آجکل یہ خبر بڑی گرما گرم ہے کہ
امریکہ نے اسلام آباد میں اپنی نئی ایمبیسی کے لئے سولہ ایکڑ اراضی خرید
کرلی ہے۔ اگر ہم ایکڑوں کو کنال کی صورت میں دیکھیں تو ایک ایکڑ میں تقریباً
نو کنال رقبہ ہوتا ہے جبکہ ایک کنال میں بیس مرلے اور ایک مرلہ میں شہری
علاقوں میں 225 مربع فٹ اور دیہی علاقوں میں 272 مربع فٹ ہوتے ہیں۔ چنانچہ
سولہ ایکڑ میں بحساب 9 کنال فی ایکڑ 144 کنال رقبہ بنتا ہے جس کا مطلب یہ
ہوا کہ 2880 مرلے اور اگر اس کو 225 سے ضرب دی جائے تو 648000 مربع فٹ رقبہ
بنتا ہے۔ اس سے پہلے بھی اسلام آباد میں امریکی ایمبیسی کسی چھوٹے سے رقبہ
پر تعمیر شدہ نہیں ہے بلکہ پہلے بھی ایکڑوں پر ہی واقع ہے۔ امریکہ اسلام
آباد جو کہوٹہ سے انتہائی قریب ہے وہاں اتنے بڑے رقبہ پر نئی ایمبیسی کیوں
بنا رہا ہے اور حکومت پاکستان اس سلسلہ میں بالکل خاموش کیوں ہے جبکہ اس
بارے میں افواج پاکستان اور چین کے بھی شدید تحفظات موجود ہیں۔ پاکستان کی
اصل حزب مخالف کی جماعتیں جو اس وقت بے شک پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہیں،
یعنی جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور چند دیگر جماعتیں برملا نئی امریکی
ایمبیسی کو پاکستان کے جوہری اثاثوں کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ ایک
اور خبر کے مطابق اسلام آباد میں موجود امریکی فوجی سرعام پولیس کے جوانوں
کو مارپیٹ کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
دنیا کے 245 ممالک میں اس وقت کوئی بھی ملک ایسا موجود نہیں جس میں اتنے
بڑے رقبہ پر امریکن ایمبیسی موجود ہو۔ سنا گیا ہے کہ امریکہ نئی ایمبیسی کے
نام پر اس جگہ پر ایسے آلات نصب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے وہ براہ راست
کہوٹہ کو مانیٹر کرسکے گا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ نئی ایمبیسی
میں امریکی ملازمین اور فوجیوں کے لئے رہائش گاہیں بھی بنائی جائیں گی۔ اگر
ہم ذرا غور سے جائزہ لیں تو پاکستان میں ہی ایسا کیوں کیا جارہا ہے اور
حکومت نے افواج پاکستان اور چین کی مخالفت کے باوجود امریکہ کو اتنی زیادہ
اراضی کیوں دی ہے؟ جبکہ اس مقصد کے لئے پارلیمنٹ حتیٰ کہ کابینہ میں بھی
کوئی بحث و مباحثہ اور گفت و شنید نہیں کی گئی۔ امریکہ جو آجکل کئی ملکوں
میں اپنی ایمبیسیاں بند کرنے کا سوچ رہا ہے اور یہاں تک کہ اس نے اپنے
شہریوں کو پاکستان کے سفر سے بھی منع کیا ہوا ہے تو وہ کیوں اپنے سفارتی
عملے کی تعداد کو بڑھا رہا ہے، کیا انہیں پاکستان میں دہشت گردی سے کوئی
خطرہ محسوس نہیں ہورہا؟ امریکہ اور یہود و ہنود شروع دن سے پاکستان کے
ایٹمی پروگرام کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ وہ تو بھلا ہو قومی ہیرو ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے
لئے پاکستان پہنچ گئے، بھلا ہو ذوالفقار علی بھٹو کا کہ جس نے پروگرام کا
آغاز کیا اور گھاس کھا کر بھی ایٹم بم بنانے کا اعلان کیا، بھلا ہو
ضیاءالحق کا کہ جس نے امریکی ناراضگی برداشت کی، جان بھی دی لیکن پروگرام
ختم نہ کیا، بھلا ہو نواز شریف کا جس نے ایٹمی دھماکہ کر کے نہ صرف یہ کہ
مخالفوں کی بولتیاں بند کرا دیں بلکہ قوم نے بھی سکون کا سانس لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو جس نے پروگرام شروع کیا اس کو بھی ”نشان عبرت“ بنا دیا
گیا، ضیاءالحق جس نے متواتر کام جاری رکھا اس کو بھی مروا دیا گیا اور نواز
شریف جس کے دور میں باقاعدہ دھماکے کر کے اعلان کردیا گیا اس کو راتوں رات
وزیر اعظم سے مجرم بنا دیا گیا، جان بخشی اس لئے کردی گئی کہ نواز شریف پر
احسان کر کے پھر کسی وقت کام لے لیا جائے گا اور جو وقت شائد آن پہنچا ہے۔
جبکہ اپنے ”بندہ خاص“ مشرف کے ذریعہ ”محسن پاکستان“ ڈاکٹر قدیر کے خلاف بھی
الزامات لگا کر انہیں پابند سلاسل کردیا گیا!
میں ذکر کر رہا تھا کہ امریکہ اسلام آباد میں، کہوٹہ کے اتنے نزدیک اپنی
نئی ایمبیسی کی تعمیر کیوں کررہا ہے؟ مبصرین اور دانشور اپنی رائے کا اظہار
کر رہے ہیں کہ نئی ایمبیسی میں نصب ہونے والے آلات سے پاکستان سمیت کشمیر،
افغانستان، چین اور ایران کی جاسوسی بھی ہوسکے گی۔ امریکہ بنیادی طور پر
ایمبیسی تعمیر نہیں کررہا بلکہ اپنا فوجی اور جاسوسی کا اڈہ تعمیر کررہا ہے۔
دوسری طرف خبریں گردش کررہی ہیں کہ امریکہ کی بدنام زمانہ تنظیم ”بلیک کیٹ“
بھی پاکستان پہنچ چکی ہے۔ اس سے پہلے اس کا وجود صرف افغانستان کی حد تک
تھا لیکن اب اس کے کارندے اور جاسوس پشاور اور سرحد کے دوسرے علاقوں میں
بھی سر عام گھوم رہے ہیں اور اپنے ”فرائض“ سرانجام دے رہے ہیں۔ ایسے وقت
میں جبکہ محب وطن چیخ چیخ کر دہائیاں دے رہے ہیں کہ پاکستان کے دارالخلافہ
میں، کہوٹہ کے بالکل نزدیک جدید آلات سے لیس امریکی اڈا بن رہا ہے تو حکومت،
اس کے اتحادی اور نام نہاد حزب مخالف والے شائد ”بوجوہ“ خواب خرگوش کے مزے
لے رہے ہیں۔ کیا انہیں کسی بات کا کوئی ادراک نہیں؟ میاں نواز شریف جب بھی
کچھ بولنے لگتے ہیں تو ”امریکی وائسرائے “ ہالبروک آجاتا ہے اور میاں صاحب
اپنی اگلی وزارت عظمیٰ پکی کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور ساتھ ہی چپ بھی سادھ
لیتے ہیں۔ اب کی بار تو حد ہی ہوگئی کہ ہالبروک نے برملا کہا کہ امریکی
حکومت جماعت اسلامی سے بھی رابطہ کرے گی! اللہ خیر ہی کرے، اس کے بعد وہ
عمران خان کے پاس جائیں گے۔ باقی لوگ بشمول مولانا فضل الرحمن، الطاف حسین،
اسفند یار ولی وغیرہ تو پہلے ہی ان کی جیب میں موجود ہیں۔ خلق خدا کی سمجھ
سے یہ بالا ہے کہ آخر ہر حکومت کا حکومت میں آتے ہیں ایمان کا مرکز اور
”قبلہ و کعبہ“ امریکہ کیوں بن جاتا ہے؟ آخر اس قوم سے، یہاں کے عوام سے کیا
غلطی ہوگئی، کیا جرم سرزد ہوگیا جس کی سزا ایسی قیادت کی شکل میں مل گئی!
میں سمجھتا ہوں کہ اس میں عوام کی غلطی زیادہ ہے۔ اگر قوم جاگ رہی ہو؟ اگر
وہ اپنے مشاہیر اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کا پختہ ارادہ کرلے، اگر وہ
اپنی حفاظت کا بندوبست کرلے تو ایسی ڈکیتیاں کبھی نہ ہوسکیں، قوم اگر اپنے
حقوق و فرائض کو پہچان لے، پاکستان سے صرف لینے کے چکر میں نہ ہو بلکہ کچھ
دینے کا بھی سوچے، کالی بھیڑیں کو باہر نکال دیا جائے اور کسی بھی صورت اس
ملک کی حرمت پر کوئی دھبہ نہ لگانے کا ارادہ کیا جائے ,ہر فرد اپنی ذات اور
خاندان کو سامنے رکھ کر نہیں بلکہ پورے ملک کو اپنا گھر اور یہاں کے رہنے
والوں کو اپنا خاندان سمجھ کر سوچنا شروع کردے گا تو قوم بچ سکتی ہے اور
کوئی وجہ نہیں کہ اب بھی پاکستان امریکہ کی کالونی بننے سے بچ جائے، لیکن
اگر قوم ایسے ہی سوتی رہی، راہبروں کے نام پر راہزنوں کو چنتی رہی، ورنہ
پہلے کہوٹہ پر قبضہ اور پھر پورے ملک پر، اللہ خیر کرے....! |