قائد اعظم کبھی بھی سیکولر اور ہندو مسلم اتحاد کے حامی نہیں تھے

حقیقت کا یہی کمال ہوتا ہے کہ حقیقت مانی نہیں جاتی، بلکہ وہ خود اپنے آپ کو منوا ہی لیتی ہے، اس کی تازہ مثال بی جے پی کے اکہتر سالہ سابق رہنما اور سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی کتاب ”جناح، بھارت،تقسیم، آزادی“ ہے، جس میں سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ذات کے حوالے سے تعریفی کلمات، اُن کے کردار کی بلندی اور اُن کی راہ میں روڑے اٹکانے والے ہندو کانگریسی رہنماؤں مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کی عیارانہ پالیسیوں کو طشت از بام کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کی سحر انگیز شخصیت کا اعتراف کیا ہے اور گاندھی اور جواہر لال نہرو کو برصغیر کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیا ہے، یہ وہ اعتراف حقیقت ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی بالآخر ہندو بنیئے کی زبان پر آہی گیا اور انہیں اس آزادی رائے کی قیمت پارٹی رکنیت سے معطلی اور زبردست مخالفت کی صورت میں ادا کرنی پڑی، جسونت سنگھ نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر اور ہندو مسلم اتحاد کا حامی قرار دے کر پاکستان کی نظریاتی اساس اور جواز پر نہ صرف سوال کھڑا کردیا ہے بلکہ قائد اعظم کی ذات کو بھی متنازعہ بنانے انہیں غیر متوازن ،غیر واضح اور الجھی ہوئی شخصیت کے روپ میں پیش کرنے اور گاندھی اور جواہر لال نہرو کو برصغیر کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دے کر تاریخ کو مسخ کرنے کا جو کارنامہ انجام دیا ہے اس پر تو بی جے پی کو خوش ہونا چاہیے تھا لیکن حیرت ہے بی جے پی کی سیاسی ناسمجھی پر، ہماری نظر میں جسونت سنگھ نے تاریخ کو مسخ کرنے کا جو جرم عظیم کیا ہے اس کی سزا انہیں اس سے کہیں زیادہ اور سخت ملنا چاہیے تھی، جسونت سنگھ کے اسی جرم نے ہمیں حقیقت حال کو واضح کرنے اور تاریخی ریکارڈ کو درستگی پر مجبور کردیا، چنانچہ زیر نظر مضمون میں ہم کیا قائد اعظم سیکولر اور ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے؟ کا مختصراً جائزہ لینے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ جسونت سنگھ پہلے بھارتی فرد نہیں ہیں جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر قرار دیا ہو، ان سے قبل ان ہی کی پارٹی کے شری لال کرشن ایڈوانی بھی 2005ء میں دورہ پاکستان کے موقع پر قائد اعظم کو ایک سیکولر رہنما قرار دے کر متعصب ہندوں کی طوفانی مخالفت کا سامنا کرچکے ہیں، یہاں یہ بات بھی یقیناً اہل علم کی نظر میں ہوگی کہ بھارت کے بزرگ قانون اور سیاستداں اور مہاراشٹر کے سابق ایڈوکیٹ جنرل ایچ ایم سیروائی نے اپنے کتابPartition of India,Legend & Reality جس کا اردو ترجمہ ممتاز محقق ڈاکٹر صفدر محمود نے ”تقسیم ہند افسانہ اور حقیقت“ کے نام سے کیا ہے، میں کانگریسی لیڈر گاندھی، نہرو اور پٹیل کی غلطیوں اور حماقتوں کا جائزہ اور گاندھی کی عیاری اور نہرو کی ہوشیاری کو بے نقاب کرتے ہوئے گانگریس کے خبث باطن، تنگ نظری، تعصب اور اصل عزائم پر روشنی ڈالی اور انہیں تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیا ،ایچ ایم سیروائی نے بھی اپنی کتاب میں یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قائد اعظم محمد علی جناح تقسیم ہند کے مخالف تھے لیکن کانگریس کی غلطیوں نے پاکستان بنا دیا، لیکن جسونت سنگھ اس لحاظ سے دونوں افراد سے قدرے منفرد ثابت ہوئے وہ ایڈوانی اور سیروانی سے بھی ایک قدم اور آگے بڑھ کر قائد اعظم کو سیکولر رہنما کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم اتحاد کا حامی قرار دینے کی جسارت کر بیٹھے، یہ درست ہے کہ ابتداء میں قائد اعظم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ہندو مسلم اتحاد کے پیامبر کے طور پر کیا، لیکن بہت جلد ہی انہوں نے ہندوؤں کے ناپاک عزائم کو بھانپ لیا اور جب 1928ء میں نہرو رپورٹ جس میں کانگریس کی نہرو کمیٹی نے مسلم لیگ کی جانب سے تجویز کی جانے والی مناسب ترممیات اور لکھنو پیکٹ کے تحت جن اصولوں پر اتفاق رائے کیا گیا تھا کو ماننے سے انکار کردیا تو قائد اعظم کانگریس کے رویہ سے بالکل مایوس ہو کر کہہ گزرے کہ ”آج سے ہمارے اور ہندوؤں کے راستے الگ الگ ہیں۔“ایک بار جب کسی نے قائد اعظم سے سوال کیا کہ انہیں پہلی بار پاکستان کا خیال کب آیا؟ تو قائد اعظم نے فریایا تھا کہ 1930ء میں۔

