غوث الوریٰ، انڈس سے ہیڈسن تک،سطوت حرف

کالم نگار نعمان قادر مصطفائی نے اپنے بھائی کے ہاتھوں اپنی ہی لکھی ہوئی ایک کتاب بھیجی۔ کتاب کا نام ہے ’’غوث الوریٰ‘‘ اسی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اسی کتاب میں’’حرف آغاز‘‘ کے عنوان کے تحت پروفیسر ڈاکٹر قمر علی زیدی لکھتے ہیں کہ چھٹی صدی ہجری کے خاموش صوفیانہ انقلاب کو تاریخ اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے ۔ جب احیائے دین کا کام نہایت مربوط قرینے اور اخلاص کے سلیقے سے سرانجام دیا گیا۔ حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ نے اپنی شخصیت کو ایک کامل مقتدا اور راسخ العزم رہنما کے طور پر پیش کیا۔ حضرت سیدنا عبدالقادرجیلانی رضی اﷲ عنہ کی شخصیت ظاہری وباطنی علوم کی جامع تھی۔ اخلاص اوراخلاق کا سرپا تھی۔ اور آپ رضی اﷲ عنہ کا وجوداقدس عالم اسلام کی قیادت کا حقیقی سرمایہ تھا۔ یہ ذات اقدس محض عقیدت وارادت کا روایتی مرجع نہ تھی بلکہ آپ کی تعلیم وتربیت کے نظام کو جو دیرپائی اوراستحکام نصیب تھا وہ آج تک کے دو ر کے لیے ایک کامیاب راہ نجات اورطریقہ فلاح شمار کیا جاتا ہے۔ چھٹی صدی ہجری کا دورتجدید و احیائے دین کا نہایت قابل رشک اورقابل عمل دور ہے۔ برصغیر پاک وہند میں سلسلہ عالیہ قادریہ کی ترویج کا ایک روحانی پہلو تو نمایاں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خاموش دینی تبلیغ اور معاشرتی اصلاح کا پہلو بھی کسی انداز سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک علیحدہ مستقل موضوع ہے۔ وہ اس سے آگے لکھتے ہیں کہ حضرت پیر صاحب کی فرمائش پر نعمان قادر مصطفائی نوشاہی قادری نے حضور سیدنا غوث پاک علیہ الرحمۃ والرضوان کی سیرت مبارکہ پر مقاصد عالیہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک خوبصورت تحقیقی وادبی کتاب ’’ غوث الوریٰ ‘‘ مرتب کی ہے۔ تاکہ دور جدید میں ایک کامل وجود قیادت کا تصور واضح ہوسکے۔ انہوں نے اپنے معاشرتی فنی تجربے کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے باطن کے سوزدروں کو نہایت خلوص سے حسن قرینہ سے اوراق پر منتقل کردیا ہے۔ اسی کتاب میں ’’ حرف اعزاز‘‘ کے عنوان سے مفتی محمد خان قادری لکھتے ہیں کہ چونکہ عقیدہ توحید تمام عقائد اسلامیہ کی بنیاد واساس ہے۔ اسی وجہ سے عقیدہ توحید عقائد کے باب میں سبھی پر فوقیت رکھتاہے۔ اور حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ کے اس قلبی وطبعی میلان نے طبقہ صلحاء واصفیاء اور صوفیاء و اولیاء میں فوقیت کا حامل مقام آپ کو عطا ہونے کا باعث بنا۔ عزیز گرامی نعمان قادر مصطفائی نے بہت اچھا کیا کہ حضرت مخدوم اہل سنت میاں عبدالخالق قادری سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ بھرجونڈی شریف کے ارشاد کی تعمیل میں سرکار بغداد سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کے حوالے سے کتاب ’’غوث الوریٰ‘‘ مرتب کی۔ کالم نگار پروفیسرڈاکٹر اجمل نیازی حرف تحسین کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ نوجوان سکالر ، دانشور، صحافی اورکالم نگار جناب نعمان قادر مصطفائی نے ’’غوث الوریٰ‘‘ کی شکل میں سیرت غوث الاعظم رضی اﷲ عنہ کا ذخیرہ جمع کردیا ہے۔ گویا کہا جاسکتاہے کہ یہ ایک ساغر ہے جس میں عشق غوث الاعظم رضی اﷲ عنہ کی شراب بھری ہوئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اولیاء اﷲ سے نسبت ہی کا فیض ہے کہ اورآج جس کا نتیجہ ’’ غوث الوریٰ‘‘ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ ’’ حرف محبوب ‘‘ میں ملک محبوب الرسول قادری لکھتے ہیں کہ نعمان قادر مصطفائی نمائندہ قلمکار مخلص شعوری، دیرینہ، بے لوث، فلاحی، رفاعی دینی کارکن ہیں۔ بچپن سے لڑکپن اورپھر جوانی تک مشنری جذبے سے سرشاری کے ساتھ ساری عمر گزاری ۔ اخلاص کی دولت سے مالا مال ہیں جہاں بھی خیر ، نیکی، فلاح یا دین کی خدمت کا کوئی موقع دیکھتے ہیں بلا تامل اورغیر مشروط بنیادوں پردست تعاون بڑھا دیتے ہیں۔ لیہ سے لاہور ہی نہیں ان کی قلمی وسماجی خدمات کا اعتراف وادی ء مہران ، خطہ ء بولان، وادی ء خیبر اورآزادکشمیر کی سرحدوں کے دوسرے پار بھی کھلے بندوں موجود ہے۔ علم سے سیاح ہیں اورقلم وقرطاس کے ساتھ ان کا رشتہ مضبوط ہے ایسے دوست اپنے سارے حلقے کے لیے سرمایہ ء افتخار اورباعث عزت ووقار ہوتے ہیں۔ اور ہم تو زمانہ ء قدیم سے ان کی خوبیوں کے معترف ہیں۔ میاں محمد سعید شاد ’’ حرف شاد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ امر مسلمہ ہے کہ ہر کوئی صحافی ہوسکتاہے اورنہ ہی کالم نگار۔ اسی طرح تصنیف وتالیف کا ملکہ بھی عطاء الٰہی ہے اس کے بغیر ایسا مشکل اور دقیق کام ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ بات کہہ پانا اور پھر اس بات کو دوسروں کے اذہان میں احسن طریقہ سے اتار سکنا عطاء پر اعطاء الٰہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ جسے چاہے اورجب چاہے اپنی عطاؤں سے نوازدے۔ بندہ کو بہر حال بندہ بن کر رہنا چاہیے۔ اوراپنے خالق ومالک کے حضورہمہ وقت غیر مشروط اطاعت کا نام ہی بندگی ہے کس بات میں خالق ومالک راضی ہے اورکس بات میں ناراض ۔ اس کا پتہ کیسے چلے تو یہ بھی واضح کردیا گیا ہے۔ جس نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کی دعویٰ محبت الٰہی کی دلیل بھی اتباع رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کو قراردیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نوجوان سکالر دانشورجناب نعمان قادرمصطفائی ایک صالح اورباکردارنوجوان ہیں۔ جو دین اسلام سے والہانہ محبت رکھتے ہیں۔ صحافت اورکالم نگاری میں بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ آپ کے الفاظ کا چناؤ اپنی مثال آپ ہے۔ ’’حدیث دل ‘‘ کے عنوان سے صاحب کتاب لکھتے ہیں کہ تاریخ کے صفحات کا ورق بہ ورق زیرک مطالعہ کیا جائے تو شعراء ، ادباء اورحکماء کی ایک کثیر تعدادہمیں سلاطین کے ایوانوں کا طواف کرتی نظرآتی ہے۔ ان دنیا پرست، زرپرست، جاہ وحشم پرست اورمطلب پرست ادباء ، حکماء کا نصب العین ہی مسند وکرسی، رقبہ جات و تمغہ جات، اورنوازشات وانعامات کا حصول رہا ہے۔ لیکن اس کے برعکس ایسے صوفیاء اورعلماء کرام جو تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہوتے تھے۔ ان کی نظر میں شاہی محلات کے اونچے اونچے برج سوکھے گھاس کے خشک تنے سے بھی بے مایہ وبے وقت ہوا کرتے تھے۔ بڑے بڑے آمر وجابر حکمران اپنے پورے کروفرکے ساتھ فوج ظفر موج کے جلو میں ان کے دربار میں حاضری دیا کرتے توبازارمصطفی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم میں بکنے والے درویش صفت انسان ایک نظراٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھتے۔ وہ اس سے آگے لکھتے ہیں کہ تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کی جائے تو یہ راز منکشف ہوتاہے کہ بے شمار حادثات اورتغیر وتبدل کے باوجود اسلام روزبروزپھیلتاجارہا ہے۔ اسلام کے پھیلاؤ کو ایک خول میں بندکرنے کے لیے یورپ اپنے تمام تر ذرائع اورجدید ٹیکنالوجی استعمال کر چکا ہے۔ اورروزبروزنئے نئے اسلام دشمن بھیانک منصوبے گھڑنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے مگر ’’ وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خداکرے‘‘ آج اقوام متحدہ ، جی ایٹ، امریکہ اوریورپ کے بڑے بڑے سورما سرجوڑکر بیٹھے ہوئے ہیں کہ اسلام کی اس بڑھتی ہوئی شدت اورروشن کی گئی شمع کو کیسے گل کیا جائے ۔ اس بڑھتے ہوئے طوفان کے سامنے کیسے بند باندھا جائے۔ یورپ اپنی ساری میکنائز مشینری استعمال کرنے کے باوجود ٹوٹی چٹائیوں پر بیٹھ کر نئی نسل کے دل ودماغ میں قرآن کا نوراتارنے والے دیوانوں کو زیر نہ کرسکا۔ یہی وہ دیوانے ہیں جو شہروں ، ویرانوں، قصبوں، دیہاتوں، گوٹھوں کی تمیز کیے بغیر دین اسلام کی قندیلیں قریہ قریہ، بستی، بستی، روشن کررہے ہیں۔ ظلمت، نفرت، بارود کے دھوئیں اوربند ہوتے ہوئے بازار میں یہ چراغ امت مسلمہ کے لئے ایک شجر سایہ کی حیثیت رکھتے ہیں اورظلمت میں ڈوبی انسانیت کے لیے مشعل راہ کا کام دے رہے ہیں ۔

جمشید ساحل نے ڈاکٹر واحد بخش بھٹی واحدی کی لکھی ہوئی کتاب ’’ انڈس سے ہیڈسن ‘‘ تک پڑھنے کے لیے دی۔ اس میں نیویارک کے قمر علی عباسی ’’اورپھر بیاں اپنا ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ انڈس دریا تبت کی ایک جھیل مانسرورسے نکل کر لداخ میں داخل ہوتاہے اورپھر پاکستان چلاجاتاہے۔ یہ 1976 میل کاسفرکرکے بحرہند سے جاملتا ہے۔ اس دریا نے انسانی تاریخ اورجغرافیہ بنایا ہے ۔ اسے شیر دریا بھی کہتے ہیں اوریہ دریائے سندھ کہلاتاہے۔ اس کے کنارے کتنی ہی بستیاں شہر آبادہیں ۔ان میں ایک شہر ہے لیہ ۔یہ صاحب علم ودانش ، صاحب فراست کا شہر ہے۔ جہاں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کیمپس اوربہت سے کالجزہیں جن میں طالب علم اپنے علم کی پیاس بجھاتے ہیں ۔ اسی شہر میں ایک جوشیلانوجوان 1935ء میں پیداہوا۔ جوہر ظلم وزیادتی اورناانصافی کے خلاف آوازاٹھاتارہا۔ جب وہ اعلیٰ سرکاری ملازم ہوا تو ابھی اس کے مزاج میں دھیما پن نہیں آیا۔ قمر علی عباسی کوکس نے بتایا کہ اعلیٰ سرکاری ملازم ہونے سے مزاج میں دھیما پن آجاتاہے۔ یہاں تو اس کے الٹ دیکھا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پھروہ مزدوروں کا راہنما بن گیا۔ اس نوجوان کا نام تھا ڈاکٹر واحد بخش بھٹی پھریہ ہواکہ انڈس دریا کے کنارے سے چل کر یہ نوجوان نیویارک سٹیٹ میں ہڈسن دریا کے کنارے آگیا۔ وہ اس سے آگے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر واحدبخش بھٹی نیویارک میں مزدوروں کے راہنما تونہیں لیکن جو شعلہ ان کے دل میں انڈس دریا کے کنارے تپش دے رہا تھا وہی ہڈسن دریا کے کنارے بھی موجودہے۔ نیویارک میں وہ ایک نہیں دوکالم لکھتے ہیں اوران دونوں میں وہ اپنے دل کی بات کہتے ہیں اورکچھ اس اندازسے کہتے ہیں کہ بہت کم لوگوں کو ہضم ہوتی ہے۔ ڈاکٹرواحدبخش بھٹی کاکالم ضرب واحدی واقعی ایسی شدید ضرب ہوتی ہے جو ایوانوں میں شورمچادیتی ہے۔ یہ حق اورسچ کی صدادیر تک گونجتی رہتی ہے۔ ان کا دوسراکالم بابے دی بیٹھک ہے۔ جس میں وہ ایسے مسائل پربات کرتے ہیں جوروزمرہ زندگی میں پیش آتے ہیں۔ ان کالمز میں وہ ایسی معلومات تحریرکرتے ہیں جوعام قاری کے لیے دلچسپ اوراہم ہوتی ہیں۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ بعض کالم اہم تقریبات، میلوں اوریادگاردنوں کے بارے میں لکھتے ہیں دراصل بابے دی بیٹھک ایک چوپال کی طرح کا حجرہ ہے جہاں مسائل ، وسائل اورحالات حاضرہ پر بے لاگ تبصرہ ہوتاہے۔ ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں یہ کالم ای میل سے ملتے ہیں اوریہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ جو کبھی سینکڑوں لوگوں کو بھیجے جاتے تھے اب ان کی تعدادہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔ اوراس میں روزبروزاضافہ ہوتاجارہا ہے۔ ہمارے خیال میں دنیا بھر میں انٹرنیٹ پربھیجے جانے والے پہلے کالم ہیں جو اتنے لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ نیویارک سے ہی پروفیسر حمادخان میرانی اسی کتاب میں شمالی امریکہ کا بابائے سرائیکی کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ بھٹی صاحب شمالی امریکہ میں بلاشبہ بابائے سرائیکی ہیں۔ نیویارک میں تقریباً اٹھائیس سال گزارنے کے بعد آج بھی وہ سرائیکی کلچرکے چلتے پھرتے سفیر ہیں۔ ان کا رہن سہن درویشانہ، مزاج فقیرانہ(جن کا مزاج فقیرانہ ہوتاہے وہ کسی کو دیکھ کر اس کے طبقہ پر تنقید نہیں کیا کرتے) فطرت رندانہ طبیعت یارانہ، ساری زندگی کے تجربات اورکامل لوگوں کی صحبت نے ان کی سوچ کو حکیمانہ بنادیا ہے۔ بھٹی صاحب ایسے درویش منش روایتی بزرگ ہیں کہ سب کے لیے ان کی محبت اورشفقت بے عمیق اوریکساں ہے۔ سچ ہی سچ کے عنوان سے میانوالی کے محمد محموداحمد لکھتے ہیں کہ باباپاکستان میں ہو بھارت میں ہو میانوالی، سرگودھا، ملتان، لیہ میں ہوکہ نیویارک میں بابالفظ کے ساتھ ایک شفقت ایک اپنائیت کا احساس پیدا ہوتاہے۔ بابانرم مزاج مہربان ایک مخلص رہنما ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس بابے نے دھوپ میں بال سفید نہیں کیے۔ جب سوچا وتو پوری قوت اورصحت کے ساتھ سوچا۔ اس بابے نے جب لکھا تو پوری سچائی اوربے باکی سے لکھا ۔ بیٹھک کو قائم ودائم رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ بیٹھک میں کوئی بھی واقعہ رونما ہوسکتاہے۔ بیٹھک میں کوئی بھی سوال پوچھاجاسکتاہے بیٹھک بچے نہیں چلاسکتے بیٹھک بابے ہی سنبھالتے ہیں۔ پیارے دوستو آپ کو اکثرجگہوں پر بابے کا لہجہ بہت تلخ محسوس ہوگا ۔ اس تلخی کو شہد سمجھے گا ۔ یاد رکھئے گامحنتی ، جفاکش، سچا انصاف پسند، خاندانی آدمی باضمیر انسان اپنی کماکر کھانے والا سخت مزاج نظرآئے تو اس کی یہ ادا پسند کی جانی چاہیے۔ ملتان کے جاوید اختربھٹی اپنے اعجازہنر میں لکھتے ہیں کہ جناب واحد بخش بھٹی لیہ میں پیدا ہوئے ریلوے میں ملازمت کے دوران کافی عرصہ تک ملتان ڈویژن کے ریلوے ملازمین کے ڈویژنل صدررہنے کے بعد دوسال مرکزی صدربھی رہے۔ جب کہ جنیوامیں بھی مزدوروں کی نمائندگی کی۔ اس کے بعد فلپائن سے صحافتی ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں صحافی بھی رہے۔ اوراب طویل عرصہ سے نیویارک میں ہیں۔ جہاں آج کل روزنامہ راوی انٹرنیشنل کے چیف ایڈیٹراورساؤتھ ایشین جرنلسٹس یونین آف نارتھ امریکہ کے صدرہیں۔ لیکن ان کا دل آج بھی پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ انہوں نے آج کے سماج کا کوئی موضوع نظراندازنہیں کیا۔ ملتان کے ظہوراحمددھریجہ لکھتے ہیں کہ بابے دی بیٹھک کے زیر مطالعہ کالموں میں موضوعات کا ایک جہان بکھراپڑاہے۔ ان میں سیاسی باتیں بھی شامل ہیں۔ یہ بیٹھک تو امریکہ میں ہے لیکن وہاں سے پاکستان سے متعلق ایسی خبریں بھی سننے کو مل جاتی ہیں جن سے ہم پاکستان میں ن رہ کر بھی بے خبررہتے ہیں۔ صاحب کتاب ڈاکٹرواحدبخش بھٹی عرض حال میں لکھتے ہیں کہ میں جدید سائنسی علوم سے منحرف نہیں ہوں ۔بلکہ ہر نئی ایجادکو کشادہ نظری سے دیکھتاہوں۔ اوراس کے افادی پہلوؤں کوپیش نظررکھتا ہوں مگر میں یہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ سائنس ہر مرض کی دواہے تو ہر مرض کی وجہ بھی ہے۔ سائنس ہمیں خدااوررسول صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے دوربھی کررہی ہے۔ خداکو ہم اس وقت یادکرتے ہیں جب ڈاکٹرلاعلاج قراردے دیتے ہیں۔ یوں سائنس ہمیں منافق بنارہی ہے۔ اوریہ منافقت روزبروزبڑھتی جارہی ہے۔ سائنس اورٹیکنالوجی کے اس جدید دورمیں خون سفیدہوتے دیکھے ہیں۔ پرانی روایات کا گلہ گھٹتے دیکھا ہے۔ انسانیت کو ایک دفعہ پھر وحشت ہوتے دیکھا ہے۔ جوں جوں علم بڑھتاجارہا ہے توں توں خودغرضی بڑھتی جارہی ہے۔ انفرادیت آج اجتماعیت کو ہڑپ کررہی ہے۔ ہرکوئی اپنی سوچ کا محور اپنی ذات تک محدودکیے ہوئے ہے۔ لیہ میں ایک تقریب سے ڈاکٹرواحد بخش بھٹی خطاب کررہے تھے۔ ہم جوں ہی پنڈال میں داخل ہوئے تو وہ ہمیں دیکھ کر مولویوں پر طنز کرنے لگ گئے۔ تقریب ختم ہوئی تو باہر آکر معذرت بھی کرنے لگ گئے۔ہمیں ان کے مولویوں کے بارے میں خیالات سے یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ انہوں نے اپنی پیدائش کے بعد اذان سن کر شورمچانا شرو ع کردیاتھا کہ یہ مولوی کہاں سے آگیا۔

