وہ آوازیں جو انسان کی صحت پے مضر اثرات
چھوریں اور طبیعت پے نا گوار گزریں اور شور اور آلودگی صرف انسانوں کی صحت
پر ھی نھیں بلکہ مختلف چیزوں کی خوبصورتی پے بھی اثر انداز ھو رہی ہے، اور
آج شور اور آلودہ ماحول ایک بہت بڑا اور گمبہیر مسئلہ بن چکا ہے، پوری
دنیا،پاکستان، اور خصوصاََ شہرِ قائدکی عوام کے لئے، کیوں کہ شہرِقائد کی
عوام بری طرح متاثر ہو رہی ہے شور زدہ اور آلودہ ماحول کی وجہ سے، اور
ڈبلیو ایچھ او کے مطابق دنیا بھر میں شور زدہ اور آلوہ ماحل کی وجہ سے
مختلف امراض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد 325ملین ہے جو کہ ایک بہت بڑی
تعداد ہے، اور حال ہی میں مینے ایک تحقیق پڑہی جو انسٹیٹیوٹ آف انوارنمینٹل
سٹڈیزآف پاکستان کی جانب سے کی گئی تہی اور اس تحقیق کے مطابق کراچی
پاکستان کے چند ان بڑے شہروں میں سے ایک ہے جو شورزدہ اور آلودہ ماحول کی
وجہ سے سخت متاثر ہو رہے ہیں،اور مزید اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کراچی
کی 60%فیصد عوام پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں،اور حیران کن بات یہ ہے
کہ دنیا کے چوتھے اور ملک کے سب سے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی شرح صرف
6%فیصد ہے اور شہر میں متاثر ہونے والوں کی تعداد 40%فیصد ہے اور ہر سال یہ
تعداد بڑہتی ہی جا رہی ھے۔
اور جب می نے یہ تحقیق پڑہ لی تو میرے ذہن میں صرف ایک ہی سوال تھا کہ آخر
وہ کونسی وجوہات ھیں جو شہر قائد کے پر سکون ماحول کو شورزدہ بنا رہی ہیں
اور یہ جاننے کے لئے مینے شہر کے مختلف علائقوں میں گیا تو پتا چلا کہ بہت
سی ایسی چیزیں جو ہم عوام خوپھلاتے ہیں اور شھر کے ماحول کو آلودہ اور شور
زدہ بناتے ھیں .
نیچے شور اور آلودگی کی وہ سب وجوہات بیان کی گئی ھیں جو شور اور آلودگی
پھلا رہی ھیں، سب سے پھلے میں ذکر کرونگا ان کھٹارہ بسوں کا جو پبلک
ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال ہوتی ھیں، ان کھٹارہ بسوں میں پریشر ہارن لگے
ہوئے ہوتے ہیں اور اکثر بسوں کے تو سائلنسر بھی پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ
کھٹارہ بسیں سارادن شھر کی سڑکوں میں چلتی رہتی ھیں اور شور آلودگی پھلانے
کا سبب بنتی ھیں،اور شور اور آلودگی میں مزید اظافہ کرنے کی وجوھات اور بھی
بھت ساری ھیں جیسے ایمرجنسی ایمبولینسیس،رکشہ موٹر سائیکل کھلے ہئے
سائیلنسر والی جو اکثر ھمارے نوجوان استعمال کرتے ہیں، اورشادی بیاہ کے
موقعئے پر فائرنگ کرنا،اور تیزآواز میں میوزک چلانا عوامی جگہوں پر،اور شہر
کے گنجان آباد علائقوں میں سے ریلوں اور جہازوں کا گزرنا اور آبادیوں کے
قریب لگے ھوئے کارخانوں کی مشینوں کی آوازیں اور مزید آپ کو بتاتا چلوں کہ
سپیکرز کا غیر ضروری استعمال جلسے جلوسوں کے دوران سیاسی و مذہبی رہنماؤں
کی تقریریں عوام کے نعرے اور مذھب کے نام پے تکراری بیان کرنا یا سیاست کے
نام پے اپنے مخالفین کے خلاف اشتعال انگیز ٹی وی پروگرام کرنا یہ سب وہ
وجوہات ہیں جو شہر میں شور اور آلودگی پھلا رہی ھیں، اور اس کے مضر اثرات
واضح طور پے لوگوں کی صحت پر پڑرہے ہیں .
اور مزید جاننے کے لئے میں ڈاکٹر ظفر اقبال کے پاس ان کے کلینک پے گیا اور
مینے ڈاکٹر صاحب سے سوال پوچھا کہ شور اور آلودگی کے وہ کونسے مضر اثرات
ھیں جو لوگوں کی صحت پے اثر انداز ہو رہے ہیں؟ تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیتے
ہوئے کہا کہ شور اور آلودہ ماحول کے سب سے زیا دہ اثرات لوگوں کی سماعت پے
پڑتے ہیں مطلب کہ لوگوں کی سننے کی صلاحیت کم ہو جاتی ھے مزید ڈاکٹر صاحب
نے بتاتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی انسان لگاتار آٹھ سال ایسے ماحول میں رہتا
ہے جہاں ہر وقت شور ہو اور اس کی آواز Decibel 85 سے زیادہ ہو تو انسان
جلدی بہرا ہو جاتا ہے، اور مینے مزیدبیماریوں کے بارے جاننے کے لئے ڈاکٹر
صاحب سے سوال کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ سر درد، بلڈپرشر کا بڑہ جان، یہ
سب وہ بیماریاں ہیں جو Noise Pollution کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اور کہا کہ
noise pollution کے مضر اثرات لوگوں کی صحت پر ہی نہیں بلکہ ان کہ نفسیات
پے بہی پڑتے ہیں .
اور بہتر جاننے کے لئے جب مینے ماھر نفسیا ت ڈاکٹر معظم علی خان سے رابطہ
کیا اور ان سے یہ سوال کیا کہ وہ کونسے نمایاں اثرات ہیں جو ایک شور زدہ
اور آلودہ معاشرے کے لوگوں میں ہوتے ہیں؟
تو انھو ں نے جواب دیتے ہوئے کہا وہ معا شرہ جھاں شور اور آلودگی زیادہ ہو
وہاں کے لوگوں میں غصہ بہت عام ہوتا ہے جو کے ہمارے ہاں بھی ہے، اور چڑ
چڑاپن زیادہ ہوتا ہے بات بات پے جھگڑے ہو جاتے ہیں اور ایسے معاشرے میں
رہنے والے لوگوں میں برداشت کا مادہ بہت کم ہوتا ہے مزید بتاتے ہوئے انہونے
کہا کہ شور اور آلودہ ماحول کی وجہ سے لوگوں کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے
مسلسل ایسے ماحول میں رہنے کی وجہ سے، اور ڈاکٹر معظم نے یہ بہی کہا کہ اگر
ہم مجموعی کارکردگی کا موازنہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ High level of noisey
community کے لوگ بہت پیچھے ھوہوتے ہیں زندگی کے ہر شعبے میں بنصبت Low
level of noisey community کے لوگوں کے، اور ڈ اکٹر معظم خان نے یے بہی کہا
کہ جو مسئلے کم شورزدہ معاشرے میں باتوں سے نمٹائے جاتے ہیں وہ مسئلے زیادہ
شورزدہ معاشرے میں لڑائی جھگڑے سے نمٹائے جاتے ھیں اور بات قتل و غارت پے
ختم ہوتی ہے، اتنا زیادہ فرق ہوتا ہے کم شور زدہ اور زیادہ شور زدہ معاشرے
کے لوگوں کی نفسیات میں .
Noise pollution کی وجوہات اور بیماریاں جاننے کے بعد اب یے جاننا ضروری
تھا کہ آیا اتنے بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لئے پاکستان میں کوئی قانون بھی ہے
کہ نہیں، اس لئے مینے اِس کی قانونی حیثیت جاننے کے لئے اپنے ایک وکییل
دوست Advocate G.m Baloch سے ملا اور ان سے یے سوال پوچھا کہ، کیا پاکستان
میں شور اور آلودگی کو روکنے کے لئے کوئی قانون وغیرہ ہے کہ نہیں؟
تو انہوں نے اسکا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں Noise pollution کو
روکنے کے لئے 1972میں منسٹری آف انوائرنمینٹ بنائی گئی تھی اورNoise
pollution کو روکنے کے لئے 03 11 1997 میں پاکستان انوائرنمینٹل پروٹیکشن
ایکٹ پاس کیا گیا اور انہوں نے کہا کہ اِس قانون کے تحت عوامی جگھوں پر تیز
آواز میں میوزک چلانا شادی بیاہ کے موقعئے پر فائرنگ کرنا ریلیوں اور جلسے
جلوسوں کے دوران اِشتعال انگیز تقریرں کرنا نعرے لگانا یہ Pepa act section
7 کے خلاف ہے اور مزید بات کو آگے بڑ ہاتے ہوئے ایڈوکیٹ جی ایم بلوچ نے کہا
کہ جن گاڑیوں کے پاس فٹنیس سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا وہ Pepa act Regulation of
motorvichle section 15 کے خلاف ہے۔
اور مینے ان سے یہ بھی سوال کیا کہ کیا ہمارے ملک کا قانون آبادیوں کے قریب
کارخانے لگانے کی اجازت دیتا ھے کہ نھیں؟ تو اسکا جواب ایڈوکیٹ جی ایم نے
دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک کا قانون یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی فرد
یاOrganization کو کہ وہ آبادیوں کے قریب کارخانہ جات لگائیں، اگر کوئی فرد
یا تنظیم ایسا کریں گے تو حکومت کو اس قانون کے تحت یے مکمل اختیار ہے کہ
وہ اُس شخص یا تنظیم کی ملکیت ضبت کرے یا پھر اس کو سزا دے جو کہ چھ ماہ سے
لیکر دو سال تک ہو سکتی ہے.
ٓیہ سب جاننے کے بعدآخر میں حکومتِ وقت سے اور میڈیا سے یہی گزارش ہے کہ
Noise pollution کو روکنے کے قانون پے عمل کرائے اور لوگوں میں شعورپیدا
کرنے کے لئے سیمینارز کرائیں اور ورکشاپ کرائیں، اور اس میں میڈیا کوبھی
کہا جائے کہ وہ بھی اپنا کردار نبھائے اور ایسے content بنائیں جس سے لوگوں
میں شعور پیدا ہو تا کہ وہ قانون کی خلاف ورزی نا کریں . |