قارئین محترم یہ قائد اعظم کا کوئی سیاسی بیان نہیں تھا بلکہ یہ اُن کے دل کی آواز تھی، اُن کے شعور کا فیصلہ تھا اور اُن کی فہم و فراست اور دور بیں نگاہ اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں جو کبھی بھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، یہی وجہ تھی جو 1930ء سے انہوں نے تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا اور یہی وہ سال ہے جب علامہ اقبال نے الہٰ آباد میں تصور پاکستان پیش کیا تھا، پھر 1937ء کے انتخابات کا تجربہ اور اس کے بعد 1940ء کی قرار داد لاہور اس امر کی شاہد ہے کہ قائد اعظم اس بات کے قائل ہوچکے تھے کہ مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے ایک علیحدہ وطن کا قیام ضروری ہے، اس مقام پر سینکڑوں تاریخی مثالیں دے کر یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ایچ ایم سیروانی، ایل کے ایڈوانی، جسونت سنگھ اور ان کی سوچ سے متفق وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم تقسیم ہند کے مخالف تھے اور کانگریس کی غلطی نے پاکستان بنا دیا، سراسر لغو، جھوٹ اور تاریخی حقیقت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان قائد اعظم کی کرشمہ ساز قیادت، مسلمانوں کی بے پناہ قربانیوں اور مسلم لیگ کی جدوجہد کا ثمر تھا، جسے خود کانگریس اور انگریز حکومت نے آخری چارہ کار کے طور پر قبول کیا تھا، ورنہ ماؤنٹ بیٹن تو حکومت برطانیہ سے جو تحریری ہدایت نامہ لے کر آیا تھا اس کے تحت وہ ہندوستان کو متحد رکھنے کا پابند تھا۔

قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر اورتقسیم ہند کا مخالف ثابت کرنے کی کوشش گذشتہ کئی عشروں سے جاری ہیں ،یہ بحث اب وطن عزیز پاکستان میں بھی نام نہاد مفکروں اور دانشوروں کے منہ سے تواتر کے ساتھ سنی جارہی ہے کہ قائد اعظم ایک سیکولر اور لادین رہنما تھے اور قیام پاکستان کا مقصد اسلامی ریاست نہیں بلکہ ایک سیکولر ریاست کا قیام تھا اور قائد اعظم پاکستان میں سیکولر نظام قائم کرنا چاہتے تھے، دانشوروں کا حلقہ یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو اسلام سے بالکل پاک اور صاف رکھنا چاہتے تھے، ان کے نزدیک قیام پاکستان کا مقصد ایک سیکولر جمہوری ریاست کا قیام تھا، اپنے اس دعوے کی دلیل میں ان دانشور وں کو قائد اعظم محمد علی جناح کی پوری زندگی سے صرف 11اگست1947ء کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب سے چند جملے جو کہ کسی سیکولر نظام کی بنیاد رکھنے کیلئے نہیں بلکہ اقلیتوں کو احساس تحفظ دلانے کیلئے تھے ” اگر ہم اس جذبے کے ساتھ کام کریں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکثریت اور اقلیت مسلمان اور ہندو کے درمیان پیچیدگیاں ختم ہوجائیں گی .....آپ آزاد ہیں، مندر میں پوجا کریں، یا مسجد میں عبادت کریں، آپ کا کسی مذہب، ذات،یا عقیدے سے تعلق ہو اس سے حکومت کو سروکار نہیں“ ملتے ہیں، جو سیاق و سباق سے ہٹ کر اپنے من پسند معنی و مفہوم کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی کہ قائد اعظم سیکولر نظام کے حامی تھے، جبکہ خود قائد اعظم محمد علی جناح نے 25اکتوبر 1947ء کو رائٹر کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں دستور ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریر میں یہ واضح کرچکا ہوں کہ اقلیتوں سے پاکستان کے شہریوں جیسا سلوک کیا جائیگا اور ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسروں کو حاصل ہوں، پاکستان غیر مسلم اقلیتوں کو احساس تحفظ اور اعتماد پیدا کرنے کیلئے سب کچھ کرے گا۔“ حیرت ہے کہ ہمارے دانشور حضرات 11اگست والی تقریر کی تشریح و توضیح پر تو بہت زور دیتے ہیں لیکن قائد اعظم کی 25اکتوبر والی تقریرکا ذکر نہیں کرتے، جس میں خود قائد اعظم نے 11اگست کی تقریر کے حوالے سے اپنے مدعا کی وضاحت کی تھی، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا اور یہی پاکستان کے مطالبے کا طاقت ور ترین محرک تھا، جس کے سبب برصغیر کے مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دیں، صعوبتیں برداشت کیں اور آگ و خون کے دریا عبور کر کے پاکستان پہنچے، پاک و ہند کے مسلمانوں کا اجتماعی شعور اس بات کا عکاس ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ احساس پوری طرح جاگزیں ہوچکا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کی صحیح معنوں میں بقاء کیلئے ایک مسلمان ریاست کا قیام بے حد ضروری ہے، دراصل یہ احساس ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے تجربات کا نچوڑ تھا اور خود قائد اعظم نے بھی اپنی تقریروں میں یہ بات بار بار کہی تھی ۔

