پاکستان کے مقتدر لُٹیرے

پاکستان بننے کےبعد مغربی پاکستان کے مکار اور فریبی وڈیروں، جاگیرداروں اور سیاست پیشہ ڈاکؤوں نے مکمل اقتدار حاصل کرنے کے لئے بانیانِ پاکستان کو حکومت سے نکالا، مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوایا اور مغربی پاکستان میں جعلی جمہوریّت کا طریقہ اختیار کیا جسمیں درجنوں سیاسی پارٹیاں بڑی بڑی رقوم لے کر ہزاروں بوالہوسوں کو اپنا ٹکٹ دیتی ہیں۔ انتخابی حلقوں میں ووٹر مذہبی فرقوں، ذات، برادری، رنگ، نسل میں تقسیم ہوتا ہے، اسکی اپنی کوئی آزادانہ رائے نہیں ہوتی جاگیر دار کے دباؤ اور سب سے بڑھ کر پیسے لے کر ان بوالہوسوں کو ووٹ دیتا ہے۔ یہ لوگ جعلی ووٹنگ کرانے میں بھی کمال رکھتے ہیں۔ اس طرح چور ڈاکو صفت لوگ0 5 فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود عوام کے ننائندہ بن کر اسمبلیوں میں جاپہنچتے ہیں۔ انہی میں سے وزیر بنائے جاتے ہیں اور یہ وزیر اچھے افسران کو ہٹاکر ڈاکو صفت افسران کو اپنے ماتحت محکموں میں مقرر کرتے ہیں اور پھر یہ سب ٹھیکوں اور نوکریوں سے خوب مال بناتے ہیں۔ عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگا کر خوب روپیہ بٹورتے ہیں اور دواؤں اور دہگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں بڑھانے کی اجازت دے دے کر مزید دولت کے پہاڑ اکھٹّے کرتے ہیں۔ ایسی ڈھٹائی سے گویا اللہ تعالٰی کے سامنے اپنی بداعمالیوں کا حساب دینا ہی نہیں ہے۔ اسکے بعد 5 سال تک ووٹر اپنی حماقت اور جہالت کا خمیازہ بھگتتے ہیں اور اپنے لٹنے کا تماشا دیکھتے ہیں مگر بے بس ہوتے ہیں، کر کچھ نہیں سکتے۔ انہیں یہ کہ کر مزید بےوقوف بنایا جاتاہے کہ جمہوریّت کی خرابیوں کا علاج مزید جمہوریت ہے (وہی جعلی جمہوریت جو پاکستان میں رائج ہے، مقتدر طبقوں کی غلام جمہوریت) بس پھر ان کو باری باری لوٹ مار کا موقع دیتے رہو تاکہ یہ جسدِپاکستان سے آخری قطرہء خون بھی نکال سکیں - اس کے بعد یہ اور انتظامیہ میں شامل انکے حاشیہ بردار معہ اپنی دولت کے یوروپ اور امریکا میں آباد ہو جائیں گے، عوام جانیں اور انکا کام۔ انہوں نے یہ بھی انتظام کیا ہؤا ہے کے اگر پاکستان میں بھی رہے تو آنے والی حکومت، چاہے کالے چور ہی کی کیوں نہ ہو، اس کے آلہ کار اورخدمت گذار بنکر اپنی لوٹ مارکی دولت کا تحفّظ کریں گے ان کے لئے اسکے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے:
جعفر از بنگال و صادق از دکّن
ننگِ ملّت، ننگِ دیں، ننگِ وطن (اقبال)

