(یہ کالم کسی پر تنقید کے لئے
نہیں لکھا گیا ۔اور نا ہی کوئی جماعت اپنی طرف کھینچے)
ہمارے ملک کو آزاد ہوئے 62 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور ان 62سالوں
میں کئی حکمران آئے بڑے بڑے برج الٹتے اس ملک نے دیکھے مگر چند ایک مخلص
لیڈروں کے علاوہ اسے توڑنے والے ہی ملے۔ چند ایک مخلص لیڈروں میں سب سے
پہلے قائداعظم، علامہ اقبال، اور اس وقت کے با قی لیڈر تھے اس کے بعد جو
چند ایک نام ہیں انہیں نا بھی لکھا جائے تو لوگ جانتے ہی ہیں
ہماری سرزمین جسے 4 موسموں کی حکمرانی نصیب ہے اور سر سبز وشاداب ودیوں کی
سرزمین بھی کہلاتی ہے اس میں عوام کی جو ”عزت “کی جاتی ہے شاید اس کا خواب
قائد نے بھی نا دیکھا ہو۔ یا شاید ایسی ”عزت‘ کسی مقبوضہ علاقے میں نا کی
جاتی ہو۔ اس مملکت خداداد کے باسیوں کو ابھی تک بنیادی سہولتیں میسر نہیں
آئیں اپنی بنیادی سہولتوں کے لئے ذلیل وخوار ہو رہے ہیں اور لوگ ایک دوسرے
کے گلے پڑنے لگے ہیں لوگوں کو نا پانی میسر ہے نا خالص خوراک، نا صاف ہوا
میسر ہے نا صحت کی سہولتیں، نا ملازمتیں ہیں نا روزگار کے مواقع، اوپر سے
ہمارے حکمرانوں نے رہی سہی کسر بجلی کی کمی کر کے اور نئے پارو پلانٹ نا
لگا کر پوری کر دی ہے جس کی وجہ سے جو بسر روزگار تھے وہ بھی بے روز گار ہو
گئے اور نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے
بجلی نام کی چیز ”نایاب“ ہو چکی ہے بجلی کے بحران پر کسی حکومت نے بھی توجہ
نہیں دی اور آج ”تخت اقتدار “ پر بیٹھنے والے لوگ بھی اس کی طرف دھیان دینے
کو تیار نہیں لوگ مرتے جا رہے ہیں پر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ
رہی
ہماری ہر نئی آ نے والی حکومت آتے ہی یہ حکم صادر فرما دیتی ہے کہ اس ملک
کا خزانہ خالی کر کے دیا گیا ہے اور خزانہ ”لٹیرے “ لوٹ کر فرار ہو گئے ہیں۔
حکومت یہ نہیں سوچتی کہ اب ان کے ہاتھ میں حکومت ہے تو کچھ کرم عوام پر ہی
کر دیا جائے ہاں کرم کیا جاتا ہے ہر چیز کی قیمت بڑھا کے۔ تاکہ پاکستان کی
آبادی محدود رہے
گزشتہ دنوں میں پنجاب ٹریڈ یونین نے پورے پنجاب نے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال
کی جو پورے پنجاب میں متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے اس کو کامیاب بنایا۔
پورے پنجاب میں تاجروں نے اس ہڑتال میں بطور اجتجاج شرکت کی لوگ پہلے ہی
پیٹرول کی قیمت کی وجہ سے پریشان تھے اوپر سے بجلی کا بحران انہیں زمین دوز
کر رہا ہے اور حکومت نے اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے محاورے کے مطابق
تقریباً 2.50 روپے فی لیٹر پٹرول سستا کر کے عوام دشمنی کا بھرپور مظاہرہ
کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے ڈیزل کو
اور مہنگا کیا ہے کیونکہ حکومت کو پتہ ہے کہ ڈیزل کی ڈیمانڈ پٹرول سے زیادہ
ہے اور عوام مجبور ہیں جتنا مرضی مہنگا کرو عوام خریدے گی
