ہمارے ملک کی کتنی بد قسمتی ہے
کہ اتنے وسائل ہونے کہ باوجود ہم بجلی کے بحران سے گزر رہے ہیں۔ دنیا میں
بجلی پیدا کرنے کے جتنے بھی طریقے ہیں وہ ہمارے پاس موجود ہیں۔ سوائے تیل
کے اور ہم تیل ہی سے ٦٠٠٠ میگاواٹ مہنگی بجلی پیدا کر رہے جو ٨ روپے فی
یونٹ پڑ رہی ہے۔ اگر ہم یہ ہی بجلی کوئلے سے پیدا کریں تو ٢ روپے فی یونٹ
پڑے گی۔ ہمارے پاس کوئلے کے ذخائر بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔ سندھ میں
جو کوئلے کے ذخائر ہیں وہ سعودی عرب اور ایران کے تیل کے ذخائر کے برابر
ہیں ان ذخائر کے صرف دو فیصد سے ٤٠٠٠٠ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس
کے باوجود ہماری حکومت رینٹل پاور پروجیکٹ خریدنے جارہی ہے جو مہنگا ترین
منصوبہ ہے۔ اس مہنگے منصوبے کے بیان میں حکومت یہ صفائی پیش کرتی ہے کہ اگر
ہم دوسرے پروجیکٹس پر کام شروع کرتے ہیں تو اس میں ٥ سال لگتے ہیں جبکہ ہم
نے دسمبر تک لوڈ شیڈنگ کا خاتما کرنا ہے۔ ٹھیک ہے حکومت دسمبر تک لوڈ شیڈنگ
کا خاتمہ ضرور کرے لیکن ساتھ ساتھ ہائیڈرل اور دوسرے پرمانینٹ پروجیکٹس پر
بھی ابھی سے کام شروع کر دے کہیں پانچ سال کے بعد آنے والی حکومت پھر ہمیں
دسمبر تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے رینٹل پاور پروجیکٹس کا تحفہ دوبارہ ہی
نا دے دے۔ اس لیے حکمرانوں کو چاہیے کے اس مسئلے پر توجہ دیں جو معیشت کے
مسائل کی جڑ ہے۔ ورنہ عوام کو مکے دکھانے والے مشرف کی طرح کا حال آپ کا
بھی ہو گا۔ |