اللہ کے قانون کے مطابق چوری ثابت ہو چکی ہے اور شرعی حد نافذ ہو چکی ہے۔
قبیلہ بنو مخزوم کی ایک خاتون نے چوری کی ہے۔ اب اسکا ہاتھ کاٹ دیا جائے
گا۔
قبائل نظام میں یہ بڑی شرم کی بات ہے‘ قبیلہ بنو مخزوم کے سر کردہ افراد
کسی کو منھ دکھلانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
اور یہ سونچ سونچ کر قبیلہ کا ایک ایک فرد پریشان ہے۔
باہمی مشورے ہو رہے ہیں کہ کسی طرح یہ سزا ٹل جاےٴ۔ اور بنو مخزوم کی عزت
خاک میں ملنے سے بچ جائے ۔
لیکن لیکن منصب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ حد اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ و سلم نے قائم کی ہے
کون بات کرے ‘ کس میں اتنی جرائت ہے ‘ کون ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا
پیارا جوسفارش کرنے کی جسارت کرے ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی پیارے کو ڈھونڈھا جا رہا ہے اور
بالآخر انہوں نے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کے سب سے محبوب کو
ڈھونڈ ہی لیا۔
یہ ہیں سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ.
جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ہی تو فرمایا ہے:
’’ اے میرے صحابہ ! اسامہ مجھے تم سب سے زیادہ پیارا ہے‘ اس سے اچھا سلوک
کرنا۔ ‘‘
بنو مخزوم حضرت اسامہؓ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پیار کا واسطہ
دیکر راضی کر لیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سےسفارش کریں تاکہ ’’ انکے
قبیلے کی عورت‘ جس پہ چوری کی حد نافذ ہے اسکی ہاتھ نہ کاٹی جائے۔ “
رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم آپؓ سے ہم سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں ممکن
ہے آپؓ کی سفارش مان لیں اور حد نافذ کرنے کا حکم صادر نہ کریں اور ہمارے
قبیلے کی عزت برقرار رہے‘ ورنہ ہم لوگوں کو منھ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔
حضرت اسامہؓ بنو مخزوم کی لجاجت‘ پشیمانی و پریشانی کو ملحوظ خاطر رکھتے
ہوےٴ شاہ امم سلطانہ مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو
کر مخزومیہ عورت کے حق میں سفارش پیش کر دی۔
لیکن اسامہؓ کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس بات کی جسارت کرنے جا رہے
ہیں یہ اللہ کی حدود میں صریحاــٌ مداخلت کی جسارت تھی -
شفارش سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی
اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
’’ تم مجھ سے اللہ کی قائم کی ہوئی ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے
ہو۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو غضبناک دیکھ کر اسامہؓ کو اپنی غلطی کا
احساس ہوا تو انہو نے عرض کیا:
’’ یا رسول اللہ ! میرے لئے دعائے مغفرت کیجئے -‘‘
پھر دوپہر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو
خطاب کیا ‘ اللہ تعالیٰ کی اس کے شان کے مطابق تعریف کرنے کے بعد فرمایا :
اما بعد ! تم میں سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں سے کویٴ
معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کویٴ کمزور چوری کرتا تو اس
پر حد قائم کرتے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ و
سلم کی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرلے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں
گا۔
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کے لئے حکم دیا اور ان
کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
پھر اس عورت نے صدق دل سے توبہ کرلی اور شادی بھی کر لی ۔ (صحیح البخاری و
مسلم )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بعد میں وہ میرے پاس آتی تھیں۔ ان
کو اور کویٴ ضرورت ہوتی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش
کر دیتی۔ (صحیح البخاری و مسلم )
اب اس حدود اللہ کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان بھی سن لیں:
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۢ
بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ
(سورة المائدة: آیت نمبر۳۸)
اور چور، خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ ان کے کر توتوں کے عوض
میں اللہ کی طرف سے بطور عبرتناک سزا کے ۔ اللہ زبردست ہے، بڑا حکمت والا
ہے۔
چوری اتنا بڑا جرم ہے اور ایک ایسی معاشرتی برایٴ ہے کہ اللہ سبحانہ و
تعالیٰ نے اسکی سزا میں ’’ ہاتھ کاٹنا ‘‘ مقرر کی ہے اور اس سزا کو ’’
نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے "عبرت ناک سزا " کہا
گیا ہے۔ یعنی چوری کرنے والے شخص کو معاشرے میں عبرت کا نمونہ بنا کر چھوڑ
دیا جائے تاکہ کویٴ اور چوری کرنے کی جراٴت نہ کر سکے۔
لیکن اب ہمارے معاشرے کو اس سے بڑی بڑی اور ایسی ایسی سنگین جرائم نے گھیر
لیا ہے کہ اب چوری ایک عام بات ہو گیٴ ہے اور ملک عزیز میں زیادہ تر لوگ‘