بات ہورہی تھی کہ اس ہڑتال میں پورے پنجاب نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور اس
دن حکومت نے پورے پنجاب کی آواز بن کر ”پورا دن“ بجلی بند رکھی یعنی ہڑتال
کرنے کا فائدہ ہوا جو دس منٹ آتی تھی وہ بھی چھن گئی
اب لوگ ایک طرف تو حکومت کو کوستے ہیں کہ ان کے بیوی و بچے بھوکے مر رہے
ہیں تو دوسری طرف نواز شریف کی طرف بھی غصے کے جذبات رکھتے ہیں کیونکہ اس
عوام نے ہی ان کا ساتھ ”افتخار چوہدری“ کے لیے دیا تھا تو اب نواز شریف
صاحب کیا کر رہے ہیں؟ وہ عوام کی آواز کیوں نہیں سن رہے؟ وہ آئے دن تو بیان
دے رہے ہیں کوئی تجویز کیوں نہیں دیتے حکومت کو؟
اس کے ساتھ ساتھ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عوام بھی قربانی
دیں اور حکومت کا ساتھ دیں بالکل عوام کو حکومت کا ساتھ دینا چاہئے۔ مگر
محترم جسٹس ساحب آپ نے یہ تو کہہ دیا کہ عوام قربانی دیں مگر حکومت سے یہ
پوچھنا گوارہ نہیں کیا کہ” حکومت جی“جو بل آپ عوام کی ”ہڈیوں “ سے نکالتے
ہیں وہ کہاں جاتے ہیں”حکومت جی آپ پاور کمپنیوں کو ادائیگی کیوں نہیں کرتے
اگر ادائیگی کی ہے تو انہوں نے اپنے سسٹم سے اضافی پیداوار کیوں نہیں
بڑھائی اور آپ کے لئے یہی عرض کر سکتے ہیں کہ اگر کوئی a/c لگاتا ہے تو وہ
اسکا باقاعدہ بل بھی ادا کرتا ہے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں
ہمارے وزیراعظم صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ بجلی خریدنے والی چیز نہیں جو خرید
کر عوام کو دے دیں تو وزیراعظم صاحب آپ کو بھی پتا ہے کہ بجلی بھی خریدی جا
سکتی ہے آپ کو تو چین سستی بجلی پیدا کر کے دینے کا کہہ رہا ہے اس طرف
حکومت کیوں نہیں ہوتی کہیں ” پرافٹ مارجن“ کم ہونے کا خطرہ تو نہیں
بات ہو رہی تھی ٹریڈ یونین کی تو سچی بات ہے اسے بہت پہلے ہو جانا چاہیے
تھا تاکہ نا کالا باغ ڈیم پر سیاست چمکتی اور نا آج مزدور مرتے۔ نا ان کے
اہل خانہ خود کشی کا سوچتے نا اپنا پیٹ کاٹتے
عام خیال یہی کیا جاتا ہے کہ ایسی ہڑتالوں میں سماج دشمن عناصر اپنے مذموم
مقاصد حاصل کرتے ہیں اس میں بھی وہی ہوا ان عناصر نے ہمارے ملک کی
ٹرانسپوڑٹ کو اور دوسری چیزوں کو نقصان پہنچایا
اور میرے ملک کے لوگوں! یہ نقصان آپ کا ہے ان سماج دشمن عناصر کا نہیں۔ بعد
میں سفری مشکلات آپ کو آتی ہیں تو بھی آپ حکومت کو کوستے ہیں۔ اس لئے ایسا
اجتجاج نہیں کرنا چاہیے
حکومت کو اب پوری کوشش کرنی چاہیے اور اپنے وسائل استعمال کر کے اس مسئلے
پر قابو پانا چاہیے۔ اور جو جو معاہدے ہو چکے ہیں ان پر عملدآمد کروانا
چاہیے اور جلدی جلدی پہلے موجود سسٹم میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنا
چاہیے۔ جیسے جیسے آپ بجلی بڑھائیں گے آپ کا ووٹ بنک بڑھتا جائے گا ورنہ
ایسا نا ہو اس بار بغیر ”نواز شریف“ کے لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف چل پڑے |