پاکستان کے عوام یہ سب مصائب اس لئے بھگت رہے ہیں کہ عوام کی اکثریت جاہل اور ان کے لیڈر خود غرض یا نااہل ہیں، جو اُن ہدایات سے فائدہ نہیں اُٹھاتے جو اللہ تعالٰی نے دنیا میں مسلمانوں کا درجہ بڑھانے کے لئے دی ہیں۔ مثلاّ :اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ “ اللہ تعالٰی کی رسی کو مضبوط پکڑو ، فرقہ فرقہ نہ ہو جانا ، ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی“۔ ان ہدایات کے برخلاف پاکستان میں مذہب کے نام پر پیری مریدی کا نظام قائم ہے، ہر مرید اپنے پیر کے خاندان کو ووٹ دیتا ہے اسطرح ووٹوں کی اس تقسیم سے آبادی کے%98 ہونے کے باوجود مسلمانوں کی ہوا اکھڑ گئی ہے جسکے نتیجے میں %2 روشن خیال مسلمان ان پر حکومت کر رہے ہیں، جِنکا منشور “لوٹو اور پھوٹو“ ہے۔ یہی “روشن خیال“ پاکستان کی ترقی اور نفاذِاسلام کی راہ میں بہت بڑا پہاڑ ہیں جِنکا تمام ذرائع ابلاغ پر بھی قبضہ ہے اور جو طالبعلموں کے نصاب میں سے بھی اسلامی تعلیمات نکالنے کی حتمی کوشش کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی نالائقی سے اسمیں کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ مسلمانوں کے انہی اعمالِ بد کا نتیجہ ہے کہ پاکستان تباہی کے غار کے دہانے پر کھڑا ہے اور کسی بھی وقت اس غار میں گر سکتا ہے۔

مگر راقم کو یقین ہے کہ پاکستان تباہ ہونے کے لئے وجود میں نہیں آیا ہے، بلکہ امّتِ مسلمہ کو متحد کر کے اسے دوبارہ عروج پر لےجانے کے لئے وجود میں آیا ہے اور یہ کوئی بہت مشکل کام بھی نہیں ہے۔ یہ حقیقی جمہوریّت کے ذریعے بااٰسانی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ مسلمانوں کی پاکستان میں عظیم اکثریت ہے۔ وہ اس طرح کہ انتخابی قوانین تبدیل کئے جائیں، افراد کے بجائے سیاسی پارٹیوں کو ووٹ ڈلوائے جائیں، جس پارٹی کو جتنے فیصد ووٹ ملیں اسے اسمبلی میں اتنی فیصد سیٹیں دی جائیں۔ مثال: اسمبلی300 افراد کی ہے اور کسی پارٹی کو ڈالے گئے ووٹوں کے دس فیصد ووٹ ملے ہیں تو اس پارٹی کو اسمبلی میں 30 سیٹیں دی جائیں۔ اسطرح تمام پارٹیوں کی اسمبلی میں حقیقی نمائندگی ہو جائے گی اور کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوگا۔ نیز پارٹیوں کو ان سیٹوں پر اپنے نمائندے بھیجنے اور تبدیل کرنے کا اختیار دیا جائے تاکہ نمائندے اسمبلی میں اپنی من مانی نہ کرسکیں، کارکردگی کی بناء پر اسمبلی میں رکھے یا بلائے جائیں۔ مزید یہ کہ انکو ترقیاتی فنڈز ہرگز نہ دیئے جائیں، انہیں صرف ترقیاتی کاموں اور عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں تجاویز دینے کا اختیار ہو۔ تمام ترقیاتی اور عوام کی فلاح و بہبود کے کام سرکاری محکموں سے کروائے جائیں، جسکی سختی کے ساتھ مانیٹرنگ اور آڈٹ ہو اور اگر کوئی کرپٹ اہلکار پایا جائے تو اسے نہ صرف نوکری سے برخاست کیا جائے بلکہ عدالتوں سے کڑی سزایئں دلوائی جائیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ عوام کے نمائندوں کو وہی تنخواہیں اور مراعات دی جائیں جو انگلینڈ میں انکے ہم منصبوں کو دی جاتی ہے۔ صدر، وزیرِاعظم اور وزراء کی تمام شاہ خرچیاں قانون“ ختم کی جائیں۔ حکومت اور عوام کے بیرونی کرنسیوں کے خرچ پر ویسی ہی پابندیاں لگائی جائیں جیسی قیام پاکستان کے بعد ابتدائی دنوں میں لگائی گئی تھیں۔ اس زمانے کے Foreign Exchange Regulation Act 1947 اور Foreign Exchange Manual پر سختی سے عمل کیا جائے۔ پھر دیکھئے پاکستان، جو قدرتی وسائل اور بیرونی کرنسیوں کے ذرائع آمدنی کے لحاظ سے علاقے کا امیر ترین ملک ہے، کہاں پہنچتا ہے، اور کس طرح اپنے مقاصدِ وجود کو پورا کرتا ہے۔ انشاءاللہ۔
 ظفر عمر خاں فانی
About the Author: ظفر عمر خاں فانی Read More Articles by ظفر عمر خاں فانی: 38 Articles with 39230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.