حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والا مذاکرات کا سلسلہ خوش اسلوبی سے آگے
بڑھ رہا ہے، جو پوری قوم کے لیے ایک خوش آئند بات ہے۔ حکومت اور طالبان کی
مذاکراتی کمیٹی کے درمیان خوشگوار ماحول میں گزشتہ جمعرات کو پہلی باقاعدہ
کامیاب ملاقات ہوئی تھی۔ مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے وزیر اعظم میاں
نوازشریف دو روز قبل اس بات کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ حکومت اور طالبان کی
کمیٹیاں ٹھیک کام کر رہی ہیں اورمذاکرات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
وزیر اعظم کی اس بات کی تصدیق طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے دورکنی وفد کی
طالبان کے ساتھ باقاعدہ دو روزہ ملاقات سے سامنے آنے والی صورتحال سے ہوگئی
ہے۔ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی اور طالبان سربراہوں کی دو روزہ مشاورت خوش
اسلوبی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور
جماعتِ اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم اور کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع
الحق کے ترجمان مولانا یوسف شاہ پر مشتمل مذاکراتی وفد طالبان سے بات چیت
کے لیے ہفتے کی صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہلے
پشاور اور پھر میران شاہ تک پہنچایا گیا۔میران شاہ پولیٹیکل ایجنٹ ہاؤس سے
پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ کو سرکاری گاڑی میران شاہ کی حدود میں
ہی نامعلوم مقام پر چھوڑ گئی، وہاں سے تحریک طالبان پاکستان کی گاڑی دونوں
معزز رہنماؤں کو لے کر نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوئی،جہاں پر ہفتہ کی رات
تاخیر سے مذاکرات کا آغاز ہوا ،جس میں طالبان سیاسی شوریٰ کے امیر حافظ
شکیل و دیگر شریک ہوئے،پہلی ملاقات میں تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر
خالد شیخ حقانی شریک نہیں ہوئے تھے۔ذرائع کے مطابق مذاکراتی اجلاس کے دوران
طالبان تحریک کے سربراہ مولانا فضل اللہ بھی فون کے ذریعے رابطے میں رہے،
مشاورت کے دوران متعدد بار نہیں فون کیا گیا۔
اس دوران میڈیا یہ خبر چلاتا رہا کہ طالبان نے مذاکرات کے لیے پندرہ شرائط
عاید کردی ہیں اور میڈیا کی جانب سے ان شرائط کی فہرست بھی جاری کردی
گئی،جن میں ڈرون حملوں کی فوری بندش، عدالتوں اور تعلیمی اداروں میں شرعی
نظام نافذ،طالبان قیدیوں کو رہا، ڈرون حملوں میں تباہ مکانوں کی تعمیر اور
نقصان کا ازالہ،جبکہ قبائلی علاقوں کا کنٹرول مقامی فورسز کے حوالے،قبائلی
علاقوں سے فوج واپس، چیک پوسٹیں ختم، تحریک طالبان کے خلاف تمام مقدمات
ختم،امیر اور غریب کو یکساں حقوق کی فراہمی، ڈرون حملوں میں جاں بحق
افرادکے لواحقین کو نوکریوں کی فراہمی، طالبان کمانڈروں کو عام معافی،
امریکا کے ساتھ تعاون ختم، شرعی نظام کا نفاذ اور پورے ملک سے سودی نظام کا
خاتمہ شامل تھا، لیکن طالبان ذرائع نے مقامی ذرائع ابلاغ میں اتوار کو
سامنے آنے والی ان 15 شرائط کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا اصرار ہے کہ
وہ ایسی شرائط ابتدا میں نہیں رکھیں گے، جن سے معاملات آگے نہ بڑھ سکیں اور
تلخیاں پیدا ہوں۔ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ
طالبان باضابطہ طور پر حکومت کے سامنے اپنی شرائط پیش کرتے رہیں۔ مشاوراتی
کمیٹی کا کہنا تھا کہ طالبان کچھ چیزوں کی وضاحت کرنا چاہتے تھے اور انھیں
کچھ وضاحتیں درکار تھیں۔
ذرائع نے مجموعی طور پر اس دو روزہ مشاورتی عمل کو مثبت اور کامیاب قرار
دیتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ نہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ طالبان کی نمائندہ کمیٹی
کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو ان کے ترجمان اور طالبان سے مشاورت کے لیے
جانے والے مولانا یوسف شاہ نے بھی بتایا کہ حالات اچھے ہیں اور بات آگے
بڑھی ہے۔طالبان کی کمیٹی کے اراکین کی قبائلی علاقوں سے مذاکرات کے بعد
واپسی کے بعد پیر کے روز مولانا سمیع الحق کا کہناتھا کہ طالبان کی جانب سے
حکومتی تجاویز پر حوصلہ افزا جواب آیا ہے، جس پر حکومتی کمیٹی سے بات کی
جائے گی۔ یہ قومی مسئلہ ہے اور تمام باتیں قوم کی امانت ہیں، اس لیے وہ
انہیں سب کے سامنے نہیں رکھ سکتے۔ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ نے