کسی بھی شخصیت کے نظریات اور تصورات کو سمجھنے کیلئے اس کی ذاتی زندگی میں جھانکنا اور اس کی عوامی زندگی کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، محض کسی شخص کے ظاہری حال، حلیے اور وضع قطع کو دیکھ کر اس کی شخصیت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، وہ جناح جو بظاہر انگریزی بولتا، مغربی لباس پہنتا اور مغربی طور طریقوں پر عمل کرتا تھا، اس جناح کے باطن میں جھانکیئے تو آپ کو اصل محمد علی جناح کا سراغ ملے گا، جو ظاہری جناح سے یکسر مختلف ہے، جو کہتا ہے کہ ”مسلمانوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے دنیا کو بہت دیکھا، دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ ۔ ۔ ۔اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں، میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں، میں چاہتا ہوں کہ مرتے وقت میرا اپنا دل، ایمان اور ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت اسلام کا حق ادا کردیا، جناح تم نے مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لایا، میرا خدا کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علَم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔“(روزنامہ انقلاب 22اکتوبر 1939ئ)

یوم حساب، خدا کے حضور سرخروئی، مسلمانوں اور اسلام کی سربلندی کا علم بلند کرتے ہوئے مرنے کی آرزو اور رضائے الٰہی کی تمنا صرف اور صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو سرتاپا سچا اور پکا مسلمان ہو اور جس کا باطن خوف خدا کے نور سے منور ہو، اب سوال یہ ہے کیا ایسا شخص پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہے گا، تو یقیناً جواب یہی ملے گا کہ ہر گز نہیں، قائد اعظم کی نظر میں پاکستان کا خطہ زمین اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں اسلامی تہذیب و تمدن، ثقافت اور اسلامی اصولوں کی تجربہ گاہ بنایا جاسکے،31جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ”اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے، ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزماسکیں۔“25جنوری 1948ءکو کراچی میں عید میلاد النبی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”کون کہتا ہے کہ پاکستان کے آئین کی اساس شریعت پر نہیں ہوگی، جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ مفسد ہیں، ہماری زندگی میں آج بھی اسلامی اصولوں پر اسی طرح عمل ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوتا تھا“21مارچ 1948ء کو آپ نے ارشاد فرمایا ”میری آرزو ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں ایک ایسی مملکت بن جائے کہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے فاروق اعظم کے سنہری دور کی تصویر عملی طور پر کھنچ جائے، خدا میری اس آرزو کو پورا فرما۔“اسی طرح آپ نے 1946ء میں مسلم اسٹوڈنٹس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت متعین کرنے والا کون ہوگا، میرے نزدیک مسلمانوں کے طرز حکومت کا فیصلہ آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے قرآن مجید نے کردیا تھا۔