کالم نگار بنیے
(M Usman Jamaie, karachi)
اخبارات میں ”پُرکشش بنیے“ اور ”اکاؤنٹنٹ
بنیے“ کی سرخیاں پڑھ کر ہم چونک جایا کرتے تھے۔ خیر اکاؤنٹنٹ کا ”بنیا“
ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر بنیے کا ذکر چھڑتے ہی توند، گنجے سر، لالچ،
خود غرضی اور سفاکی سے بھری آنکھوں والے جس ساہو کار کا تصور ذہن میں
ابھرتا ہے اس میں کشش کہاں! لہٰذا ایک روز ہم نے اپنے دوست ”داناہوشیار
پوری“ سے پوچھا ”کیا بنیے بھی پُرکشش ہوتے ہیں؟“ بولے ”آپ نے یقیناً عالمی
مالیاتی اداروں کے حکام اور بینکوں کے منتظمین کو نہیں دیکھا۔ یہ خود کیا
ان کے ”بول بچن“ بھی بے حد پُرکشش ہوتے ہیں۔“ دانا صاحب کا جواب سن کر ہمیں
بنیوں کے پُرکشش ہونے کا تو یقین ہوگیا مگر اب جو اپنے سوال کی ماخذ سرخیوں
کے نیچے شایع شدہ متن پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ خوب رو بنیوں کی تشہیری مہم
نہیں بلکہ چہرے کو دل کش بنانے والی کسی کریم کا اشتہار ہے۔
ایسی ہی غلط فہمی آپ کو ہماری زیر نظر تحریر کے عنوان سے بھی ہوسکتی ہے۔
چناں چہ ابتدا ہی میں بتادیں کہ ”کالم نگار بنیے“ سے ہماری یہ مراد قطعاً
نہیں کہ، خدا نہ خواستہ، ہم کالم نویس حضرات کو بنیا قرار دے رہے ہیں۔
ہمارا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم قارئین کو کالم نگار بننے اور کالم نویسی
جاری رکھنے کے کچھ گُر سکھادیں۔
اب جہاں تک کالم نگار بننے کا تعلق ہے تو اس کے کئی طریقے ہیں۔ پہلا تو وہی
فرسودہ، آزمودہ اور بے ہودہ طریقہ ہے جو اپنے عمل پیرا کو عموماً ناآسودہ
رکھتا ہے۔ یعنی مسلسل کتب بینی، ہر روز کئی کئی اخبارات کا مطالعہ، احاطہئ
تحریر میں لانے کے لیے سلگتے ہوئے سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل کا چناؤ،
اچھوتے مگر بے تکے پن سے پاک موضوعات کی تلاش، زبان وبیان کے تقاضے نبھانا،
انفرادی وذاتی مسائل کے بہ جائے اجتماعی معاملات پر قلم اٹھانا وغیرہ
وغیرہ۔ اگرچہ اساتذہئ صحافت کی ”شریعت“ کی رو سے یہی طریقہ ”شرعی“ ہے، باقی
سب ”غیرشرعی“ اور ”شرک وبدعت“ سے پُر، ”مگر اس میں ہوتی ہے محنت زیادہ“،
چناں چہ ہم وہ آسان طریقہ بتادیتے ہیں کہ ............ ہینگ لگے نہ پھٹکری
اور رنگ بھی چوکھا آئے۔
پہلی بات تو یہ کہ آپ کالم لکھنے کا سردرد کیوں مول لیں، میں ہوں نا۔ بس
اتنا بتادیں کہ ”درجن“ کا کیا دیں گے۔ چلیے، ہم نہ سہی کوئی اور سہی۔ اگر
آپ کی جیب سکت رکھتی ہے تو آپ کو ایسے بہت سے لکھنے والے مل جائیں گے جن کے
زور قلم کی بنیاد پر آپ کالم نویس کہلائیں گے۔ یعنی پورے مطبوعہ کالم میں
صرف نام اور تصویر آپ کی ہوگی، باقی سب کسی اور کا۔ گویا ؎ سرآئینہ مرا عکس
ہے پس آئینہ کوئی اور ہے۔ ہم ایسے کئی کالم نویسوں سے واقف ہیں جن کے نام