جسارت خیالی نے اپنی لکھی ہوئی شعری مجموعے کی کتاب ’’سطوت حرف‘‘ اپنے ہاتھوں ہمارے حوالے کی ۔ اورساتھ ہی تبصرہ لکھنے کا حکم بھی دیا۔ انہوں نے اپنی اس کتاب کا انتساب دنیا کے ان اہل قلم کے نام کیا ہے جنہوں نے سچ کا علم بلند رکھا ہواہے۔ ان میں وہ تو شامل نہیں ہوں گے نا جو دوسروں کی تعریف میں لکھتے رہتے ہیں۔ اسی کتاب میں مضافاتی ادب․․․․․․․․تازہ ہواکا جھونکا کے عنوان سے کراچی کے ڈاکٹراخترہاشمی لکھتے ہیں کہ ندرت خیال اورتازہ کاری ہمیں لیہ کے معروف شاعر جناب جسارت خیالی کے ہاں نظرآتی ہے۔ ان کے شعروں میں زمانے کا دکھ بھی ہے۔ سماج کا کرب بھی، اپنوں سے بچھڑنے کا نوحہ بھی ہے۔ اوربزرگوں کے جداہونے کا ملال بھی۔ وہ دوستوں کے دغادینے کاالمیہ بھی بیان کرتے ہیں اوردشمنوں کے جان لیواوارکرنے کی واردات بھی ان کے کلام کا حصہ ہوتی ہے۔ بہت اشعارایسے ہیں جن وگل وبلبل کے تذکرے ہیں۔ جن میں لب ورخسارکا ذکرہے۔اسی بات نے جناب جسارت خیالی کی شاعری کو عصرموجودسے ہم آہنگ کردیا ہے۔ وہ اس سے آگے لکھتے ہیں کہ جسارت خیالی کے پورے کلام میں جذبات کی شدت بھی ہے اوررشتوں کی نازکیاں بھی۔ وہ انسان کے جذبات سے بھی آگاہی رکھتے ہیں اورانسان کی نفسیات سے بھی آشناہیں۔ وہ انسانی کرداروں سے روشناس بھی ہے اورزندگی کے بدلتے ہوئے رویوں کا علم بھی رکھتا ہے۔ سطوت حرف․․․․․․․جسارت خیالی عنوان سے جاویدرسول کوجوہر اشرفی لکھتے ہیں کہ جسارت خیالی کا شمارہماری نسل کے ہمہ جہت تخلیق کاروں میں ہوتاہے۔ آپ کی شاعری میں عصری آشوب پوری قوت کے ساتھ جلوہ گرنظرآتاہے جس سے ہماراملک آج کل دوچارہے۔ جسارت خیالی ایک سچے اورکھرے شاعرہیں جواپنے باطن کی آوازکوظاہر شکل دے کر شعرموضوع کرنے کے ہنرسے واقف ہیں۔ آپ کے زیادہ ترموضوعات سیاست، سماجیات، معاشی اورمعاشرتی ہیں۔ حاکم وقت ہو یا صاحب ثروت، فقیہہ شہر ہویاامیر شہر، جسارت خیالی نے ان کے چہروں کے پیچھے چھپے چہروں کوبارہا بے نقاب کیا ہے۔ وہ ہلکے پھلکے لفظوں سے گہری چوٹ لگانے کا ہنر خوب اچھی طرح جانتاہے۔ حق گوئی اوربے باکی ان کی فطرت کا خاصاہے۔ آیئے آخر میں ان کے چند اشعارملاحظہ کریں
بچالے میرے آقانہیں ہے ناخدا تجھ سا
گھر بحرغموں میں آدمیت کاسفینہ ہے۔

یہ حملے خودکشی کے کراکے شہر میں میرے
جنونی دین والوں نے عجب راستہ نکالاہے

نہ آٹاہے نہ چینی ہے نہ ملتاگھی ادھاراہے
غریب شہر نے ہرپل اذیت میں گزاراہے۔

سچ کو کیسے بھلا رواج دیتا
شہر کاشہر بے زباں ٹھہرا

تینوں کتابیں اپنے اپنے موضوعات کے لحاظ سے قابل تحسین ہیں۔ ان کے لکھنے والوں کی قلمی محنت کی تعریف نہ کرنا نا انصافی ہوگی۔ کتابیں تو ہماری بھی مارکیٹ میں آسکتی ہیں۔ مالی مسائل آڑے آئے ہوئے ہیں۔ کوئی صحافتی ، ادبی، سیاسی ، سماجی تنظیم یا شخصیت یا کوئی پبلشرہماری کتابیں یا کتاب اپنے ہی اخراجات پر شائع کرنا چاہے تو ہم اسے اپنی تحریریں اورشاعری دینے کو ہر وقت تیار ہیں۔ وہ ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ہمیں ای میل بھی کرسکتے ہیں۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351655 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.