شاعری احساسات اور کیفیات کے
اس مجموعہ کا نام ہے جو زندگی کی اصل حقیقتوں کا غماز ہو، زندگی اور مقصود
حیات کی طرف راست رہنمائی کر رہا ہو، ورنہ تو ایسی شاعری کی بھی گرم بازاری
ہے جو نہ تو مقصود حیات کی طرف مشیر ہے اور نہ ہی زندگی اور عمرانی پہلو کے
تلخ مضمرات کو آشکارا کرتی ہے بلکہ ہفوات اور ہذیان گوئی کی طومار ہے جو کہ
خود ہماری تہذیب و اقدار پر ایک بد نما داغ ہے اور ادب کے زریں اصول کے سر
تا سر منافی بھی۔ تا ہم اس ہما ہمی اور گرم بازاری میں ایک معتبر نام حـضرت
عنبر ناصریؔ کا ہے جو اپنی شاعری ،جذبِ دروں اوراحساسات و کیفیات کے ابلاغ
و اظہار سے اس کا تدارک کر رہے ہیں ساتھ ہی اپنی فکر مند شاعری سے ایک ایسی
فضا تخلیق کر رہے ہیں جو قدیم رشتوں سے ہم آ ہنگ تو ہے ہی ،جدید رشتوں کی
بھی آئینہ دار ہے ،معاً ان خطوط کی بھی نشان دہی کر رہی ہے جو حیات انسانی
کا مقصود اوربالبداہت مطمح نظر ہیں ۔گویا حضرت عنبر ناصریؔقدیم و جدید
دونوں روایتوں کے امین ہیں، انہوں نے ان ترقی پسند شعراء کوآئینہ دکھا یاہے
جو مجہول سر مستیو ں کے شکار اور خیالی پلاؤپکانے میں بے فائدہ و قت کھورہے
ہیں ۔
غزلیہ شاعری ان حقیقتوں اور تلخ پسندیوں سے عبارت ہے جو انسانی زندگی کے ہر
ایک درد کا احاطہ کئے ہوئے ہو ــ،یقینا اس کے موضوعات وسیع ترین ہیں اوربہت
حد تک دل چسپ بھی تا ہم اس میں ایسے امو ر بھی بروئے کار لائے جاتے ہیں جن
سے اس وسعت کے باوجود تنگی کا احساس ہوتا ہے ۔ اور یہی پاکیزہ نفوس کے لئے
یک گونہ بعدکا سبب بھی بنتا ہے،حضرت عنبر ناصریؔان ہی وسعت بیانی کی سچی
تصویر ہیں۔ ان کی شاعری احساسات وکیفیات اور تہذیبی ورثہ کی قدردانی کی
عکاس ہے ۔ان کا فن تمام ترادبی نقا ئص اور فکری خامیوں سے پاک و صاف ہے ،ان
کا لب و لہجہ شستہ اور سوز پر کیف ہے ۔اختصار کے ساتھ کہیے تو ان کی شاعری
شاعرانہ نکات، زور تخیل اور تہذیب اسلامی کی آئینہ دار ہے ۔ حضرت عنبر
ناصری عہد جدید کے ان شعراء میں شمار ہوتے ہیں جو اپنی قدیم روایتوں کو حرز
جاں بنا کر جدت طرازی کے منازل روزبروزطے کرتے ہیں۔
حضرت عنبر ناصریؔصوبہ بہار کے مشہور علمی وادبی’’ خانوادہ ناصری‘‘ سے تعلق
رکھتے ہیں جو سلوک و تصوف کا رمز شناس تو ہے ہی ،علم وادب سے بھی اس کا
رشتہ اتنا ہی استوارہے۔ اگر شوق و تصور کی شادکامی چاہئے اور تصوف و علم کی
تلاطم خیزی کا ادراک ،توحضرت عنبر ناصریؔکی شاعری کا مطالعہ کرنا چاہئے
کیوں کہ ان کی شاعری ان دونوں راہوں کی جا مع اور محیط ہے ۔ان کی شاعری اگر