کیا عام ہو یا خاص، چوری کرنے کے گھناوٴنے جرم میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے
ہیں۔
کویٴ بجلی چور ہے تو کویٴ گیس چور اور کویٴ پانی چور-
کویٴ ٹیکس چوری کرتا ہے تو کویٴ اکاوٴنٹ میں خرد برد کرتا ہے-
کویٴ مال و دولت کا چور ہے تو کویٴ عزت و آبرو کا چور-
کویٴ بنک میں ڈاکہ ڈالتا ہے تو کویٴ دوکان و مکان کا صفایا کرتا ہے-
کویٴ موبائل و پرس چھینتا ہے تو کویٴ کار چوری کرتا ہے-
کویٴ ریوالور دکھا کر چھینتا ہے تو کویٴ اپنے عہدے کا دھونس جما کر-
کویٴ کمپیوٹر سافٹ ویر چراتا ہے تو کویٴ کمپیوٹر سے لوگوں کی شناخت کی چوری
کرتا ہے۔
کویٴ آفس اسٹیشنری چراتا ہے تو کویٴ آفس دیر سے آکر وقت کی چوری کرتا ہے-
کویٴ بازار میں لوٹتا ہے تو کویٴ محلے کے نکڑ اور گھر کی دہلیز پر-
کویٴ سرکاری اداروں میں رہ کر چوری کرتا ہے تو کویٴ پرائیویٹ اداروں میں رہ
کر-
کویٴ دفتروں و بازاروں میں چوری کرتا ہے تو کویٴ کارخانوں و کھَلْیانوں میں
-
کویٴ تھا نہ میں چوری کرتا ہے تو کویٴ کوٹ کچہری میں-
کویٴ غریب کا بچہ چرا کر بیچ ڈالتا ہے تو کویٴ امیر کا بچہ چرا کر تاوان
مانگتا ہے-
یہاں غریب اپنے بچے کو روٹی کپڑا دینے کے لئے چراتا ہے تو امیر اپنے بچے کو
ٹھاٹ باٹ کرانے کے لئے-
کویٴ غربت مٹانے کے لئے چوری کرتا ہے تو کویٴ امارت بڑھانے کے لئے-
یہاں چور بھی چور ہیں اور محافظ و پہرے دار بھی چور-
یہاں کے منصب بھی چور ہیں اور حکمراں بھی-
یہاں غریب بھی چور ہیں اور امیر بھی-
یہاں جو جتنا بڑا ہے اُتنا بڑا چور ہے-
۔۔۔۔ لیکن تمام تر چوری کرنے کے باوجود بھی ۔۔۔۔ سب مسلمان ہیں ۔۔۔۔ سب
مومن ہیں ۔۔۔
جی ہاں ۔۔۔ سب مسلمان ہیں ۔۔۔۔ سب مومن ہیں ۔۔۔
لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے تو کچھ اور ہی نے فرمایا ہے ۔ آپ
صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" چور جب چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*** یعنی چوری کرنے کے عمل کے دوران ’’ مومن ‘‘ نہیں رہتا۔ ***
(صحیح بخاری : حدیث نمبر 5578 ، 2475)
اب اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں وطنِ عزیز میں عام و خاص جو اُوپر بیان کئے
گئے چوری کے گھناوٴنے جرم میں ملوث ہیں ‘ آج خود ہی اپنا محاسبہ کرلیں اور
دیکھیں کہ وہ کتنے وقت کے لئے ’’ مومن ‘‘ ہیں اور کتنے وقت کے لئے ’’ مومن
‘‘ نہیں ہیں:
گیس‘ بجلی اور پانی کی چوری ۔۔ چوبیس (24) گھنٹے کی چوری ہے۔ لہذا جو لوگ
ان میں یا ان جیسی دوسری چوبیس (24) گھنٹے کی چوریوں میں ملوث ہیں‘ وہ
مذکورہ حدیث کے مطابق ۔۔۔ چوبیس (24) گھنٹے " مومن " نہیں ہوتے۔
لہذا
(24) گھنٹے چوری کرنے کی عمل سے گزرنے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کے بجلی سے (24) گھنٹے آرام دہ زندگی گزارنے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی تھنڈی تھنڈی پانی (24) گھنٹے استعمال کرنے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن
ہیں؟
چوری کی گیس سے (24) گھنٹے مزے مزے کی کھانے پکا کر کھانے والے ۔۔۔۔۔ کیا
مومن ہیں؟
چوری کی دولت سے غربت مٹانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی دولت سے امارت بڑھانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
چوری کی دولت سے اپنے بچوں کو ٹھاٹ باٹ کرانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے مطابق تو ایسے لوگ " مومن "
نہیں رہتے کیوں کہ یہ ہر وقت ’’ چوری ‘‘ کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اور ان پر ہر
وقت اللہ کی ’’ لعنت ‘‘ پڑ رہی ہے کیوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے چور پر
’’ لعنت ‘‘ بھیجی ہے ۔ ( صحیح البخاری، الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم،
ح: 6783)
لعنت کا مطلب ہے اللہ کی رحمت سے دوری اور جسے اللہ اپنی رحمت سے دور کر دے
اس کا ٹھکانا کہاں ہو سکتا ہے۔ تو اللہ کے بندوں! اگرچہ چوری کرنے پہ آج
چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا لیکن اللہ کی لعنت تو ہر آن برس رہی ہے۔
اللہ کی رحمت سے دوری کی وجہ کر آج ایسے گھر وں میں بے سکونی ہی بے سکونی
ہے‘ دنیا کی مال اسباب اور ہر آشائش ہونے کے باوجود بے سکونی ہے۔
سکون تو اللہ کی رحمتوں سے ملتی ہے-
جس کے لئے ہر طرح کی چوری کرنا چھوڑنا ہوگا اور چوبیس گھنٹے مومن بنے رہنا
ہوگاں اور لعنت کی بجائے ہر وقت اللہ کی رحمتوں میں میں رہنا ہوگا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اپنی رحمتوں میں رکھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ
و سلم کی سنتوں کو اپنانے والا بنائے۔ ہر برایٴ سے دور اور ہر بھلایٴ سے
نزدیک کر دے۔
آمین یا رب العالمین
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا
صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ
حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا
بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ
حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
|