پاکستانی صحافی حامد میر 6فروری کے اپنے کالم قلم کمان
میں’’ کشمیر کے نام پر منافقت‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’’ آپ بے شک
برامنائیں لیکن سچ یہ ہے کہ پانچ فروری کو کشمیر کے نام پر گھروں میں بیٹھ
کر چھٹی مناناصرف اور صرف منافقت ہے۔ چند شہروں میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار
یکجہتی کے لئے کچھ چھوٹے بڑے جلسے جلوسوں کا اہتمام کرکے باقی ذمہ داری
الیکٹرانک میڈیا پر چھوڑ دی گئی کہ وہ یوم کشمیر مناتا رہے اور حکمران طبقہ
گھروں میں بیٹھ کر چھٹی کے مزلے لیتا رہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یوم کشمیر
پر چھٹی منانے کی بجائے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلایا
جاتا اور اس اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے ہر پہلو پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی۔
آج کل مسئلہ کشمیر کا پس منظر سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہمارے ارکان
پارلیمنٹ کو ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ لوگ جو مسئلہ
کشمیر کا’’آؤٹ آف دی باکس‘‘ حل تلاش کرنے کے لئے سیمینارز وغیرہ منعقد کرتے
ہیں اور لچھے دار تقریروں کے ذریعہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی
قراردادوں کو فرسودہ قرار دیتے ہیں وہ سب آئین پاکستان کی دفعہ257 سے نابلد
ہیں۔ دفعہ257 کہتی ہے کہ جب ریاست جموں اور کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ
الحاق کا فیصلہ کرلیں گے تو پھر پاکستان اور ریاست کے مابین تعلقات کا
فیصلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔ کسی کو اچھا لگے یا برا
لگے لیکن جب تک پاکستان کے آئین میں دفعہ257 موجود ہے تو اقوام متحدہ کی
قرار دادوں سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے کسی حل کی کوئی گنجائش موجود نہیں، اگر
کسی کومسئلہ کشمیر کے کسی غیر روایتی حل کی تلاش ہے تو اسے سب سے پہلے
پاکستان کے آئین کی دفعہ257 کو تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ دفعہ257 جن بزرگوں نے
پاکستان کے آئین میں شامل کی ان میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر خان
عبدالولی خان اور مولانا شاہ احمد نورانی سے لے کر مولانا غلام غوث ہزاروی
تک ہر مکتبہ فکر کے نمائندے شامل تھے۔ افسوس صد افسوس کہ جنرل پرویز مشرف
کے دور اقتدار میں آئین کی دفعہ257 کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی
حکومت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے ایک ایسے حل پر خفیہ بات چیت کی گئی جو
کشمیری قیادت کو قبول نہ تھا، جو قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ کے بھی
خلاف تھا لیکن پرویز مشرف نے مسلم لیگ قائداعظم کی مدد سے کشمیر پر خفیہ
سودے بازی کی کوششوں کو جاری رکھا۔‘‘
اس بات سے اتفاق ہے کہ پاکستان میں مسئلہ کشمیر اور کشمیر کاز سے متعلق
کھلی منافقت کا سلسلہ جنرل ایوب سے لیکر اب تک متواتر جاری ہے لیکن کالم
نگار کی دیگر کئی باتوں سے اتفاق درست نہیں ہو سکتا۔حامد میر نے آئین
پاکستان کی دفعہ257کا حوالہ دیتے ہوئے اس دفعہ کے الفاظ میں اپنی طرف سے
یوں اضافہ کیا ہے کہ جس سے اس کا مفہوم ہی بدل جاتا ہے ۔1973ء کے آئین
پاکستان کی دفعہ 257بعنوان ’’ریاست جموں و کشمیر کے متعلق احکام‘‘میں مندرج
ہے کہ ’’ جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ
کریں،تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام
کی خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے‘‘۔جبکہ حامد میر نے اپنے کالم میں دفعہ
257تحریر کرتے ہوئے یہ لکھا کہ ’’ جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان
کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لیں گے‘‘ ،جبکہ دفعہ257میں ’’ کر لیں گے‘‘ کی
جگہ جب فیصلہ کریں‘‘ درج ہے ۔یہ دونوں الفاظ مفہوم کے لحاظ سے متضاد
ہیں۔حامد میر کے مطابق آئین پاکستان کی دفعہ 257کے ہوتے ہوئے اقوام متحدہ
کی قرار دادوں سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے کسی حل کی کوئی گنجائش موجود نہیں
ہے۔اس کے ساتھ ہی وہ ریاست جموں و کشمیر کی پاکستان میں شمولیت کو اس دفعہ
کے حوالے سے واحد آپشن قرار دیتے ہیں۔جبکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں’
پاکستان یا بھارت‘ کے دو آپشن موجود ہیں۔آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے
حوالے سے آئین پاکستان کی دفعہ 258بھی اہم ہے کہ اس کے مطابق’’ دستور کے
تابع،جب تک پارلیمنٹ قانون کے ذریعے بصورت دیگر حکم وضع نہ کرے،صدر فرمان
کے ذریعے پاکستان کے کسی ایسے حصے کے امن و امان اور اچھے نظم و نسق کے لئے
جو کسی صوبے کا حصہ نہ ہو ،حکم صادر کر سکے گا۔‘‘
کالم کے عنوان ’’ کشمیر کے نام پر منافقت‘‘ کے برعکس حامد میر پاکستانی
حکمرانوں کی مسئلہ کشمیر سے متعلق غلط،ناقابل تلافی نقصاندہ پالیسیوں کے
بجائے تقسیم برصغیر کے وقت کی گئی زیادتیوں پر بات کرتے ہیں اور مشورہ دیتے
ہیں کہ اگر ہمارے حکمران جونا گڑھ اور کشمیر کے مسئلے پر قائد اعظم محمد
علی جناح اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے درمیان ہونے والی خط و کتابت اور مسئلہ
کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ایک وائٹ پیپر کی صورت میں شائع
کرکے دنیا بھر کے اہم لوگوں کو بھیج دیں تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کی
منافقت سب کے سامنے آجائے گی۔کالم نگار جنرل ایوب کے دور حکومت سے لیکر اب
تک مسئلہ کشمیر،تحریک آزادی کشمیر سے متعلق حکومت پاکستان کے قول و فعل کے
کھلے تضاد کو نظر انداز کرتے ہیں۔دفعہ257مستقبل کی اس صورتحال کا احاطہ
کرتی ہے کہ اگر ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ
کرتے ہیں تو پاکستان اور ریاست کشمیر کے تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کی
خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے۔اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت ریاست
جموں و کشمیر کے دونوں حصوں کو بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام قرار دیا
گیا ہے اور دونوں ملکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام ریاست کے
علاقوں میں جمہوری اصولوں کے مطابق اچھامقامی نظم و نسق قائم کریں۔برسر
تذکرہ کہ کشمیریوں کی تاریخی قرار داد الحاق پاکستان میں بھی ریاست جموں و
کشمیر کے پاکستان کے ساتھ بطور ایک ریاست خصوصی حیثیت سے الحاق کی بات کی
گئی ہے ،ایک صوبہ بننے کی نہیں۔یوں نظریاتی رجحان کے ساتھ ساتھ کشمیر کا
ریاستی تشخص ایک بنیادی اہمیت کی حامل حقیقت ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر اور
پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں مسئلہ کشمیر کو تحلیل کرنے کے اقدامات کی
روشنی میں کشمیری اس بات کے متمنی ہیں کہ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر میں
’’ سٹیٹس کو‘‘ کی صورتحال تبدیل کی جائے۔
کالم نگار حامد میر نے منیر احمد منیر کی کتاب’’دی گریٹ لیڈر‘‘ میں کے ایچ
خورشید کا حوالہ دیتے ہوئے قائد اعظم کے اس طویل دورہ کشمیر کے حوالے سے
لکھا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم کانفرنس کے رہنما چوہدری غلام
عباس کو مشورہ دیا کہ شیخ عبداﷲ کا مقابلہ کرنے کے لئے کشمیری زبان سیکھو،
اور حامد میر نے یہ بھی لکھا کہ قائد اعظم سرینگر میں مکان خریدنا چاہتے
تھے اور انہوں نے ایک ہاؤس بوٹ بھی پسند کر لی تھی،حامد میر اس سے یہ مطلب
نکالتے ہیں کہ قائد اعظم کو کشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے کا یقین تھا
اسی لئے وہ کشمیر میں جائیداد خریدنا چاہتے تھے۔حامد میر یہ بھی لکھتے ہیں
کہ مئی 1947ء سے لے کر ستمبر 1947ء تک قائد اعظم مختلف لوگوں کے ذریعہ
گھراور ہاؤس بوٹ کی خریداری کے لئے خط و کتابت کرتے رہے۔خیال رہے کہ1947ء
میں مئی سے 14اگست ،تقسیم برصغیر اور قیام پاکستان کے بعد ستمبر تک کی
حساس،ر خطرناک ،کٹھن صورتحال میں کیا قائد اعظم پاکستان کے قیام کی جدوجہد
اور قیام پاکستان کے بعد وسائل سے محروم خوں آلود ملک کی فکر کے بجائے
سرینگر میں مکان اور ہاؤس بوٹ کی خریداری کے لئے خط و کتابت کر رہے تھے،عقل
تسلیم نہیں کرتی کہ قائد اعظم قیام پاکستان سے چار ماہ پہلے کی نازک
صورتحال اور قیام پاکستان کے اگلے ماہ تک سنگین ملکی صورتحال میں سرینگر
میں مکان اور ہاؤس بوٹ خریدنے کے لئے خط و کتابت کر تے ر ہے۔اور یہ بات
قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور کردار سے بے خبری کا اظہار کرتی ہے۔
ممکن ہے کہ قائد اعظم سرینگر میں گھر بنانا چاہتے ہوں لیکن اس بات کو جس
انداز میں بیان کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ جائیداد خریدنے کی کوشش کا مطلب
ہے کہ قائد اعظم کو کشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے کا یقین تھا، اسے قائد
اعظم کی شخصیت و کردار سے لا علمی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ قائد
اعظم کی طرف سے چودھری غلام عباس کو کشمیری زبان سیکھنے کے مشورے کی حقیقت
کی بارے میں شاہ غلام قادر صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق
کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے بزرگوں سے اس بارے میں سنا ہے کہ قائد اعظم نے
چودھری غلام عباس کو کشمیری زبان سیکھنے کا مشورہ دیاتھا،کیونکہ ریاست کی
غالب آبادی کی زبان کشمیری تھی اور ریاست کے پہاڑی علاقوں میں سیاست بہت کم
تھی۔عقل بھی یہ بات تسلیم نہیں کرتی کہ قیام پاکستان سے چند ماہ پہلے اور
فوری بعد قائد اعظم نے اس سلسلے میں کوئی خط وکتابت کی ہو۔
پاکستان کی حکومتوں کی مسئلہ کشمیر ،کشمیر کاز سے متعلق منافقت یہ ہے کہ
عملی طور پر کچھ اور ہو رہا ہوتا ہے اور عوام کو کچھ اور بتا یا جا تا
ہے۔عملی طور پر1960ء میں بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کے ذریعے کشمیر کے
آبی وسائل کی مستقل بندر بانٹ کر تے ہوئے بالواسطہ کشمیر کی تقسیم تسلیم کر
لی جاتی ہے اور عوام کے سامنے مسئلہ کشمیر پر روائیتی موقف پر کار بند رہنے
کا دعوی کیا جاتا ہے۔کشمیر کی سیز فائر لائین کو 1971ء میں بھارت کے ساتھ
شملہ سمجھوتے کے ذریعے لائین آف کنٹرول میں تبدیل کرتے ہوئے ایک ’’ مقدس
گائے‘‘کا درجہ دے دیا جاتا ہے اور عوام کو مسئلہ کشمیر پر قومی موقف برقرار
رکھے جانے کی نوید سنائی جاتی ہے۔عوام میں کشمیر کے لئے جنگ کرنے کی باتیں
کی جاتی ہیں لیکن عملی طور پر بھارت کے ساتھ جنگ کو خارج از امکان قرار
دینے کی کوشش ہوتی ہے۔کشمیر کا حاصل کرنے کی بات کی جاتی ہے لیکن ریاست کے
ایک حصے سیاچن کو بھارت کے قبضے میں دے دیا جاتا ہے۔1988ء سے لیکر جنرل
مشرف کے بھارت کے ساتھ سیز فائر تک بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایسی ’’
پراکسی وار‘‘ لڑی جاتی ہے جس کو نتیجہ خیز بنانے کی کوئی منصوبہ بندی نظر
نہیں آتی۔عوام میں مسئلہ کشمیر کو ا یٹمی فلیش پوائنٹ کہا جاتا ہے لیکن
بھارت کے برعکس کشمیر پر جنگ نہیں چاہتے۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارتی
جنگ کی بات کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر سرکاری غیر ملکی دورے اور سفارت
خانوں کی کارکردگی سیاسی مفادات میں یوں مغلوب دکھائی دیتی ہے کہ ’’ کھانا
پینا ،سیر سپاٹے کشمیر کے نام پر‘‘۔حریت پسند کشمیری تنظیموں کو اتحاد کی
تلقین کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر حریت تنظیموں میں انتشار پھیلانے والے
اقدامات کئے جاتے ہیں۔کشمیریوں سے یکجہتی کا دن سرکاری طور پر منایا جاتا
ہے لیکن عملی طور پر کشمیریوں کو ہی نظر انداز کیا جاتا ہے۔عوام کو کہا
جاتا ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے لئے بھارت سے تین جنگیں لڑی ہیں لیکن حقیقت
میں پاکستان نے کشمیر کے لئے جنگ لڑی ہی کب ہے؟آزاد کشمیر کو دنیا کے سامنے
بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مقابلے میں ایک ماڈل کے طور پر پیش کرنے کی بات
ہوتی ہے،آزاد کشمیر کی آزادی کا دعوی ہوتا ہے لیکن عملی طور پر آزاد کشمیر
کی حکومت،خطے کو بے اختیار و بے توقیر سطح پہ رکھا جاتا ہے۔مسئلہ
کشمیر،کشمیر کاز کے حوالے سے پاکستانی حکومتوں کی منافقت پاکستانی عوام کے
علاوہ کشمیریوں کی سامنے بھی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔
افسوسناک طور پہ پاکستانی میڈیا کشمیر کے حوالے سے تاریخ میں ہی پھنس کر رہ
گیا ہے۔صرف تاریخی حوالوں پر بات کرنے کے بجائے حال کی بات کریں ،مستقبل کی
بات کریں،حکمت عملی کی بات کریں کہ کیا ہے اور کیا ہونی چاہئے،حکمت عملی پر
کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے کہ کہیں ہندوستان ناراض نہ ہو جائے۔پاکستان
کے سیاستدان ہوں یا صحافی ،وہ اصل بات کرنے سے گریزاں رہتے ہیں،یہ نہیں
بتاتے کہ مسئلے کا حل کیا ہے،حال و مستقبل کے بارے میں بات نہیں کی جاتی
اور نا ہی مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کی حکمت عملی پر بات کی جاتی ہے کہ
وزارت خارجہ کے وسیع مفہوم والے بیانات کے برعکس حقیقی طور پاکستانی کی
کشمیر پالیسی کیا ہے اور کیا ہونی چاہئے۔ پاکستان میں منافقت کا لبادہ صرف
کشمیر کاز کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ اکثر ملکی،قومی معاملات میں بھی خود
فریبی پر مبنی منافقت کا یہی انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ |