15ویں لوک سبھا کا آخری اجلاس

15ویں لوک سبھا کی مدت اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ بدھ 5فروری سے شروع ہونے والا سرمائی اجلاس کا دوسرا دور اس کا آخری اجلاس ہوگا۔یہ پانچ سالہ دور انتہائی ہنگامہ خیز رہا ۔ اپوزیشن کی طرف سے بار بارشور اٹھتا رہا کہ بس سرکار آج گری اور کل گری۔جانتے بوجھتے مسلسل ایک مصنوعی غیریقینی صورتحال پیدا کی جاتی رہی جو ملک کے لئے ترقی کی راہ کی سب بڑی رکاوٹ بنی رہی۔کچھ عالمی کساد بازاری کا اثر اور کچھ اندرون ملک اٹھنے والے اس شور اثر، بہت سے سرمایہ کاروں نے بازار سے اپنا سرمایہ واپس کھینچ لیا اور سونے کی ذخیرہ اندوزی میں لگادیا جو قطعی غیر پیداواری سرمایہ کاری ہے۔ نتیجہ عام آدمی کی آمدنی میں گراوٹ اور اشیائے صرف میں گرانی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ہم کسی کی حب الوطنی پر انگلی نہیں اٹھاتے، مگر یہ کیسی دیش بھکتی ہے جو اگلے الیکشن میں اپنی کامیابی کی جگت میں قومی مفادکو بھی نظرانداز کردے؟

جمہوری نظام میں دو حزب ہوتے ہیں، ایک حزب اقتدار جس کا انتخاب عوام کی کثرتِ رائے سے ہوتا ہے۔ دوسرا حزب اختلاف۔ پالیسی بنانے اور انتظامیہ چلانے کا حق اور ذمہ حزب اقتدار کا ہوتاہے۔ حزب اختلاف یا اپوزیشن کو اس پر تنقید کرنے اور مشورہ دینے کا حق تو ہے لیکن یہ حق قومی مفاد میں استعمال ہونا چاہئے۔ مخالفت برائے مخالفت تنقید اور الزام تراشی جائز نہیں۔ اسے یہ حق ہرگز حاصل نہیں کہ اپنا مطالبہ یا رائے منوانے کے لئے جمہوری نظام کو یرغمال بنالے ۔ پارلیمنٹ میں سرکارکی کامیابیوں یا ناکامیوں پر بحث و مباحثہ موقوف رہے اور اس کی جگہ ٹی وی چینل لے لیں۔ اگر ریکارڈ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ 15ویں لوک سبھا کے زاید از90فیصد ممبران کو ایک مرتبہ بھی اپنی بات کہنے کا موقع نہیں ملا۔حد تو یہ ہے کہ وقفہ سوالات بھی دھینگا مشتی کی نذر ہوگیا۔پارلیمنٹ کے پچاسویں سالگرہ پر کاروائی میں رخنہ نہ ڈالنے کے جتنے وعدے وعید تھے وہ سب بھلا دئے گئے۔ چنانچہ یہ رائے حق بجانب ہے کہ حزب اختلاف کی وعدہ خلافی اورکج روی کی بدولت اکثر ممبران اپنے حق سے محروم اور جمہوریت مفلوج ہوکر رہ گئی۔

پارلیمانی اجلاسوں کی خبروں میں سب سے زیادہ جو لفظ سنا گیا وہ اجلاس ملتوی یا ایڈجرنمنٹ کا تھا۔ اپوزیشن نے تعمیری بحث و مباحثہ کے بجائے یہ تخریبی رول اس لئے اختیار کیا کہ روز اول سے ہی اس نے اپنی نگاہیں 2014کے چناؤ پرگڑالی تھیں۔ چنانچہ یہ غیرمعمولی صورتحال دیکھنے میں آئی کہ اپوزیشن پورے پانچ سال انتخابی گیئر میں اپنی گاڑی چلاتی رہی اوریہ ہوا باندھتی رہی کہ بس سرکار اب گری اور جب گری اور ہماری باری آئی۔ یوپی اے کی طرف سے اگر یہ بات کہی گئی کہ بھاجپا نے نہ تو عوام کے 2004کے فیصلے کو دل سے قبول کیا ،جب وہ باجپئی جی کی قیادت میں شائننگ انڈیا کا نعرہ لگاتی ہوئی قبل از وقت چناؤ کرا بیٹھی تھی اور نہ 2009کے انتخابی نتائج اس کے گلے سے اترے، جب اس نے ’نکمے‘ اور ’کمزور‘ وزیراعظم کے مقابلے اپنے ’لوہ پرش ‘کو وزیراعظم کا امیدوار بناکر چناؤ لڑا تھا ۔ لوک سبھا میں اکثریت حاصل نہ کرپانے کے باوجود وہ اس خمار میں رہی کہ سرکاری پالیساں اس کی پسند سے تشکیل پائیں ، وزیراعظم اس کے چشم ابرو کے اشارے پر وزیروں کو ہٹاتے رہیں ۔ اس کا زیادہ وقت وزیر اعظم اور دیگر وزیروں کے استعفے مانگتے ہوئے گزرا۔ قوم کو اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ جو لیڈران اپوزیشن میں رہ کر اپنے آئینی رول کو دیانتداری سے نہیں نبھا سکے، اپنے وعدوں پر کھرے نہیں اترے، وہ اگر برسراقتدار آبھی گئے تو اپنی ذمہ داری کو کس طرح ادا کریں گے؟

علاقائی پارٹیاں
کچھ ایسا ہی حال علاقائی پارٹیوں کا رہا۔ ان کی نظر قوم اور ملک کے مجموعی مفاد سے زیادہ سرکاری خزانے ، اپنے ذاتی مفادات اور علاقائی ترجیحات پر رہی۔ بقول ملائم سنگھ سینے میں وزیراعظم بننے کی آگ بھبک رہی ہے۔ریاستی سرکاروں کو جو رقومات مختلف اسکیموں کے تحت مرکز سے ملیں، ان کا بیشتر حصہ خورد بردہو گیا۔ قومی روزگار گارنٹی اسکیم (نریگا)، دیہی صحت اسکیم اور سروشکشا ابھیان کے تحت جو رقومات ملیں اگر ان کا استعمال ہی ایمانداری سے ہوگیا ہوتا تو آج ملک میں ایک سماجی انقلاب نظر آتا۔ یہی حال اقلیتوں کے لئے مخصوص اسکیموں کی رقومات کا رہا ،جن کا بیشتر حصہ خرچ ہی نہیں کیا گیا۔ ان پارٹیوں کا گٹھ جوڑ اگر مرکز میں برسراقتدآگیا توملک کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی ۔

کارگردگی میں گراوٹ
15لوک سبھا کے دوران پارلیمنٹ کی مجموعی کارکردگی کاجائز ہ لیاجائے تومایوسی ہاتھ آتی ہے۔اس دوران صرف 165بل منظور ہوئے ،ان میں بھی اکثر بغیر بحث و مباحثہ کے۔ اپنی کاردکردگی کے اعتبار سے اس لوک سبھا کا ریکارڈ سب سے کمتر رہا اور اس پر بھی ہمیں فخر ہے کہ ہماری جمہوریت نمو پذیر ہے۔ جنہوں نے پانچ سال تک پارلیمنٹ کو نہیں چلنے دیا وہی اب خم ٹھونک کر ملک بھر میں قبل از وقت انتخابی مہم چلارہے ہیں اور دعوا کررہے ہیں کہ ملک کو بس و ہی چلاسکتے ہیں۔