سے موقر اخبارات میں چھپنے والے کالموں کا ”نویس“ کوئی اور ہوتا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ ہمارے کئی کالم نویسوں کے کالموں کا خط (رائٹنگ) ان کی دیگر
تحریروں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کالم نگار، جن کے کالم کسی
اور کی ”نگاری“ سے جنم لیتے ہیں، خط کے اس فرق کو طرز تحریر کا اختلاف قرار
دیتے ہیں۔
کچھ دنوں پہلے ایک کالم نگار سے ہم نے پوچھا آج آپ کا جو کالم چھپا ہے اس
میں فلاں جملے کا کیا مطلب ہے؟ سوال سنتے ہی وہ ہمیں گھورنے لگے، جیسے
ہماری کم فہمی باور کراکر ہمیں اپنے سوال پر شرمندہ کرنا چاہتے ہوں۔ ہم بھی
ٹھہرے ایک ڈھیٹ، سو جواباً انھیں گھورنا شروع کردیا۔ یہ ”گھورا گھوری“ کئی
سیکنڈ جاری رہی۔ پھر وہ خلاؤں، فضاؤں اور ہواؤں میں تکنے لگے۔ ہم سمجھے
شاید انھیں بھی ”آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں“ اور وہ اس یقین کے
ساتھ آسمان کو تک رہے ہیں کہ ؎ آتے ہیں جواب آخر..... لہٰذا انتظار کی
گھڑیاں جاری رہیں اور وہ خلا کو اور اہم انھیں تکتے رہے۔ آخر کافی دیر بعد،
اس ”تَکا تَکی“ سے بے زار ہوکر ہم یہ کہتے ہوئے چل دیے ”ہمارے سوال کا جواب
یا آپ کا کالم لکھنے والے میں سے جو بھی آجائے، ہمیں اپنے الجھے ہوئے جملے
کا مطلب ضرور بتادیجیے گا۔“
اس طرح کا کالم نگار بننے سے پہلے آپ کو کُچھ بننا پڑے گا۔ مثلاً صنعت کار،
بیورو کریٹ، کرنل جنرل، سیاست داں وغیرہ۔ ان میں سے یا ان جیسا کچھ بننے کے
بعد مالی مسائل سے دوچار کسی قلم کار کی خدمات حاصل کریں اور پھر پلک
جھپکتے میں کالم نویس بن جائیں۔
اگر آپ کچھ اور نہ بن سکیں اور ”نِرے کالم نویس“ ہی بننا چاہیں، تو ”شرعی
طریقے“ کے ضمن میں ہمارے بیان کردہ سخت قاعدوں قرینوں سے گھبرانے کی کوئی
ضرورت نہیں۔ بس چند کالموں تک آپ کو ان سخت قرینوں کی پیروی کرنا پڑے گی۔
ایک بار نام بننے کے بعد تو آپ جو لکھیں گے وہی قرینہ اور قاعدہ بن جائے
گا۔ بس ایک بار ”معروف کالم نگار“ کی ”پخ“آپ کے نام کے ساتھ لگ جائے پھر تو
آپ اپنے کالم کے لیے مختص چوکھٹا افکار پریشاں پر مشتمل کسی مضمون سے
سجائیں یا گھریلو چٹکلوں سے آراستہ کریں، کھانوں کی ترکیبیں بھردیں یا
حکیمی نسخے، مہینے کے سودے کی فہرست، اپنی بیماری کا حال، کسی عزیز کے
جنازے یا رفیق کی شادی کا احوال، احباب کے نام خیریت کی چِٹّھی، باس کے نام
چُھٹّی کی درخواست............غرض یہ کہ فوری طور پر تحریر کی صورت میں جو
میسر ہو چھپنے کو بھیج دیں۔ قارئین اس نسخے، فہرست، حال احوال، چِٹّھی اور
درخواست سے گمبھیر عالمی اور قومی مسائل کے بارے میں اشارے کنائے خود تلاش
کرلیں گے۔ بس، دودھ والے کی طرح،کالم کا ناغہ نہیں ہونا چاہیے۔ خواہ اس