کشمکش حیات کا اظہار کرتی ہے تو قوم کی ابتری اور غفلت شعاری پر تازیانہ
بھی لگاتی ہے ۔ان کی شاعری کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں روح اسلامی
مکمل طور پر موجزن ہونے کے باوصف ادبیت کی چاشنی سے مملو بھی ہے۔ دیکھئے
ذرا ان اشعار کی نمکینی
نام سن کرکانپ جاتا ہے جواں شمشیر کا
شکوہ کرتا ہے شکستوں پر مگر تقدیر کا
کہتے کہتے واعظوں کا رنگ پیلا پڑ گیا
سننے والوں پر اثر کوئی نہیں تقریر کا
قوم مسلم کی پست ہمتی پرجرح کرتے ہوئے فقیدالمثال تشجیعی خطاب کیاہے اور یہ
خطاب خصوصاًزعمائے ملت کو ہے
کام کر نا ہے تو بے باکانہ حجرے سے نکل
اہل ہمت کے دلوں میں کیوں ہو ڈر زنجیر کا
ہے جبیں سجدے سے خالی، پر یہ جذبہ دیکھئے
فکر ہے اکثر دلو ں میں کعبہ کی تعمیر کا
«یہ اشعاربھی حضرت عنبر ناصری ؔکے شاعرانہ قد اور مرتبہ کو ثابت کرتے ہیں
کہ وہ کس بلند مرتبہ کے شاعر ہیں ۔بلاغت اپنے منتہاکو پہونچی ہوئی ہے،حقیقت
کا ادراک اور عمرانی کشمکش کا جس مثبت پہلو سے اظہار کیا ہے وہ دیگر ہم عصر
وں میں پائی نہیں جاتی ۔خودی کا درک وشعور اقبال کا ایجاد کردہ ہو توہولیکن
حضرت عنبر ناصریؔ کی خودی بھی ارتقائی منزلوں کی تعیین کنندہ ہے،معلوم ہے
کہ امیر کے درکی باریابی اور حاضری غرباء اور درویشوں کیلئے ہتک عزت سے کم
نہیں پیغمبرﷺبھی یہ بات کہہ گئے ہیں بئس الفقیر علیٰ باب الامیر، امراء
اپنی شان خسروانہ اور تخت امارت کے نشہ میں مدہوش ہیں اور غرباء اپنی غیور
غربت اورقلندرانہ درویشی میں مگن ۔ایسا نہیں کہ درویش امراء کی دربار کی
حاضری کو سعادت سمجھیں۔ حضرت عنبر ناصریؔنے بطور تکملہ قطعی الثبوت لہجے
میں کہا ہے کہ امراء ان درویشوں کو حقیر نہ جانیں اور درویش بھی ان امراء
سے دوری بناکر رکھیں،اور اپنی خودی کی پرور ش کریں کہ یہی ہے شان قلندری۔
حضرت عنبر ناصریؔ جن کا اصل نام’ فضیل احمد ناصری ‘ ہے،بر صغیر کی مشہور
اسلامی تعلیم گاہ دارالعلوم دیوبند کے مستند فاضل ہیں ،اردو ،فارسی اور
عربی کے ماہر لسانیات ہیں۔ تاریخ وسیراور دیگر اسلامی علوم و فنون میں کامل
دستگاہ رکھتے ہیں، ان کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ پختہ ہے ،مدت سے مفتیان
ادب کو یہ شکا یت رہی ہے اور یہ کسی قدر مبنی بر محل بھی ہے کہ مدارس کے
افراد اس فن سے نا بلدہی نہیں،اس سے سخت بُعد اور تنفر بھی رکھتے ہیں اور
اس کو شجر ممنوعہ قرار دے رہے ہیں ،یہ غلط فہمی جانے کب پیدا ہوئی اور کیوں
؟ وجہ تو معلوم نہ ہوسکی ،وجہ چاہے جو بھی ہو ،حضرت عنبر ناصری نے جس شان
