میجک ان ریسرچ اور جناب سرور عالم راز

میجک ان ریسرچ کی تفہیم کرتے‘ میں نے دانستہ‘ تقریبا ڈھائ ہزار پرانے بندے کا انتخاب کیا۔ میرا خیال تھا کہ بندہ مر کھپ گیا‘ اب اس کا کسی سے کیا لینا دینا ہو سکتا ہے۔ دوسرا ہندو سکھ عسیائ وغیرہ نہیں‘ اس لیے اعتراض کی گنجاءش نہیں نکلے گی۔ اگر کسی مسلمان کی بات کرتا تو وہابی سنی شعہ کا رولا ڈل جاتا۔ میں بڑی ایمان داری سے کہتا ہوں‘ کہ مجھے معلوم نہ تھا‘ کہ سکندر راز صاحب کی سلام دعا میں ہے۔ اور ناکام مروں کی تاریخ میں کمی ہے‘ جو بطور پھنے خان‘ تاریخ میں بھرواں ٹہکا رکھتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر آج بھی اسی پہار کے ساتھ وجود رکھتا ہے۔
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

میں اگر محمد بن قاسم‘ محمود غزنوی‘ بابر یا ٹوپی سلار کو بطور مثال لے آتا‘ تو مارا گیا تھا نا۔

محترم سرور عالم راز صاحب نے فرمایا ہے‘ کہ اگر میں یہ کہوں‘ کہ انسان نے خدا کو بنایا ہے‘ تو کیا یہ میجک ان ریسرچ نہ ہوگا؟
بالکل نہیں‘ زیرو پرسنٹ بھی نہیں۔
میجک ان ریسرچ میں الگ سے‘ نئے اور غیر مستعمل کا سامنے ضروری ہے۔

اس نظریے میں کچھ نیا نہیں۔ یہ صدیوں نہیں‘ ہزاروں سال پرانا نظریہ ہے۔ موبائل فون کی ایجاد کو‘ کسی حد تک‘ اس دائرے میں لا سکتے ہیں۔ ریڈیو کی ایجاد میجک ان ریسرچ کے کامل داءرے میں آ سکتی ہے۔ تاہم اس کے پیچھے حضرت عمر کا آوازہ موجود ہے۔ وہاں مخصوص شخص کی بات ہے اور انسڑومنٹ انوالو نہیں ہیں۔

راز صاحب نے نئ الگ سے یا غیر مستعمل مثال نہیں دی‘ بات یا نظریہ‘ پیش نہیں کیا‘ اس لیے اسے میجک ان ریسرچ کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ فرعون‘ نمرود وغیرہ نے خود کو خدا کہلوایا‘ لوگوں نے منا بھی۔ اس میں حیاتیاتی مجبوری تھی‘ معاشی ضرورت تھی یا سیاسی جبر تھا‘ کوئ بھی صورت رہی ہو‘ اس میں‘ انسان نے خدا کو بنایا کا عنصر‘ واضح طور پرموجود ہے۔

جن بتوں کی پوجا ہوتی رہی‘ وہ سابقہ جابروں کی تجسیم تھی۔ عقیدت کا بھی حوالہ موجود رہا ہے۔ آج ہی کو لیں‘ طاقتور کی جبری پرستش کا عمل جاری ہے۔ اس کے حکم پر پھنے خاں سر خم رہتے ہیں‘ حالانکہ دعوی خدائ موجود نہیں۔ دور کیا جانا ہے‘ قریبی باس‘ جو کسی بگ باس کا گولا ہوتا ہے‘ خدائ کا دعوی نہیں کرتا‘ لیکن طرز عمل‘ خدائ یا خدائ قریب ضرور ہوتا ہے۔ جی حضوریے‘ دل سے اسے خدا نہیں مانتے‘ لیکن عملی اور زبانی خدا ہی مان یا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ مقولہ مستعمل ہے‘ باس از آل ویز رائٹ۔ یہ مقولہ خدائ کے حوالہ سے نہیں ہے‘ تو اور کیا ہے۔

منصور اور سرمد کا معاملہ الگ سے ہے۔ منصور کو دیکھنے والے‘ وہاں نہیں تھے جہاں منصور تھا‘ اس لیے انھیں منصور کا کہا غلط اور قابل تعزیر لگا۔ منصور بھی غلط نہیں تھا۔ دیکھنے میں‘ وہ بلاشبہ منصور تھا لیکن ابنی اصل میں وہ منصور تھا ہی نہیں۔ اس حوالہ سے‘ فریقین اپنی اپنی جگہ پر‘ درست تھے۔ جو بھی سہی‘ شخص کے حوالہ سے‘ خدائ سامنے آتی ہے۔

راز صاحب نے خدا کو نظریہ قرار دیا ہے۔ باور رہے‘ خدا نظریہ نہیں‘ عقیدہ ہے۔ یہ دونوں الگ الگ حیثیتوں کے حامل ہیں۔ نظریہ ثبوت اور دلاءل طلب کرتا ہے۔ عقیدہ‘ اس حاجت سے بالاتر ہے۔ اگر کسی سے کہا جاءے کہ الله کے بارے میں کوئ دلاءل دو یا اس کا کوئ عملی تجزیہ پیش کرو‘ تو وہ اس ذیل میں‘ بات کرنا بھی جرم عظیم سمجھے گا۔ اگر وہ پیش کرتا ہے تو اس کا عقیدہ قطعی ناقص ہے۔ حالانکہ منصور کی مثال موجود۔ یہ تجسیم درست نہیں‘ اس لیے موجودہ تجسیم کے تحت‘ الله نہیں کہا جا سکتا۔ باطنی سطع کی اپروچ کے لیے‘ منصور بننا پڑے گا۔ میں ناہیں سبھ توں‘ کی عملی سطع‘ نظریہ والے کے لیے‘ ممکن ہی نہیں۔

راز صاحپ کا مطالعہ زبردست سہی‘ تنقیدی شعور معقول ہے‘ تحقیقی تجسس بھی رکھتے ہیں۔ الله جانے اس ذیل میں کچھ نہیں فرمایا‘ یقینا قابل حیرت ہے۔ سادہ سی بات ہے‘ میجک ان ریسرچ کو واضح کرنا تھا۔ میں ناچیز کوئ حرف آخر ہوں‘ جو میرا کہا‘ غلط نہیں ہو سکتا۔ یہ میری حد تک تفہیم ہے‘ کوئ آسمان سے نازل نہیں ہوئ۔

راز صاحپ کے پاس اگر کوئ اور تفہیم موجود ہو‘ تو یہاں پیش کریں تا کہ بہت سووں کا بھلا ہو۔ سکندر کے معاملہ میں‘ کوئ بات بری محسوس ہوئ تو‘ اس کے برملا اظہار میں کیا خرابی ہے۔ ہاں جو سوال اس ذیل میں‘ میں نے اٹھائے ہیں‘ ان کا بھی جواب ضرور عطا کریں‘ تاکہ مجھ ناچیز کے علم میں بھی اضافہ ہو سکے۔

آخر میں اتنا ضرور عرض کروں گا‘ کہ عقیدہ کے معاملہ میں‘ اظہار سے گریز فرمایا کریں۔ انھوں نے خدا کہہ کر‘ مراد الله کی ذات گرمی لی ہے۔ اور مثالیں ختم ہو گئ ہیں۔ ہر مسلمان عقیدہ رکھتا ہے‘ کہ الله بے مثل اور بےمثال ہے۔ کیا ضروری ہے کہ وہ کہا جاءے‘ جس سے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔

بے شمار ادبی‘ تاریخی‘ سماجی‘ معاشی‘ ساءنسی وغیرہ مثالیں موجود ہیں۔ الله کے حوالہ سے‘ بات ہی نہیں ہوئ اور ناہی الله کی ذات گرامی کو بطور مثال لیا جاسکتا ہے اور ناہی لیا گیا ہے۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190859 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.