“طوالت کے خوف سے ہزاروں مثالوں میں سے ہم نے یہاں چند مثالوں پر ہی اکتفا کیا ہے، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قائد اعظم ایک سچے مسلمان اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے ذریعے ایک مثالی ریاست بنانے کے خواہاں تھے، لہٰذا یہ کہنا کہ قائد اعظم سیکولر رہنما تھے پاکستان کی اسلامی نظریاتی اساس اور جواز پاکستان کی نفی ہے، کیونکہ اگر قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست ہی بنانا چاہتے تھے تو پھر ایک الگ وطن کے مطالبے کی ضرورت ہی نہیں تھی، حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ یا قائد اعظم یہ اعلان کردیتے کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی تو بر صغیر کا ایک بھی مسلمان مسلم لیگ کا ساتھ نہ دیتا اور نہ ہی آج قائد اعظم، قائد اعظم ہوتے، ہمارے نزدیک قائد اعظم کو سیکولر اور ہندو مسلم اتحاد کا حامی کہنا اس صدی کا سب سے بڑاگمراہ کن جھوٹ اور قائد کی بے داغ شخصیت کو داغدار کرنے کے مترادف ہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام ایک اسلامی ریاست کیلئے عمل میں آیا تھا ،سیکولر ریاست بننے کیلئے نہیں، مسلمانان برصغیر کے عظیم قائد کی ذات کے حوالے سے جسونت سنگھ جیسے دانشوروں کی رائے ہماری دانست میں کم علمی اور بے عقلی کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے دیدہ ور دانستہ پاکستان کو اس کی اسلامی نظریاتی اساس سے ہٹانے اور دو قومی نظریئے کو ختم کرنے کی منظم سازش اوراس منصوبے کا حصہ ہے جسے وقتاً فوقتا ہندو اور نام نہاد مسلمان لبرل دانشور اچھال کر مسلمانوں کی پاکستان سے نظریاتی وابستگی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، یہ جسونت سنگھ کا اعتراف حقیت نہیں بلکہ قائد کی شخصیت پر الزام اور بہتان طرازی ہے اور اس نقطہ نظر سے اتفاق کا مطلب بانی پاکستان پر منافقت، عدم اخلاص اور بددیانتی کا الزام لگانا ہے جس کا کوئی محب وطن تصور بھی نہیں کرسکتا، یہ قائد اعظم پر سنگین الزام اور بہتان ہے اور قائد اعظم کے کردار کو گہنانے کی سازش اور ان کے شاہکار اسلامی پورٹریٹ کو مسخ کرنے اور انہیں غیر متوازن، غیر واضح اور الجھی ہوئی شخصیت کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش ہے اور یہ ثابت کرنا ہے قائد اعظم اور کانگریسی قیادت کے مابین کوئی نظریاتی اختلاف نہیں تھا بلکہ وہ محض اپنے اپنے اقتدار کیلئے الگ الگ ریاست قائم کرنے کیلئے کوشاں تھے، چنانچہ یہ کہنا کہ پاکستان بنا تو مسلمانوں کیلئے تھا مگر اسلام کی اس میں کوئی گنجائش نہیں اول درجے کی منافقت اور قائد اعظم کے ساتھ صریحاً ظلم و زیادتی ہے۔

زمانہ گواہ ہے کہ قائد اعظم ایک سچے کھرے، بااصول اور باوقار انسان تھے، ایک جسونت سنگھ ہی کیا ان کے بد ترین دشمن بھی ان کے کردار کی عظمت کے معترف ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح کا شمار عالم اسلام کی ان برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے، جن کے کارنامے اپنی انفرادیت اور تنوع کے باعث دنیا بھر میں رشک کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، قائد اعظم صرف ایک سیاستدان ہی نہیں بلکہ ایک بااصول کراماتی شخصیت کے مالک بھی تھے، تحریک پاکستان اور وجود پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات ایک روح کا درجہ رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان مخالف قوتیں پہلے دن سے آج تک قائد اعظم کی ذات پر مختلف حوالوں سے کیچڑ اچھال کر پہلے تحریک پاکستان اور بعد میں وجود پاکستان کو کمزور کرنے کی ناپاک کوششیں کرتی رہی ہیں، لیکن یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایک سچے راسخ العقیدہ مسلمان تھے، اعتقادی نقطہ نظر سے قائد اعظم کی ذات”پختہ مسلمان“ہی ہے، ان کا دل اسلام کی عظمت سے مالا مال تھا اور ان کا دل و دماغ ایک مسلمان ہونے کے فخر سے معمور تھا اور ان میں مصور پاکستان علامہ اقبال کے ”مرد مومن“ کی تمام خصوصیات موجود تھیں، ان کا کردار بے داغ اور شخصیت بے عیب تھی، وہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ایسے عظیم قائد تھے، جنھوں نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو اپنے پیش نظر رکھا، ان کے خطبات اور تمام زندگی کے واقعات اس امر پر گواہ ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شخصیت جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عشق کرتی ہو جس کے عشق رسالت مآب کا یہ عالم ہو کہ وہ لنکزان میں محض اسلئے داخلہ لے کہ اس کے دروازے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لکھا ہوا تھا، ایسا شخص کسی طور بھی نہ تو سیکولر ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہندوسمسلم اتحاد کا حامی ہوسکتا ہے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358054 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More