استغناء کے سا تھ اپنے وجود کا اعلان کیا ہے اس سے نہ صرف یہ کہ اردو شاعری
کے باب میں ایک زریں اضافہ ہوا ہے بلکہ غلط فہمی کے شکار افراد کی خدمت میں
ان کے فہم بے معنی کی خوبصورت تردید بھی ہوگئی ہے ۔در اصل غلط فہمی کے شکار
افراد تزویر نفسی کے شکار ہیں ورنہ یہ سو ء ظن پیدانہیں ہوتا ۔انھوں نے
اپنی شاعری سے خواہ وہ غزلیاتی کیف وسرور میں ہو یا نظمیہ سنجیدگی میں، غلط
فہم افراد کے وہم کو دور کر کے ایک مثبت راہ کی تعیین کی ہے ۔ ان کی شاعری
’’بت عریاں ‘‘’’آئینہ سیما ‘‘’’فتنہ ٔمہ رخاں‘‘ اور ’’ادائے ستمگر‘‘ کی
قصیدہ خواں نہیں۔اور نہ فقط ’’سوزش جگر‘‘ ’’دردجدائی ‘‘’’نالۂ ہجراں‘
‘اور’’ فغان مہجور‘‘ کی سرمستیوں اور د ل فگا ریوں کی عکاس ہے،شاعر موصوف
در حقیقت حیات اور مقصودحیات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور جاوداں خطوط کی
سمت اشارہ ،کیوں کہ یہ کسی پر مخفی نہیں کہ انسانی قدریں کس درجہ انحطاط
اور زوال پذیرہورہی ہیں عالم یہ ہے کہ آفاقی اسباق بھی بھلادئیے گئے ۔راقم
یہ وضاحت ضروری تصور کرتا ہے کہ ان کی شاعری کے کسی بھی پہلو میں حسرت ویاس
نہیں بلکہ راحت اور مسرتیں ہیں ،ہاں البتہ غم اور درد ہے اوران کا غم غم
قوم اور درد درد ملت ہے ۔زندگی کی کلفتوں کو وہ راحت گمان کر تے ہیں، ان کی
شاعری اس سمت کو بھی واضح کرتی ہے اور یہ کلفتیں زندگی کو معراج عطا کرتی
ہیں یقینا انھوں نے جس طرز فغاں کو اپنی شاعری کا سوز دیا ہے وہ نوائے سروش
اختیار کر گیا ہے
تیرہ و تار رات ہے، منزل پہ کوئی جائے کیوں؟
خود گم ہے ہر بشر یہاں،رستہ کوئی بتائے کیوں؟
کہتے ہیں یاں فریب کو، عقل وخرد کی چوکسی
اپنوں سے سب کو بیر ہے غیروں کا غم اٹھائے کیوں؟
دنیا میں اب غریب کا، کوئی نہیں ہے غم گسار
جاکر کسی امیر کا دروازاہ کھٹکھٹائے کیوں ؟
دونوں ہی جب شریک ہیں بزم کے خوب و زشت میں
ہم دھوپ دھوپ کیوں چلیں وہ جا ئیں سائے سائے کیوں؟
حسن پرزور جب نہیں، عشق پر زور کیوں رہے
میری فغان وآہ پر، بندش کوئی لگائے کیوں؟
یہ غزل کے وہ اشعار ہیں جو ان کے پرواز تخیل کے مظہر تو ہیں ہی، فن پرکامل
دسترس کی واضح تصویر بھی ہیں۔ غزلیاتی کیف و عنصر میں وہ ’’بت عریاں‘ ‘کے
مداح نہیں، تلاطم خیزیاں اپنے شباب پر ہیں لیکن ان کا اپنی فکر اور اپنی
رائے کو مثبت انداز میں رکھنے کا سلیقہ قابل تحسین ہے ۔الفاظ ہلکے پھلکے
ہیں تا ہم معنی آفرینی کی حسین ترین جلوہ گاہ بھی ۔مغربی تہذیب سے تعشق
وتعبدجوکہ اسلامی اور مشرقی تہذیب کا گلا گھونٹ رہا ہے اور اسلامی اقدار
وتمدن کے دعوے دار جس شوق فراواں کے ساتھ اس کو اپنے ساتھ ضم کر رہے ہیں
ایسے میں کون بیدار مغزہے جس میں بے کلی پیدا نہ ہو ،عنبر ناصر ی نے اپنے
کلام میں اسی کا رونا رویا ہے اور اپنے سوزدروں اور حسرت پیہم کا اظہار کیا
ہے۔انھوں نے اس شق اور مبحث کو موضوع ِسخن بنایا ہے جس کو غلط فہم افراد شک
کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔مجموعی تاثر یہ ہے کہ حضرت عنبر ناصری کی شاعری اسی
صدا کو بلند کر رہی ہے جس صدا کے حامی غلط فہم افراد ہیں، ملاحظہ فرمائیے
ذیل کے یہ چنداشعار
عصر نو کی بیماری دور ہو تو کیسے ہو
ہر حکیم خوابیدہ، بند ہر شفا خانہ
دل لگی نہ تم کرنا مہ رخوں سے ا ے عنبر
ورنہ لٹ ہی جائیگا یہ بھی تیرا کاشانہ
جو کچھ ہے بس انھیں بت عریاں بدن میں ہے
باقی رہی نہ اب کوئی مستی شراب میں
عریانیت کا بھاؤ ہے اتنا بڑھا ہوا
کپڑے کی کمپنی ہے سدا پیچ و تاب میں
یہ وہ مختلف اشعار ہیں جو تہذیبِ نو اور برہنہ اقدار پر ضربِ کلیم کی حیثیت
رکھتے ہیں، ان میں کہیں تہذیب نو کی تضحیک وتنقیص ہے تو کہیں نسل نو کی
تہذیب فرنگ کیساتھ تعشق و تعبد پر زجر و توبیخ بھی ۔کہیں برہنگی پر ملامت
ہے تو کہیں مقدس صنف کے ساتھ الجھے ہوئے مسائل کا احاطہ اور ان مسائل کا حل
۔ حضرت عنبر ناصری نے بھر پور طریقے سے تہذیب مقدس کا دفاع کیا ہے اور
موجودہ نسل کو خبردار کیا ہے کہ سا ت سمندر پار سے آنے والی تہذیب فرنگ
مشرق کیلئے نا سور ہے ۔ان اشعار میں تخاطب کا جو رنگ اور کیف ہے وہ منفرد
اور فقیدالمثال تو ہے ہی اس میں وہ رنگ و کیف اوروہ سوز بھی پنہاں ہے جو
سوز آ فاقی رشتوں سے ہم آہنگ ہے ۔اور لاریب یہی ہم آہنگی اور ربط ان کا
خمیر ہے۔لفظ لفظ صداقت ہے اور تہذیب نو کی پشت میں اسلامی خنجر کی ایسی ضرب
کاری کہ تہذیب نو لہو لہان نظر آتی ہے ۔اسی اسلامی خنجر کی ضرب کاری
’’آوارہ ممبئی‘‘ کے عنوان سے ایک نظم بھی ہے ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
کہتے ہیں ممبئی کے ہیں انساں کھلے ہوئے
سب کے لئے سب کے دل و جاں کھلے ہوئے
رنگیں یہا ں کی صبح ہے، رنگیں یہاں کی شام
زلفیں کھلی ہوئیں تو گریباں کھلے ہوئے
بگڑے ہوؤں کے واسطے ہوٹل کا انتظام
اچھو ں کے واسطے درِ زنداں کھلے ہوئے
تہذیب نو کا ان پہ وہ نشہ چڑھا ہوا
پردہ کو دیکھ ان کے ہیں دنداں کھلے ہوئے
ادغام لب ہو یا کہ جوارح کا انضمام
ہوتے ہیں سب عوام کے دوراں کھلے ہوئے
اس نظم کے کئی اشعار کے نذر قارئین کا مقصد بس یہ ہے کہ ممبئی کی آوارگی،
تہذیب نو کی دیوانگی، برہنگی سے وارفتگی اور مشرق سے برہم زندگی کی مکمل
تصویر عیاں ہوجائے۔انھوں (عنبر ناصری )نے جس فنی حذاقت اور کامل واقفیت کے
ساتھ ممبئی کی کھوکھلی حقیقت کو بیان کیا ہے اس سے فنی مہارت نمایاں تو ہے
ہی، طوفان بلا خیز کی تباہی کو بھی سمجھا جاسکتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ
سارے بھارت کی بدکاریاں ایک طرف ہیں اورممبئی کی ایک طرف ۔ اگر موازنہ کریں
تو ممبئی کی بد کاریوں کا قد اور وزن بلند و ثقیل ہوگا ۔یہ تو عصر حاضر اور
تہذیب فرنگ کی پشت پر ان کی ضرب کاری تھی اور قوم و ملت اور ملکی عوام کے
تعشق وتعبد پر ماتم وگریہ کہ افسوس !شعائر اسلام کے دلدادہ اور مشرقی تہذیب
کو حرز جاں کہنے والے افرادکس کثیف اور جہنم رسیدہ راہوں کے متلاشی ہیں !ان
کی سنجیدگی اور فطرت و قدرت کے مقتضیات کے خطوط کی رہنمائی اور حیات تا
بندہ کے اعلیٰ مطمح نظر اور مقصود کی طرف اشارہ بھی ملاحظہ کیجئے کہ انھوں
نے (عنبر ناصری) کن کن شاعرانہ نکات اور غزلیاتی کیف وسرور کے زیرو بم کو
اپنی پر کیف اور سدا بہار شاعری میں جگہ دی ہے، مذکورہ نظم میں ظرافت کا
رنگ اور ظریفانہ پہلو کا کوئی بھی شمہ نہیں بلکہ وقار اور سنجیدگی کی تمکنت
بحال ہے وہی سنجیدگی اور وقار فطرت و قدرت کے مقتضیات میں سے ہے۔اعلیٰ مطمح
نظر اور سر فرازیٔ ذوق کی طرف رہنمائی ان کے فطری سوز اور غزلیاتی کیف
وعنصر میں ملاحظہ کیجئے، اس ذوق بے خودی اور کیف کے قوس و قزح میں واحد
متکلم کی فراموشی بلکہ خود فراموشی ان کے یہاں مفقود ہے بلکہ اس سوز اور
کیف وعنصر کے رنگ و ترنگ میں خود کو غرق کر دیتے ہیں اور پھر اسی رنگ و
ترنگ اور سوز میں گویا ہوتے ہیں۔ درج ذیل اشعار میں ان کے علمی قد وقار و
شان اور سوز کو دیکھئے
ملا نے ترک دیں کیا دستار پھینک کر
پنڈت بھی دیر سے گیا زنار پھینک کر
بد مذہبی کا دور ترقی یہ دیکھئے
دنیا خرید لیتے ہیں کردار پھینک کر
اس فطری سوز میں جو پنہاں نوائے سروش ہے اس میں’’ حرم کے ملا ‘‘کو’’دیر کے
پنڈت ‘‘اور’’ کلیسا کے راہب‘‘ بلکہ ہر قوم کے بگڑے اور مذہبیات سے دور
مذہبی پیشوا کو خطاب کیا گیا ہے کہ دستار و زنار کے وقار اور شوکت کو محض
چند کھوٹے سکو ں کے عوض پامال نہ کیا جائے ۔کلی تاثر یہ ہے کہ دیر کے پنڈت
تو دور کی چیز ہے ’’ملا ‘‘جو حقیقتا ًعرفان حق کا مدرک ہوتا ہے وہ دین سے
تغافل کیشی کا شکار ہو کرشعائر حق کی پامالی اور بے وقعتی کی وجہ نہ بنے
کیوں کہ ’’ملا‘‘ جس نوعیت سے حق آگاہ ہوتا ہے وہ حق آگاہی’’ دیر کے
