سانحہ پشاور کے ذمہ دار کون۔۔؟

سانحہ پشاورکے باوجود سرکاری اور طالبان کمیٹیوں کا اجلاس پرامن ماحول میں منعقد ہواور طرفین نے مذاکرات کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے۔وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان چند ہفتے قبل ایک ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود جیسے دہشت گرد کی ہلاکت کے بعد امریکہ مخالفت میں زمین آسمان ایک کرنے کے درپیتھے۔ لیکن ان ناپسندیدہ عناصر کے پسندیدہ نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے عین بیچ اس قسم کی شرمناک دہشت گردی پر چوہدری نثار علی خان محض اظہار افسوس کرنے پر مجبور ہیں۔ مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ دھماکے کرنے والے ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ ہم روز اول سے یہی عرض کر رہے ہیں کہ دھماکے کرنے اور لوگوں کو مارنے والے کسی کے دوست نہیں ہو سکتے۔ مولانا سمیع الحق اور ان کے ہمنوا اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ دھماکے کرنے والے دراصل ناراض لوگ ہیں اور ان کی منت سماجت کر کے انہیں منا لینا چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات میں دونوں طرف سے شامل اراکین کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ملک میں افراتفری پھیلانے والے یہ عناصر کون ہیں اور ان کی لگامیں کن عناصر کے ہاتھوں میں ہیں۔ صورت حال اندھوں میں ہاتھی کی مثال کی طرح ہے کہ ہر نابینا ہاتھ جیسے عظیم الحبثہ جانور کے اسی حصے کو ہاتھی قرار دے رہا ہے جو اس کے ہاتھ کی پہنچ میں ہے۔ اور اس تفہیم میں وہ کسی دوسرے کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایسی حالت میں کسی کے ہاتھ میں سونڈ ہے، کوئی پیٹ کو محسوس کر رہا ہے، کسی کا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگ پر ہے تو کسی کا دم پر۔ جب تک یہ سب اندھے اس بات پر اتفاق نہ کر لیں کہ وہ اپنے اپنے مشاہدہ کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر کوئی مکمل تصویر بنانے کی کوشش کریں گے۔ اس وقت تک وہ مسئلہ کی الف ب تک پہنچنے کی صلاحیت بھی حاصل نہیں کر سکتے۔نامزد نمائندہ کمیٹیوں کی حالت بھی یہی ہے۔ اس لئے کبھی یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سب گروہ تو مذاکرات میں شامل نہیں ہیں اور بعض ناراض گروہ تخریب کاری کے ذریعے ان مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔ جبکہ کبھی یہ تلقین کی جاتی ہے کہ صبر حوصلے اور ضبط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ آج بھی دونوں کمیٹیوں کا جو اجلاس منعقدہ ہؤا ہے، اس کے نتیجے میں افواہوں کے سوا کچھ سامنے نہیں آ سکا ہے۔ کوئی شخص یہ بتانے کے لئے تیار نہیں ہے کہ طالبان کے بے اختیار نمائندے اپنے اصل حکمرانوں سے جو ہدایات لینے گئے تھے وہ کیا ہیں اور حکومت نے اس پر کیا مؤقف اختیار کیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ طالبان کمیٹی نے دو روز تک طالبان کے مطالبات کی امانت کو اپنے سینے میں محفوظ رکھنے کے بعد سرکاری کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے۔ اس سے تھوڑی ہی دیر بعد پشاور کے شمع سینما میں 3دھماکے کئے گئے اور 13 افراد جاں بحق ہو گئے۔اس خون ریزی کے باوجود طالبان کے نمائندے اور ان سے بغل گیر ہونے والے سرکاری نمائندے سرخرو ہیں۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ اگر طالبان دھماکے کرنے والے تمام گروہوں کو قابو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو وہ مذاکرات کس حیثیت میں کررہے ہیں۔ اور اگر وہ یہ صلاحیت رکھنے کے باوجود مذاکرات کے ساتھ ساتھ دھماکوں کے ذریعے بات چیت کے اس عمل کو ‘‘بامعنی‘‘ بنانے پر مصر ہیں توحکومت کے نمائندے کس منہ سے ان قاتلوں کے نمائندوں سے محو گفتگو ہیں۔