خیرپور میں ہونے مولانا علی شیر
حیدری سربراہ سپاہ صحابہ پاکستان کے، کی کھلے عام قتل پر پورے ملک میں بے
چینی اور غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی
مگر جس طرح شرپسندوں اور خصوصاً مذہبی انتہا پسندوں نے اسلحہ کا بے دریغ
استعمال کیا اور شہر کراچی میں علی الصبح سے ہی اسلحہ کے زور پر دکانیں
لوٹنا شروع کیں اور پولیس اور رینچرز کا باقاعدہ مقابلہ کیا اس سے کیا یہ
بات ظاہر نہیں ہوتی کہ مذہبی جنونی انتہا پسند اور خصوصاً کالعدم تنظیمیوں
کے کارکن اور ساتھ ساتھ ان تنظیموں کے کارکن بھی شامل ہیں جو پاکستان کے
تعلیمی اداروں میں نفرت اور تشدد کی فضا کا پیدا کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں
ملک کے کسی بھی تعلیمی ادارے کے بارے میں یہ خبر شائع ہو کہ وہاں دو طلبا
تنظیموں میں تصادم ہوا ہے تو ایک طلبا تنظیم تو شائد اسی صوبے کی ہوگی جہاں
یہ تصادم ہوا ہو مگر جو دوسری طلبا تنظیم ہو گی وہ یقیناً جماعت اسلامی کی
بغل بچہ تنظیم “ جمیعت “ ہی ہو گی۔
کراچی کو سب نے کیا سمجھ رکھا ہے ووٹ لینے کی بات آتی ہے تو چند جماعتیں
کراچی کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں اور صحیح کرتی ہیں مگر جب بدمعاشی کی
بات آتی ہے تو سب جماعتیں کس کا مال سمجھتی ہیں کراچی کو ؟
مولانا کا قتل ہوا خیر پور میں اور کراچی میں اس قدر فائرنگ اور جلاؤ
گھیراو کیوں؟ کیا کراچی میں ان کا قتل ہوا تھا۔ خدا نا کرے اگر مرحوم کراچی
میں قتل کر دیے جاتے تو شائد ان کے چاہنے والے کراچی ہی کو آگ لگا دیتے۔ یہ
کراچی سے تعصب کب جائے گا ہمارے قوم کے لوگوں میں ارے بھائی کراچی کی
خوشیاں اور ترقیاں کیا اتنی بری لگتی ہیں کہ کراچی ہی کو جلانے اور پھٹکانے
پر لگ جاتے ہو ہر موقع ملنے پر۔
پورے ملک میں بلکہ خیرپور میں جہاں یہ افسوس ناک واقعہ ہوا وہاں بھی اس قدر
احتجاج اور تشدد نا کیا گیا ہو جتنا شہر قائد کراچی میں ہوا اور ظاہر ہے اس
میں کالعدم تنظیمیں اور کی حمایت کرتی مگر الیکشن سے بھاگتی ایک مشہور
تنظیم بھی ملوث ہوسکتی ہے جس کی پولیس کو تحقیق کرنی چاہیے اور اس نام نہاد
اسلامی تنظیم کے ذمہ داروں اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارنے چاہیے تاکہ
ان کمین گاہوں سے مزید شرپسند اور طالبان قسم کے لوگ گرفتار کیے جاسکیں۔
رہی بات نام نہاد تنظیم کے نام کی تو سب اس کا نام جانتے ہی ہیں اشارے کے
طور پر “وہی ایک نام کی مذہبی جماعت، جس کی کسی ناظمہ کے گھر سے ایک دہشت
گرد گرفتار ہوتا ہے اور کبھی سری لنکن ٹیم پر حملے میں ملوث مجرم گرفتار
ہوتے ہیں اور جو آزاد میڈیا میں یہ بیان دیتے ہیں کہ ہاں ان کا تعلق اس نام
نہاد جماعت سے ہے ۔ رہی نام بتانے کی بات تو یقیناً کچھ کالم نگارز صاحبان
اس پربحث کا آغاز کریں گے اور نام سامنے آہی جائے گا۔
شہر کراچی میں بھی پیر کی صبح سے ہی مرحوم کی شہادت کے واقعے پر احتجاج
شروع ہوا جس میں کئی لوگوں نے احتجاج کرنے والے حضرات کی آڑ لیکر جلاؤ
گھیراؤ اور توڑ پھوڑ اور لوٹ ماری کا کام انجام دیا جسکے نتیجے میں دس سے
زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی آئیں اسکے علاوہ کئی گاڑیوں،
دکانوں اور ایک پیٹرول پمپ کو بھی نظر آتش کر دیا گیا۔
شہر بھر میں اکثر مشہور مارکیٹس بند رہیں جبکہ شدید ہوائی فائرنگ کے واقعات
بھی رونما ہوئے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صدیق اکبر مسجد واقع ناگن چورنگی کا محاصرہ
کیا اور دس افراد کو گرفتار کیا گیا جس میں مولانا غفور ندیم (پیش امام) ان
کے تین بیٹوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا جن کے قبضے سے مبینہ بغیر لائسنس
کا اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔ پولیس ایس پی محمد فاروق کے مطابق ایک مذہبی
جماعت کے کارندوں نے مسجد کے گبندوں کے پیچھے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا
تھا جس کے بعد مسجد پر دھاوا بولا گیا اور دس سے زائد افراد غیر قانونی
اسلحہ کے ساتھ گرفتار ہوئے جبکہ پیش امام صاحب نے بیان دیا ایک مشہور اخبار
کے نمائندوں کو کہ پولیس نے مجھے میرے تین بیٹوں کے ساتھ گرفتار کیا ہے کہ
ہمارے پاس غیر قانونی اسلحہ ہے جبکہ ہمارا اسلحہ قانونی اور لائسنس یافتہ
ہے
عینی شاہدین کا بھی بیان ہے کہ صبح ساڑھے چھ بجے مسلحہ افراد نے ناگن
چورنگی پر جلاؤ گھیراؤ کا کام شروع کیا اور پولیس موقع پر پہنچ گئی اور
شدید فائرنگ شروع ہوگئی پولیس نے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا اور اسی اثنا
میں کچھ شرپسندوں کو جن کا تعلق کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان سے ہے کو گرفتار
کیا گیا جن کے پاس سے غیر قانونی اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ |