میں نے اخبار میں ایک داستان پڑی یہ داستان میں آپ کے نظر
کرتا ہوں کئی سالوں سے ملک دہشت گردی کا شکار ہیں روز ملک میں الم ناک
داستانے رقم ہورہی ہے یہ محفل خواتین پر مشتعمل تھی خواتین کا کہنا تھا
ہماری داستان ایک امانت ہوگی جو آپ اپنے قلم کے زریعے اونچے محلوں اور
اونچے پہاڑوں تک پہنچائیں گے، جب کہنے کا وقت آیا توان میں زیادہ تر ستم
رسیدہ عورتیں تھیں جن کے جگر کے ٹکٹرے عزیز و اقارب خودکش حملوں میں کام
آئے تھے،انکے اداس چہرے اور بجھی ہوئی آنکھیں انکے غمزدہ دلوں کی کہانی سنا
رہے تھے ،ایک جوان اور نو خیز خاتون نے کہا کہ کون ہے جو پاکستان میں شریعت
کے حق میں نہیں ہے پہلے یہ تو بتائیں کہ خودکش حملوں میں تقریبا 60 ہزار
افراد بے گناہ مارے گئے اور اس سے دوگنے مفلوج ہوکر گھروں میں بستروں پر
پڑے ہیں جوان لڑکے جو معذور ہوچکے ہیں انکا مستقبل کیا ہوگا جواں لڑکیاں جو
بن بیاہی بیوہ ہوگیئں انکو بیاہنے کون آئے گا مایئں جو اپنے جگر گوشوں سے
محروم ہوگئ انکا سہارا کون بنے گا، باپ جسے بڑھاپے میں بیٹے کا جنازہ
اٹھانا پڑگیا ایسے کاندھا کون دے گا۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں
نے اتنی ہمدردی سے ہمارے بارے میں سوچا ہے، ساٹھ ہزار انسانوں کے رابطے اور
رشتہ داریاں تقریبا ایک کروڑ خاندان سے تو ہوگی۔ بیٹھے بیٹھائے ایک کروڑ
خاندان کو برباد کریا آخر انکا قصور کیا تھا؟ انکی تلافی کون کرے گا، انکے
گھروں میں اجالا کون کرے گا۔
مزاکرات شروع کرنے سے پہلے آپکو یہ سوال اٹھانا چاہیے تھا کہ طالبان انسان
ہیں یا درندے ہیں جو بھی ہیں ان سے جواب مانگنا چائیے تھا، انکو قتل عمد کا
احساس ہے ان سے دیت اور قصاص کون مانگے گا؟ وہ کس شریعت کی بات کرتے ہیں،
کیا نفاذ شریعت قتل و غارت کے بغیر ممکن نہیں، کس شریعت کے تحت انہوں نے
گھر کے گھر اجاڑ دیے مسجدوں کو شہید کردیا امام باڑوں کو نشانہ بنایا گیا،
مزاروں اور گرجا گھروں میں بم دھماکے کیے انکی شرائط ماننے سے پہلے کیا
حکومت نے یہ سوال اٹھائے، وہ تو اپنے کسی سفاکانہ اور غیر انسانی عمل پر
شرمندہ نہیں ہیں، اور آپ ہیں کی انکے آگے پیچھے جاتے ہیں، ان سے کہیں کہ
ہمارے زخم تازہ ہیں اور ہم اپنے پیاروں کے لہو کا حساب مانگتے ہیں، ایک
خاتون نے کہا کہ آج یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان کا آیئن منظور نہیں ہے جو
پاکستان کے ہر طبقہ کے سیاستدانوں نے متفقہ رائے سے ترتیب دیا تھا اور آپ
آرام سے سن رہے ہیں، ان لوگوں کا کیا اعتبار کل کہہ دیں گے کہ ہمیں پاکستان
کا نام پسند نہیں ہے ہماری پسند کا نام رکھیں پھر کہہ دیں گے کہ محمد علی
جناح کو بابائے قوم کہنا بند کردو، تو کیا آپ انکا ہر مطالبہ مانتے جایئں
گے،
• تیسری عورت بولی کہ یہ شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں تو ان سے بولو کہ وہ
میڈیا میں آکر ہمیں بتایئں کہ شریعت کیسے کہتے ہیں، کیا بے گناہ انسانوں کی
جان لینے کو شریعت کہتے ہیں ، کیا کسی ہنستے بستے ملک پر نقب لگا کر اسلحہ
اکٹھا کرنے اور پہاڑوں میں چھپ کر حملے کرنے کو شریعت کہتے ہیں، چوتھی عورت
نے روتے ہوئے کہا کہ کلام پاک میں درج ہے آنکھ کے بدلے آنکھ کان کے بدلے
کان اور جان کے بدلے جان تو ان سے اسی زبان میں بات کیوں نہیں ہورہی کیوں
انکے جرائم کو معاف کیا جا رہا ہے، ہاتھ جوڑ کر ان سے کیوں مزاکرات کی اپیل
کی جارہی ہے۔ پانچویں عورت نے کہا کہ یہ شریعت کی رٹ لگانے والے یہ بتائیں