پرستار‘‘ کے حق اور نصیب میں کہاں ؟یہ خطاب تو در اصل ’’ملا‘‘کو ہے تا ہم’’
دیر کا پرستار‘ ‘ضمناً مخاطب ہے ۔با مقصد زندگی اور حیات ابدیت کے جو روشن
پہلو ان کے یہاں نمایاں ہیں وہ دیگر ہم عصر وں میں مفقود ہیں
قلب روشن کو وا کرے کوئی
نقش حرف وفا کرے کوئی
جب ہو یہ حال مہ رخاں تو دل
کیوں کسی پر فدا کرے کوئی
میں قفس ہائے عشق خوباں میں
پھنس گیا ہوں رہا کرے کوئی
انسانی قدریں اور تہذیب کو در اصل زندہ قومیں اور بیدار قومی صلاحیتیں
زندہ اور متحرک رکھتی ہیں اور یقینا قومی قوتیں ایسا سرمایہ ہیں جو تحفہ
آفاق ہیں۔اگر یہ قوتیں متحرک اور فعال نہ ہوں تو قومی اور شخصی زندگی مفلوج
ہو کر رہ جاتی ہے۔قومی قوتوں کو اس جذبہ سے بھی عبارت کہنا چاہئے جو جذبہ
ایک کا دوسرے سے ہوتا ہے ۔حضرت عنبر ناصری نے اسی جذبہ اور درد کے فقدان
اور دم توڑتی ہوئی قومی قوتوں کا تذکرہ کیا ہے کہ آخرش ہے کوئی جو اس تیرہ
وتار عہد میں اپنے قلب روشن کی تابانی اور تابندگی سے ان ظلمتوں کو کافور
کرے اور ان ٹوٹتے رشتوں کو ایک مضبوط اور عہد ساز رشتے سے جوڑ کر حرف وفا
کی مہر ثبت کرے لیکن متواتر اس صدا کی طرف رجحان نہ ہونے کے باعث اور قومی
قوتوں کے جمود تسلسل اور تعطل سے نالاں ہو کر بطور تازیانہ چیخ اٹھے کہ
میری یہ صدا لغو کیوں قرار پارہی ہے؟ بہتر تو یہی ہے کہ ان خوابیدہ قوتو ں
کو مزید خواب خرگوش میں رہنے دیا جائے ۔وہ خفا ہیں تا ہم ان کی خفگی اور
ناراضگی ایسی نہیں کہ ان کو اپنی حالت پر چھوڑدیا جائے بلکہ انھوں نے
جھنجھوڑا ،حرکت دی، قوم جاگ بھی گئی اوربا ہم یک زباں ہو کر یہی نعرہ بلند
کر رہی ہے کہ قفس ہائے عشق خوباں سے نجات ہو تو کیسے ہو اس کے عوامل کیا
ہیں ؟کہ اس زنجیر بلا قید سے رستگاری ہو جائے ۔
حضرت عنبر ناصری ایک ایسی آواز نہیں بلکہ صدائے سروش ہیں جوقوم کی بگڑی
ہوئی حالت پر گریہ و ماتم کناں ہیں تو بے حسی اور جمود و تعطل پر تازیانہ
بھی۔گویا وہ جدت کے لباس میں آتش رفتہ کا سراغ ہیں جو جدت کے مذاق کے ساتھ
ساتھ عہد رفتہ کی آئینہ داری بھی کرتے ہیں ۔ان کایہ شعری سفرجاری ہے
اورقدرے سرعت کے ساتھ جادہ پیما ہے،راہ میں دشواریاں گرچہ ہیں تاہم ان کی
بلندہمتی ان دشواریوں کوپامال کررہی ہے ایک ایسی منزل کی طرف کہ جہاں صرف
اورصرف سرفرازی اوربلندی ہے۔ ان کے قریب بہ اشاعت مجموعہ کلام ’’حدیث
عنبر‘‘کا یہ شعر با لکل سچ ہے اور سو فیصدسچ
ہرلفظ ہی اک فن پارہ ہے ارباب ادب کی نظروں میں
لاریب کہ سچا موتی ہے ہرشعر حدیثِ عنبر کا |