مزید کہا کہ طالبان نے حکومت کے چار نکات پر مثبت رد عمل دیا ہے، لیکن اس
معاملے پر جذبات سے کام نہ لیا جائے۔انہوں نے طالبان کی سیاسی شوریٰ سے
مذاکراتی عمل کے بارے کہا کہ پروفیسر ابراہیم، مولانا یوسف شاہ اور مولانا
عبدالحسیب نے طالبان کی سیاسی شوریٰ سے نامعلوم مقام پر مذاکرات کیے اور
طالبان کی جانب سے مثبت ردعمل آیا ہے۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے مذاکرات کے
ابتدا میں ہی حکومتی کمیٹی سے تین بنیادی مطالبا ت رکھے تھے۔جن میں قیدیوں
کی رہائی کا معاملہ سر فہرست تھا۔جب کہ طالبان کی سیاسی شوریٰ نے مذاکراتی
کمیٹی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے زیر حراست قیدیوں کی فہرست بھی
فراہم کی تھی۔طالبان کمانڈر کے مطابق اتوار کی صبح مذاکرات کا دوبارہ آغاز
ہوا،جس پر پروفیسر ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ طالبان قیادت جنگ بندی کا علان
کرے اور پوری دنیا کو امن مذاکرات میں پہل کا آغاز کرے۔ جس پر شوریٰ نے
دونوں کمیٹی اراکین سے معذرت کرتے ہوئے واضح کیا کہ قیدیوں کی رہائی جب تک
عمل میں نہیں لائی جاتی ،جنگ بندی کا اعلان ممکن نہیں ہے۔طالبان کا کہنا
تھا کہ وہ فوری طور پر ایسی کوئی کڑی شرائط نہیں لگائیں گے جن کا پورا کرنا
حکومت کے لیے فوری طور پر ناممکن ہو۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس مذاکراتی عمل
میں سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ طالبان نے ملک کے آئین کے دائرے میں رہتے
ہوئے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ حالانکہ
پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ طالبان ملک کے آئین کو مانتے ہی نہیں ہیں۔ اس لیے
آئین کے تحت ان کا مذاکرات کرنا بھی ناممکن ہے، لیکن طالبان کی جانب سے اس
آئین کے تحت مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے اظہار نے تمام خدشات کو ختم
کردیا ہے۔ جبکہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی سمیت ملک بھر کے
بڑے علمائے کرام نے بھی ملک کے آئین کے اسلامی ہونے کی توثیق کی ہے، جس سے
مذاکراتی عمل کی کامیابی کی مزید امید کی جاسکتی ہے، کیونکہ بڑے علمائے
کرام کی یہ توثیق حکومت اور طالبان مذاکرات کے درمیان ایک پیل کا کردار ادا
کرسکتی ہے۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اسی طرح مذاکرات کا سلسلہ
کامیابی سے چلتا رہے تو امن کے قیام کی امید کی جاسکتی ہے، اگرچہ مذاکرات
کے مکمل کامیاب ہونے میں وقت لگے گا، یک دم تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا، بہرحال
پہلی مشاورت قوم کے لیے امید کی کرن ثابت ہوئی ہے۔
دوسری جانب یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ملک دشمن عناصر کی جانب سے ان
مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔جس کی کوئی بھی صورت
ہوسکتی ہے۔ طالبان کمیٹی اور شوریٰ میں مشاورت کے دوران امریکی ڈرون طیاروں
کی مسلسل پروازیں بھی اسی کوشش کی ایک کڑی ہوسکتی ہے،شمالی وزیرستان کے
مختلف علاقوں میں ڈرون طیاروں کی نچلی پروازوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری
ہے، ڈرون طیاروں کی پروازوں کے باعث علاقے میں خوف وہراس ہے۔مشاورتی عمل کے
دوران ڈرون طیاروں کی مسلسل پروازوں کے باعث مذاکرات کے مقامات کو کئی بار
تبدیل کرنا پڑا۔ اتوار کو مذاکراتی کمیٹیوں نے واپس پہنچنا تھا، جس کے باعث
وزیر داخلہ چودھری نثار نے مولانا سمیع الحق سے رابطہ کر کے وجہ دریافت کی
تو وزیر داخلہ کو بتایا گیا کہ مشاورت کے دوران علاقے میںکثرت سے ڈرون
پروازوں کے باعث کمیٹی کو بار بار جگہ تبدیل کرنا پڑ رہی ہے، جس
پروزیرداخلہ نے کہا کہ اگر کسی بیرونی طاقت نے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی
کوشش کی تو یہ سب سے بڑی پاکستان دشمنی ہوگی۔مذاکرات کے دوران فوج کی جانب
سے خاموشی بھی اس بات کی نوید ہے کہ مذاکرات کامیابی کی جانب گامزن
ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جانب سے پورے مذاکراتی عمل کو شفاف بناکر اس
کی کامیابی کے لیے اپنی جانب سے مخلصی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، جس سے بہتری
کی امید کی جاسکتی ہے۔ قوم اس بات کی خوہاں ہے کہ آخر تک یہ سلسلہ کامیابی
کے ساتھ چلتا رہے اور ملک امن کا گہوارہ بن جائے۔
|