”دودھ“ میں پانی بھرا ہو یا مینگنیاں ملی ہوں۔
مقبول کالم نگار بننے کے بعد ہمیشہ یاد رکھیے کہ قارئین آپ کے اہل خانہ،
دوستوں، پڑوسیوں، رشتے داروں، گھریلو نوکروں، یہاں تک کہ آپ کے پالتو
جانوروں میں ملکی وعالمی حالات وواقعات اور آپ کے افکار و خیالات سے کہیں
زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔ سو، اپنے بیٹے کے اوصاف، بیٹی کے خصائل، بیوی کے
مسائل، والد کے حالات، والدہ کے رجحانات، پھوپی کا المیہ، چچا کا طربیہ اور
ماموں کا واقعہ، وقتاًفوقتاً قارئین کی نذر کرتے رہیں۔ آپ اپنے اعزاء کا
تذکرہ بڑی مہارت سے ملکی وعالمی حالات کے ساتھ جوڑکر کرسکتے ہیں۔ مثلأ کالم
کا آغاز اپنی اہلیہ کی ستائش سے کیجیے اور یہ بتائیے کہ وہ کس سلیقے سے
نہایت کم اصراف کے ساتھ گھر چلارہی ہیں۔ پھر زوجہ محترمہ کی ”معاشی
پالیسیوں“ کو سراہتے ہوئے آخری پیرے میں ملک میں بڑھتی ہوئی منہگائی کے
تذکرے کے ساتھ کالم ختم کردیجیے۔
کبھی کبھی، بلکہ اکثر آپ کے پاس لکھنے کو کچھ نہیں ہوگا۔ ایسے میں قارئین
کے خطوط ”حاضر ہوں مدد کو جان ودل سے، کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا“ کہتے
آئیں گے اور آپ کی مشکل آسان کردیں گے۔ ضروری نہیں کہ قارئین آپ کو خط
لکھیں۔ آخر وہ طویل عرصے سے آپ کو پڑھ رہے ہیں، اس لیے آپ پر ان کا کچھ حق
بنتا ہے۔ اس حق کو نبھانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی قاری کی طرف
سے ”بہ قلم خود“ خط لکھیں اور اپنے کالم کا حصہ بنالیں۔ یا اہلیہ، دوست،
عزیز رشتے دار سے لکھوالیں، آپ کی مرضی۔ مراسلہ نگار قاری کا حقیقی ہونا
بھی ضروری نہیں۔ بس یہ کہہ کر ضمیر کو مطمئن کرلیں کہ پنڈی بھٹیاں،
گوجرانوالا یا سرائے عالم گیر میں ”فضل احمد آرائیں“، ”برکت علی جنجوعہ“ یا
”محمد حسین گکھڑ“ نامی کوئی قاری آپ کے کالم ذوق وشوق سے پڑھتا ہو گا اور
اگر وہ آپ کو مراسلہ بھیجتا تو بعینہ وہی خیالات ظاہر کرتا جو آپ اس کے نام
سے تحریر کردہ خط میں بیان کررہے ہیں۔ ضمیر کو مطمئن کرنے کے بعد کالم اس
طرح شروع کریں:
”ملک کی سیاسی صورت حال روز بہ روز پریشان کُن ہوتی جارہی ہے۔ ہر پاکستانی
فکر مند ہے کہ اگر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مصالحت کی کوئی صورت نہ
نکلی تو ملک کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ قارئین اپنے خطوط کے ذریعے مجھ سے
اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ سرائے عالم گیر کے شہری محمد حسین گکھڑ
اپنے خط میں لکھتے ہیں .........۔“
پھر ”محمد حسین گکھڑ“ سے اپنی تحریروں کی ہمہ گیریت، بے باکی، توازن اور
قومی اور بین الاقوامی حالات پر اپنی گہری نظر کی خوب تعریف کروائیے اور
سیاسی صورت حال پر تبصرہ کرواکے کالم سے جان چھڑائیے۔ یہ کالم نہ صرف آپ کو
دماغ سوزی سے بچائے گا بلکہ قارئین اور متعلقہ اخبار کے مدیر پر آپ کی
مقبولیت کا سکّا بھی بٹھا دے گا۔
لکھنے کے جھنجٹ سے بچنے کا ایک آسان نسخہ یہ بھی ہے کہ قارئین کو اپنا کوئی
پُرانا کالم پڑھوادیں۔ یاد رہے کہ حالات حاضرہ پر پاکستانی کالم نگاروں کی
تحریریں ہمیشہ تازہ رہتی ہیں، اس لیے آپ کا برسوں پرانا کالم کسی کو فرسودہ
یا بعداز وقت نہیں لگے گا۔ یہ کالم اس طرح شروع ہوگا:
”حکومت کی جانب سے ترقی اور خوش حالی کے تمام تر دعووں کے باوجود عام آدمی
کی معاشی حالت دگرگوں ہے۔ میں نے 5 جنوری 2000کو شایع ہونے والے اپنے ایک
کالم میں لکھا تھا........۔“ اب اپنا پرانا کالم آنکھیں بند کرکے سادہ صفحے
پر جوں کا توں چسپاں کردیں اور آخر میں بس اتنا لکھ دیں ”افسوس کہ آج برسوں
گزرنے کے بعد بھی صورت حال نہیں بدلی۔“ اللہ اللہ خیر صلا۔
یہ کلیہ ذہن نشین کرلیں کہ کالم میں ملکی راہ نماؤں، مشہور شخصیات اور
حاکموں پر تنقید نام لیے بغیر ہوتی ہے اور جب نام آجائے تو تعریف کے سوا
کچھ نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ کسی کا نام لیے بغیر ”حکم رانوں“، ”سیاست دانوں“
اور ”علمائے کرام“ پر جی بھر کے نکتہ چینی کریں۔ لیکن نام تحریر کرنے کی
صورت میں شیطان کا تذکرہ بھی اس طرح ہوگا:
”آدم کو سجدے کے بارے میں پالیسی اختلافات سے قطع نظر انھوں نے ماضی میں
ہمیشہ خدا سے وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔“ یا ”بہرحال یہ بات لائق تحسین ہے کہ
وہ اپنے نظریات پر پوری دیانت اور سچائی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔“
کالم نویسی بڑے کام کی چیز ہے۔ کسی کا احسان چکانے کے لیے اس سے بہتر ذریعہ
شاید ہی کوئی ہو۔ اگر کوئی سیاست داں آپ کو دعوت پر بلالے تو اس کا یہ
”احسان“ توصیفی کالم کی صورت میں دوسرے دن ہی اترسکتا ہے۔ اس کالم میں اس
سیاست داں کی دعوت کو ”موجودہ سیاسی صورت حال پر تبادلہئ خیال کے لیے کی
جانے والی ملاقات“ لکھیے اور پھر میزبان کی دریادلی اور اس کے دسترخوان کی
وسعت کا تذکرہ کچھ اس طرح کیجیے کے دعوت میں موجود تمام کھانوں اور کھانے
والوں کی لمبی فہرست ”برسبیل تذکرہ“ کے طور پر آجائے۔ اس کے علاوہ کسی
بدنام زمانہ بیوروکریٹ کی دیانت، شر سے لبریز اور آفت کے پرکالے کسی سیاست
داں کی شرافت اور کسی ٹیکس چور اور حرام خور تاجر یا صنعت کار کی ایمان
داری کی تشہیر آپ کو مالا مال کردے گی۔ لیکن ان ”اشتہاری کالموں“ کے لیے
وصولی ایڈوانس کرنا نہ بھولیں۔
کالم اپنی بڑائی بیان کرنے کا بھی اہم وسیلہ ہے۔ کسی عالمی شہرت یافتہ
شخصیت سے ماضی میں ہونے والی اپنی ”گفت وشنید“ کو پوری فن کاری سے حال کے