انتخابی ریلیاں
اصل اپوزیشن بھاجپا اوراس کے جواب میں بعض علاقائی پارٹیوں نے انتخابات کا بگل بجادیا ہے۔ جھوٹ اور فریب کے پروپگنڈے کے ساتھ نریندرمودی درجن بھر سے زیادہ ریلیاں کرچکے ہیں۔کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ان پر ہزاروں کروڑ روپیہ جو خرچ ہورہا ہے وہ کہاں سے آرہا ہے؟ ایک رپورٹ یہ ہے کہ مودی کو کارپوریٹ سیکٹر ابھاررہا ہے تاکہ گجرات کی طرح پورے ملک میں اس کو لوٹ کی چھوٹ مل جائے۔ ان کی اس دھما چوکڑی پر دیدہ ور اور کہنہ مشق صحافی جناب حفیظ نعمانی نے جس جرأت اظہار کے ساتھ تبصرہ کیا ہے،وہ انہی کا حصہ ہے۔ بطور نمونہ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔ میرٹھ میں 3فروری کی ریلی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’مودی نے کہا گجرات میں دس سال پہلے دنگے ہوتے رہتے تھے، اب وہاں صرف ترقی کی بات ہوتی ہے۔ لیکن انہوں نے اپنی سرپرستی میں گجرات کے ’مہادنگے‘ کو نظرانداز کردیا …… اور سینہ ٹھونک کر کہا کہ اترپردیش میں آئے تو اس کو فساد سے پاک پردیش بنادیں گے۔ ہم سے مراد شائد وہی لوگ ہیں جن کی حکومت اور نگرانی میں بابری مسجدکو شہید کرکے پورے ملک کا منھ کالا کیا گیا اور اس کے بعد جب مودی جی کے پانچ لاکھ سے زیادہ کارسیوک کہلانے والے غنڈے …… واپس ہوئے تو راستے میں پڑنے والی ہر مسجد اورہر مسلمان کی دوکان کو لوٹتے اور غریب مسلمانوں کو مارتے ہوئے اپنے ٹھکانوں پر گئے اور اس ماردھاڑ کو پورے ملک میں جاری رکھا۔ انتہا یہ ہے کہ ممبئی میں دوہزارغریب مسلمانوں کوان غنڈوں نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔‘‘

’’انہوں نے میرٹھ میں کھڑے ہوکر مظفرنگر کی طرف اشارہ کیا لیکن اتنی ہمت نہیں کی کہ کہتے کہ اس دنگے میں جس جاٹ کا ہاتھ ہے ،وہ اس ریلی سے اٹھ کر چلاجائے اور نہ یہ کہنے کی ہمت دکھائی کہ جس جس گاؤں کے مسلمان ڈر کی وجہ سے گھر چھوڑ آئے ہیں ان گاؤوں کے چودھری کمپوں میں جائیں اور ان کو حفاظت کا یقین دلا کر اپنے ساتھ واپس لیجائیں۔‘‘(کاش اس عذاب سے نجات مل جائے۔ جدید خبر، 4 فروری)

گجرات کی ترقی
مودی ہرجگہ گجرات کی ترقی کا حوالہ دیتے ہیں۔ چند بڑے صنعت کاروں کو کوڑیوں کے دام کسانوں سے چھینی ہوئی زمینیں دیدینا اور بڑ ے بڑے کارخانے لگا دینا عوام کی ترقی نہیں ہے۔ ترقی کے اس ماڈل کا جو نتیجہ گجرات میں ظاہرہورہا ہے وہ یہ ہے کہ چھوٹی اور گھریلو صنعتیں تباہ ہورہی ہیں۔امریکا کی طرح دولت چند بڑے گھرانوں کے میں سمٹ رہی ہے اور پوری آبادی کامگار اور ملازمت پیشہ بنتی جا رہی ہے۔ ریاست کی خوشحالی اور اچھی حکمرانی کی پول عام آدمی پارٹی کی گجرات میں حالیہ مہم سے کھل رہی ہے، جہاں مودی سرکارسے نالاں لاکھوں افراد اس نئے متبادل کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔

اب مودی کے اس دعوے کی پول بھی کھل گئی ہے کہ ریاست میں غریبی کی سطح سے نیچے رہنے والوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ جب پلاننگ کمیشن نے شہرمیں غریبی کا پیمانہ یومیہ 38روپیہ 40پیسہ اوردیہات میں 31روپیہ 6پیسہ کا خرچ بتایا تھا تو بھاجپا نے اس پر شدید احتجاج کیاتھا۔ اب گجرات کے سرکاری ویب سائٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں پر یہ پیمانہ شہر میں 16روپیہ 70پیسہ اور دیہات میں 10روپیہ 80پیسہ مقرر کیا گیاہے۔ گویا گجرات میں جو شخص دن میں اپنی غذا اور کپڑے پر اتنا پیسہ خرچ کرنے کا اہل ہوگا وہ غریب نہیں امیر شمار ہوگا اور اس کو ان اسکیموں کا فائدہ نہیں پہنچے گا جو خط افلاس سے نیچے زندگی بسرکرنے والوں کے لئے ہیں۔ اس پیمانہ کو نافذ کیا گیا تو لاکھوں افراد خود بخود مودی سرکار کی نظر میں ترقی کرگئے۔

