مکار حسینہ

قاتل حسینہ ، چالاک حسینہ، مکار حسینہ،
جی ہاں، ایک زمانہ تھا جب انگریزی فلموں کے نام نوجوانوں کو گمراہ یا متوجہ کرنے کے لیے اس طرح کے ترجمے کر کے بڑے بڑے سائن بورڈوں پر لکھ کر چوراہوں پرنیم عریاں تصویروں کے ساتھ لٹکائے نظر آتے تھے۔

آج کے دور میں جو کچھ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کر رہی وہ ان ناموں کو حقیقت کا رنگ بھر کے دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے، مثال کے طور پر کچھ جھلکیاں پیش خدمت ہیں۔

چھ مئی کو ڈھاکہ میں حفاظت اسلام کی ایک بہت بڑی ریلی ہوئی جس کا مقصد اُن بلاگروں کے اسلام کے خلاف لکھے گئے توہین آمیز بلاگز کو روکنے کے لیے حکومت پر زور دینا تھا جو ایک ٹولہ حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ ڈھاکہ کی ایک مصروف جگہ شاہ باغ میں رات دن گانے بجاے کے ساتھ ڈیرہ جما کر جنگی جرائم میں پکڑے گئے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلٹ پارٹی کے لوگوں کو پھانسی کی سزا دینے کا مطالبہ کر رہا تھا، در اصل وہ لوگ حکومت ہی کی طرف سے کھڑے کیے گئے تھے جن کو کھانا اور دیگر سہولیات حکومت کی طرف سے مل رہی تھیں ، انہیں میں کچھ شیطان اسلام کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے جب حد سے نکل گئے تو حفاظت اسلام کے نام سے کچھ مدرسوں کے طالب علم اور علماء احتجاج کرنے ڈھاکہ میں جمع ہوئے۔پہلے تو ان کو ریلی کی اجازت نہیں ملی پھر کچھ دن بعد اُن کی تباہی کے انتظامات مکمل کر کے اجازت دے دی گئی۔

لاکھوں کی تعداد میں اسلام کے شیدائی ڈھاکہ پہنچے ،جن کا مطالبہ تھا کہ حکومت یہ تماشہ بند کروائے جہاں عورتیں مرد مل کر رات دن گانے بجانے کے ساتھ اسلامی اقدار کی پامالی میں مصروف ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے ڈھاکہ کے مشہور شاپلہ چوک موتی جھیل میں دھرنا دینے کا بھی فیصلہ، کیا کہ جب تک یہ تماشہ بند نہیں ہوتا ہم لوگ یہاں سے نہیں ہٹیں گے۔

اس فیصلے پر عمل کرنے کے لیے وہ لوگ لوٹے اور مصلے اپنے ساتھ لے کر آئے تھے، بس پھر کیا تھا ۔ حکومت تو یہ چاہتی ہی تھی کہ مدرسوں اور علمائے دین کو بدنام کرنے کے لیے ایک اور ڈرامہ رچا کر دنیا کو دکھائے تا لوگ دینی مدرسوں سے متنفر ہو جائیں لہذا پہلے تو اپنے آدمیوں کو اُن میں شامل کر کے بیت المکرم مسجد کے سامنے لگی فٹ پاتھ پر قران کریم کی دوکانوں کو آگ لگوائی گئی جس کی ٹی وی پر خوب تشہیر کروائی گئی اسکے بعد جب رات کے دو اڑھائی بجے کچھ لوگ عبادت میں مشغول تھے کچھ سو رہے تھے تو اچانک اُن پر شب خون مارا گیا اور وہ بھی بلیک آوٹ کر کے ۔

صبح ہوئی تو جو مدرسوں کے طا لب علم خوف زدہ ہو کر چھپے ہوئے تھے اُن کو واپسی کا راستہ دکھایا گیا۔ اس قتل عام کی خبر جب ایک اخبار( امار دیش) نے فوٹو اور تعداد لکھ کر چھاپ دی تو اُس اخبار کے مالک کو گرفتار کر کے اخبار کو کو بند کروا دیا گیا۔