مولانا سمیع الحق مذاکرات کے دوران دھماکے کرنے والوں کو تو امن کا دشمن قرار دیتے ہیں لیکن 50ہزار لوگوں کو ہلاک کر دینے والے سینکڑوں دھماکے کرنے والوں کو معصوم اور کسی حد تک مظلوم قرار دینے پر مصر رہتے ہیں۔ اسی سیاسی خدمت گزاری کے عوض اپنی کمین گاہوں میں چھپے دہشت گردوں نے انہیں اپنا نمائندہ بلکہ نمائندہ وفد کا لیڈر بنا کر پیش کیاہے۔ لیکن موصوف اور ان کے ساتھیوں کی قدر و قیمت کل اس قدر ہے کہ نہ وہ طالبان کی بنیاد پرکوئی وعدہ کر سکتے ہیں اورنہ ہی انہیں دہشت گردی سے روکنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔ بلکہ ان کا مؤقف ہے کہ جنگ بندی کا جائزہ لیا جائے۔ یوں لگتاہے کہ دو ملک ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں جن میں اس وقت تک جھڑپیں جاری رہیں گی جب تک ان کے نمائندے باقاعدہ سیز فائر پر آمادہ نہ ہو جائیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ تاثر گمراہ کن اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ افواج پاکستان اپنے ہی ملک میں تعینات ہیں۔ مملکت کے تمام قوانین اور ضابطوں کے مطابق انہیں کسی بھی حصہ میں جانے، متعین کرنے، کارروائی کرنے یا پوزیشن لینے کا اختیار حاصل ہے۔ اس کا فیصلہ عوام کے منتخب نمائندے اور ان کی حکومت اپنی ضرورت اور صوابدید کے مطابق کر سکتی ہے۔ اس لئے افواج پاکستان کی کارروائی ہر لحاظ سے قانونی اور اخلاقی و عالمی ضوابط کے مطابق ہے۔اس کے برعکس شدت پسند گروہ قانون شکن اور انسان دشمن ہیں۔ انہیں کسی قانون اور ضابطے کا کوئی احترام مقصود نہیں ہے۔ وہ چوروں کی طرح چھپ کر وار کرتے ہیں۔ کبھی ان کا نشانہ سکیورٹی فورسز کے قافلے ہوتے ہیں، کبھی وہ مذہبی اجتماعات، مساجد، نماز جنازہ یا اولیائے کرام کی درگاہوں پر حملے کرتے ہیں۔ کھلاڑی اور تفریح کے لئے نکلے ہوئے معصوم لوگ بھی ان کے ظلم سے محفوظ نہیں رہتے۔ یہ لوگ بزدلوں اور غیر قانونی عناصر کی طرح چھپک کروار کرتے ہیں اور خفیہ ٹھکانوں پر چھپ کر ہی ہدایات جاری کرتے ہیں۔ یہ سماج دشمن عناصرہیں۔ ان عناصر کو نہ صرف یہ کہ پاکستان کا آئین اور قانون قبول نہیں کرتا بلکہ قرآن و سنت کی کسی توجیہہ کے مطابق بھی انہیں کوئی جواز فراہم نہیں کیاجا سکتا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اس صورت حال میں مذاکرات کی صرف ایک ہی بنیادہو سکتی ہے۔ کہ یہ ملک دشمن اور گمراہ عناصر اپنے ماضی کے گناہوں کی معافی مانگیں اور عوام کی بنیاد پر حکومت کرنے والے لوگوں سے معافی کے طلبگار ہوں تب رائے عامہ بھی یہ کہنے پر آمادہ ہو سکتی ہے کہ اگر ایک گمراہ گروہ اپنی غلطی کااعتراف کر کے مستقبل میں تائب ہونے اور معافی مانگنے کے لئے تیار ہے تو ملک میں امن و سکون کی خاطر ان لوگوں کو معاف کر دیاجائے۔اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ دس برس کے دوران قتل و غارتگری میں ملوث گروہوں کے گناہوں کو سامنے لانے اور ان جرائم کی فہرست تیار کرنے کی بجائے جو دہشت گردی کے لئے وسائل فراہم کرنے کے لئے سرزد ہوئے ہیں۔یہ اصرار کیا جا رہا ہے کہ یہ بدطینت اور خونخوار لوگ اﷲ کے نام پر مصروف جنگ رہے ہیں۔ اور انہیں راضی کرنے کے لئے اﷲ کے دستور پر عمل کرناضروری ہے۔شکست خوردگی اور قومی بے حرمتی کی اس سے بدتر مثال انسانی تاریخ میں تلاش کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے آئین اور شریعت کی بحث، ایسے مفاد پرست عناصر کی طرف سے شروع کی گئی ہے جو کسی اصول ضابطے اور قانون کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ انتشار اور بدامنی کے پیامبر ہیں۔ ان کے سروں پر امن و مصالحت کا تاج سجانے سے ملک میں سکون و اطمینان بحال کرناممکن نہیں ہے۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 179805 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.