کسی واقعے سے مربوط کردیجیے۔ لیکن خیال رہے، وہ شخصیت آپ کے بیان کی تصدیق
یا تردید کے لیے دنیا میں موجود نہ ہو۔ یہ ”خود ستائشی کالم“ کہلاتا ہے۔
ایسے کالم کا آغاز یوں کیا جاسکتا ہے:
”نجیب محفوظ نے مجھے چونک کر دیکھا اور مسکرا کر کہنے لگے، نوجوان! تم نے
کیا دانش مندانہ بات کہی ہے۔“
لیجیے، آپ نے ایک ہی جملے سے قارئین کو چونکا کر اپنا کالم پڑھنے پر مجبور
کردیا اور لگے ہاتھوں اپنی دانش مندی اور نجیب محفوظ جیسے عالمی شہرت یافتہ
اور نوبل انعام پانے والے ادیب سے اپنے تعلقات کا ثبوت بھی فراہم کردیا۔ اب
حالات حاضرہ سے متعلق انٹرنیٹ پر پھیلے ذہانت سے پُر نکات میں سے کوئی بھی
نکتہ خود سے منسوب کرکے ”دانش مندانہ بات“ کے طور پر پیش کردیجیے۔ یقین
مانیے! قارئین آپ کے مطلوبہ تاثر سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ ویسے آپ جان
ایف کینیڈی، چواین لائی اور پنڈت جواہر لال نہرو سے ”اپنی گفت وشنید“ کا
احوال بھی بیان کرسکتے ہیں، ”لیکن اس میں راز داری جائے گی“ اور آپ کی عمر
کا بھید کُھل جائے گا۔
زیادہ اونچا اڑنا نہ چاہیں تو کم ازکم اسلام آباد کے افق پر تو پرواز کرہی
سکتے ہیں۔ قارئین کو بتائیے کہ ”گذشتہ شام“ ایک وفاقی وزیر اچانک آپ کے گھر
وارد ہوگئے اور حکومتی پالیسیوں کے بارے میں مشورے کرنے لگے۔ یا کسی اہم
حکومتی شخصیت نے فون کرکے کہا ”میں آپ کا کالم بڑے غور سے پڑھتا ہوں“ پھر
آپ کو درپیش بدہضمی یا قبض کی شکایت پر تشویش کا اظہار کیا اور سرکاری علاج
کرانے کی پیشکش کی جو آپ نے بڑی شائستگی سے ٹھکرادی، کیوں کہ آپ سرکاری
علاج کو اپنی جرأت اظہار کے لیے ”مضرصحت“ خیال کرتے ہیں، ہاں، سرکاری دوروں
کی بات اور ہے۔ حزب اختلاف کا کوئی سرکردہ راہ نما بھی آپ کے ڈرائنگ روم
میں بیٹھا اپنے کسی اقدام کے لیے آپ کی راہ نمائی کا متمنی ہوسکتا ہے۔ ان
رابطوں کے بارے میں لکھتے ہوئے آپ کو کسی ملاقاتی یا رابطہ کنندہ کا نام
لکھنے کی ضرورت نہیں۔ بس ”ایک وزیر“، ”ایک حکومتی شخصیت“ اور ”ایک راہ نما“
سے کام چلائیے۔ ویسے بھی نام میں کیا رکھا ہے ہمارے ہاں تمام وزیر، حکومتی
شخصیات اور راہ نما ایک جیسے ہیں۔
”وی وی آئی پیز“ سے ”قریبی تعلقات“ کی تشہیر ایک طرف قارئین کو باور کرادے
گی کہ ؎ مستند ہے ”ان“ کا فرمایا ہوا اور ان پر آپ کی دھاک بیٹھ جائے گی۔
دوسری طرف اعلیٰ حکومتی شخصیات سے کوئی ذاتی کام نکلوانے کے خواہش مند ”مال
دار اسامیاں“ نہ صرف آپ کا طواف شروع کردیں گی بلکہ ”نذر“، ”نیاز“ اور
”نذرانے“ بھی پیش کرتی رہیں گی۔ اور ان نذرانوں کے طفیل آپ کالم نگار سے
آناً فاناً مال دار بنیے ہوجائیں گے۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں
.............کالم نگار بنیے۔ |
|