نوجوان نسل کو دینی تعلیم کی بجائے وہی پرانا جھوٹاسبق پڑھایا جا رہا ہے کہ پاکستانی فوج نے تیس لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا اور دو لاکھ عورتوں کو برباد کیا، جس کے نتیجے میں نئی نسل پاکستان سے اتنی نفرت کرنے لگی ہے کہ بلاگ لکھتے ہوئے پاکستان کی بجائے فکستان لکھتے ہیں ، نفرت کی اس دیوار کو ہر سال مضبوط کرنے کے لیئے ،فروری کے اوائل میں کتاب میلہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں اکہتر کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر لکھنے والے مُصنف کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔

حال ہی میں ہندوستان سے ملحقہ ایک شمالی علاقے میں ھکومت کے خلاف جب شورش زور پکڑ گئی تو انڈین آرمی کے ساتھ مل کر وہاں آپریشن کیا گیا جس کی خبر ایک بہت مشہور اخبار انقلاب میں شائع ہوئی تو اس کے مالک کو بھی گرفتار کر کے اخبار کو بند کروا دیا گیا۔

دوسری طرف اپنے مخالفوں پر طرح طرح کے جھوٹے مقدمات بنا کر جیلوں میں اس طرح ٹھو نسا گیا ہے کہ بے چاری جیلیں بھی چلا اُٹھیں کہ اب اور جگہ نہیں ہے۔

فوجی ڈیکٹیٹرجنرل ارشاد جس نے بنگلہ دیش پر آٹھ سال حکومت کی تھی،اس پر ایسے ایسے مقدمے کھڑے کر دئیے گئے ہیں کہ اُس بیچارے گگھی بند گئی، اسکی چاپلوسی دیکھ کر اس کی پارٹی کے لوگ ناراض ہو کر علیحدہ ہو گئے۔

ایک سابق وزیر جس کا تعلق خالدہ ضیاء کی پارٹی سے ہے اور جماعت کے سابق امیر جو وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ اسلحے کی سمگلنگ کے ایک کیس میں جو دہ ہزار چار میں قائم ہوا تھا، ان کو بھی بعد میں شامل کروا کر سزائے موت دلوا کر اب اس کی نظریں اور بھی مخالفوں پر جمی ہوئی ہیں۔ کہ جس کے گلے انتقامی پھندہ پورا آئے اسی کو پھانسی لگا دہ اور جس کو پورا نہ آئے اُسے کراس فائر کرکے مار دو تا کہ گلیاں ہو جائیں سونی جن میں انڈین یار پھرے۔

ادھر جب پاکستان میں جماعت اسلامی نے اس ظالمانہ انتقامی کاروائی پر احتجاج کیا تو وہاں بنگلہ دیش میں جماعت کے اوپر اور بھی مظالم تیز ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان سے تعلقات ختم کرنے کے مطالبات بھی ہونے لگے۔

سیاستدانوں سے گذارش ہے کہ ایسی کمینی سیاست سیکھنی ہو تو شیخ حسینہ سے سیکھوجس نے ایک ایسا ٹولہ پال رکھا ہے جو اس کے اشارے پر سڑکوں پر نکل کر وہی راگ الاپتا ہے جو اُسے سکھایا جاتا ہے تا کہ اس کو عوامی مطالبے کا نام دے کر پورا کیا جائے اور حکومت کا دامن بھی داغدار نہ ہو۔

ٓاﷲ کریم بھی ایسے لوگوں کو دیکھتا ہے کہ کہاں تک جاتے ہیں، پھر جب حد سے نکلنے لگتے ہیں تو شیخ مجیب کی طرح خاندان کے خاندان ہی ختم ہو جاتے ہیں۔استغفراﷲ۔

H.A Latif
About the Author: H.A Latif Read More Articles by H.A Latif: 5 Articles with 3747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.