کشن گنج اے ایم یو سنٹر
بعد از خرابی ٔ بسیار آخر کشن گنج میں مسلم یونیورسٹی کے سینٹر کاسنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ مختلف علاقوں میں یونیورسٹی کے سنٹروں کا قیام سچر کمیٹی رپورٹ کا ثمرہ ہے۔ اس کے لئے سابق مرکزی وزیر ارجن سنگھ، جناب اے اے فاطمی،اے ایم یو کے سابق وی سی پے کی عبدالعزیز اصل محرک وموئد بنے۔ کشن گنج سے لوک سبھا کے رکن مولانا اسرارالحق کی مسلسل جدوجہد اور موجودہ وی سی جناب ضمیرالدین شاہ کی دلچسپی کی بدولت دیر سے ہی سہی اس سنٹر کی شروعات تو ہوئی۔ اس منصوبے میں یقینا یو پی اے چیرپرسن سونیا گاندھی، وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی دلچسپی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیراعلا نتیش کمار نے بھی زمین فراہم کرکے تعاون دیا۔ چنانچہ یہ سبھی مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں۔ یہ مراکز ان علاقوں میں اقلیت کی تعلیم کے فروغ کے لئے مرکزی یونیورسٹی کے قایم مقام ہونگے۔ ایسے ہی مراکز کے لئے مدھیہ پردیش کی بھاجپا سرکار کا انکار تو سمجھ میں آتا ہے مگرافسوس مہاراشٹر کی سرکار بھی ٹس سے مس نہیں ہوئی، حالانکہ وہاں کانگریس اور این سی پی کی سرکار ہے۔

سید عاصم علی سبزواری کی وفات
ہمارے ایک مربی بزرگ دوست ، میرٹھ کی ممتاز شخصیت ، معروف وکیل، جذبہ ایمانی اورجرأت و حوصلہ کی تصویر جناب سید عاصم علی سبزواری کا گزشتہ جمعرات انتقال ہوگیا۔ تدفین میں کثیر ہجوم شامل ہوا۔ نہایت ثقہ ، دیندارہستی تھے۔ 90سال سے زیادہ عمر پائی۔مطالعہ قرآن اوراس کی روشنی میں علوم فلکیات سے ان کو خاص دلچسپی تھی۔ ان کے صاحبزادگان بھی ان کی ہی مثل معاشرے میں ممتاز ہیں۔اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین

قصہ وزیر کی بھینسوں کا
یوپی کے سینئر وزیر جناب اعظم خاں کہتے تو یہ ہیں کہ وہ ایک غریب آدمی ہیں۔ مگر چند روز قبل خبر یہ آئی کہ خیر سے شہر کے قریب ان کا ایک فارم ہاؤس ہے ،جس میں ان کے پاس اچھی نسل کی بھینسوں کا ایک طویلہ ہے۔ایک رات ان میں سے سات بھیسیں گم ہوگئیں۔ اطلاع ملتے ہی پولیس کے اعلاحکام موقع پر پہنچ گئے۔ کھوجی کتوں کوتلاش پرلگایا گیا اور سارا پولیس انتظامیہ بھینسوں کی تلاش میں لگ گیا۔ رات دن کی تلاش کے بعد بھینسیں مختلف جگہ سے مل گئیں۔کوئی گرفتاری تو نہیں ہوئی البتہ علاقہ کی پولیس چوکی کے انچارج ایک سب انسپکٹر اور دو دیگر پولیس عملے کووزیر صاحب کی بھینسوں کی نگرانی میں کوتاہی کی پاداش میں لائن حاضرکردیاگیا۔ اترپردیش پولیس کی اس مستعدی کا کیا کہنا۔ کاش ایسی ہی مستعدی اس وقت بھی دکھائی جایا کرے جب کوئی غریب اپنے بچے کی گمشدگی کی اطلاع لے کرآئے ، کسی کی عصمت دری ہو جائے یا شاملی اور مظفرنگر جیسا واقعہ پیش آجائے۔(ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.