہو گا
کیونکہ ماضی میں بھی انٹیلی جنس ایجنسیاں طالبان کا نام لے کر صحافیوں کو
اغواء کرتی رہی ہیں ۔ |