کہ یہ خود کتنا شریعت پر عمل کررہے ہیں کیا انکی بہو بیٹیاں شریعت پر عمل
کررہی ہیں، انہوں نے صرف جبہ و دستار کو شریعت بنا رکھا ہے، خوشی کے
شادیانوں پر اگر کوئی لڑکی تالی بجادے تو وہ قابل قتل ہوجاتی ہیں، ہم اپنے
گھروں میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی مرضی سے رہنا چاہتے ہیں جیسا پاکستان
ہمیں قائداعظم نے بنا کر دیا تھا ہم ویسے پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں، ان
لوگوں کی وجہ سے ہمارے نوجوان بیٹے پاکستان سے باہر رہنے کو ترجیح دے رہے
ہیں۔ صنعت کار اپنے کارخانے ملک سے باہر لے جارہے ہیں یہ کون لوگ ہیں جو
پاکستان جیسے زرخیز اور مردم خیز کو تنہا اور بے دست وپا کرنا چاہتے ہیں،
قابل حیران کن بات ہے کہ ایک بہت بڑے اور وسائل سے مالا مال ملک کو مٹھی
بھر دہشت گردوں نے یرغمال بنا رکھا ہے ایک طرف آپ انہیں دہشت گرد کہتے ہیں
تو دوسری جانب آپ انہیں مزاکرات کی دعوت دیتے ہیں یہ زیادہ حیرت کی بات ہے
کہ جن کو دہشت گرد کہا جاتا ہے وہ آج شریعت کی بات کررہے ہیں، اور پاکستان
کے کچھ علماء انکا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں،
2002 میں مشرف دور میں یہ علماء نیشل اسمبلی میں بیٹھے تھے، پانچ سال تک یہ
تمام علماء پارلیمنٹ میں بیٹھے رہے اور تین سال تک یہ صرف وہاں ڈیسک بجاتے
رہے ڈرامہ کرتے رہے کارروائی کو نہیں چلنے دیا جائے گا، اس بد تمیزی کے
طوفان میں اسمبلی کی کارروائی چلتی رہی بجٹ پاس ہوتے رہے شور مچتا رہا سب
سے عجیب بات یہ ہوئی کہ شور مچانے والے ڈیسک بجاتے تھے شور مچاتے تھے، نعرے
لگاتے تھے، نامنظور نا منظور کہتے تھے، اور باہر نکل جاتے تھے، مگر اپنے
الاؤنس اور تنخواہیں باقاعدہ وصول کرتے تھے،ووچرز بھی وصول کرتے تھے، مفت
علاج بھی کرواتے تھے سرکاری خرچ پر غیر ملکی دورے بھی کرتے تھے،دعوتیں بھی
کھاتے تھے، یہ کس قسم کا احتجاج تھا،
یہ تمام صوبوں کے علماء جو مختلف مسالک سے تعلق رکھتے تھے اور مختلف فقہ
پڑھ کر آئے تھے، وہاں نفاذ شریعت کی بات نہیں کرسکتے تھے، مگر وہاں انہوں
نے آئین کو تسلیم کیا رکھا، انکو یاد ہونا چاہئے کہ اسمبلی کے اندر جو آرڈر
آف دا ڈے کا انگریزی اردو میں لکھا ہوتا ہے، اسکے اوپر ہمیشہ بسم اللہ
الرحمن الرحیم لکھا ہوتا ہے اور یہ سب لوگ اس ایجنڈے کو پھاڑ کر اسکے پرزے
پرزے کرکے فرش پر پھینک دیتے تھے، انکو توجہ دلوائی گئی کہ یہ یوں نہ پھاڑا
کریں اس پر بسم اللہ لکھا ہوتا ہے اور یہ قدموں تلے روندے جاتے تھے، مگر اس
وقت انہیں شریعت کی کوئی شق یاد نہیں آتی تھی، ایک عورت نے اپنا سینا پیٹتے
ہوئے کہا کہ میرا چودہ سال کا بیٹا دو سال پہلے لا پتہ ہوگیا تھا دو سال
سجدے پر پڑی بلکتی رہی اللہ سے فریاد کرتی رہی،،، کل اچانک گھر لوٹ آیا
عجیب حلیئے میں تھا کہنے لگا ماں جنت میں جانے کی ٹریننگ کے لیے افغانستان
میں لے جایا گیا تھا، میرے ساتھ اور بھی بہت سے لڑکے تھے۔ آج تیری یاد آئی
تو میں واپس بھاگ آیا ہوں، وہ بولی ان ورغلا کر لے جائے گئے جوانوں کو کون
واپس لائے گا، کون ان کی بات کرے گا شرطیں سب ادھر سے آئیں گی یا ادھر سے
بھی کچھ کیا جائے گا۔ یا ہمارے بچوں کو ہی ہمارا قاتل بنایا جائے گا، اب یہ
کون سا گیم ہورہا ہیں کہ مزاکرات بھی ہورہے ہیں اور بم دھماکے بھی ہورہے
ہیں
وحشت میں دیکھئے میری دامن پرستیاں
خود کرکے تار تار سیئے جارہا ہوں میں |