میڈیا کے اس دور میں ہر بات ممکن
ہے کیونکہ جس بات کو اس میڈیا پہ پزیرائی مل جائے وہ عوامی حلقوں میں کسی
بھی نئی بحث کے آغاز کا باعث ہے، مگر یہ بات بھی روز روشن کیطرح عیاں ہے کہ
پاکستان میں عوام کا سیاست کی سہ رخی پالیسی کے باعث اعتبار اٹھ چکا ہے اور
عدم دلچسپی کا اظہار نمایاں ہے، کیونکہ ایک طرف عوام کی کمر تو مہنگائی نے
توڑ دی ہے تو دوسری طرف توانائی کا بحران کسی عفرییت کیطرح ہر شے نگلے جا
رہا ہے۔ لہٰذا معاشی بد حالی، غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ
زندگی سے تنگ آچکے ہیں، جو تو کچھ حیثیت رکھتے ہیں وہ ملک چھوڑ کر بیرون
ممالک ہجرت کر رہے ہیں اور باقی بدحالی کا شکار دیوار سے لگے کھڑے ہیں۔
البتہ اقتصادی اور معیشت کے تمام شعبوں میں ذہین ترین لوگ موجود ہیں مگر ان
کی افادیت لا حاصل کیونکہ ان کی صلاحیتوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا
اور کوئی جامع پالیسی وضع نہیں کی گئی، بلکہ کشکول لیکر امداد کیلئے دنیا
میں مارے مارے پھرتے ہیں اور آئی ایم ایف اور علمی بینک کے قرضوں تلے دبے
جا رہے ہیں۔
اب جبکہ سپریم کورٹ کے3 نومبر کے فیصلے کے بعد سابق جنرل لندن سے یورپ
Cruising (بحری تفریح) کے لیے جا چکے ہیں، آج سابق صدر پرویز مشرف کے بارے
میں یہ بحث جاری ہے کہ انہوں نے آئین کو توڑا ہے اور آئین کے آرٹیکل 6 کے
تحت کاروائی کی جائے یا نہیں؟ کیونکہ جو شخص آئین کو توڑے گا اس کے خلاف
سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جائیگا۔ اگر پرویز مشرف کے حالیہ بیانات کو
دیکھا جائے تو کہیں نظر نہیں آتا کہ وہ اپنے ماضی کے کیے پر شرمندہ ہیں یا
انہیں کسی قسم کی کوئی پیشمانی ہو۔
یہ بات تو واضع ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک آئین شکن اور
اپنی ذات کی خاطر اس ملک کے ہر ادارے کو تباہ کرنے والے آمر کے احتساب کا
وقت آچکا ہے تو کچھ حضرات اپنے منطق اور دلیل کی بنیاد پر پرویز مشرف کے
خلاف سنگین غداری کے مقدمے اور سزا کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف کو
بھول جانے اور ہمیں مستقبل کی فکر کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ مشرف کے
تمام جرائم تسلیم کیے جا رہے ہیں مگر اس کیلئے سزا یہ تجویز کی جا رہی ہے
کہ اسے فراموشی کے تاریک کنویں میں پھینک دیا جائے ۔
اگر مشرف جیسے شخص جن کے جرائم کی لسٹ بہت طویل اور نہایت سنگین ہے کیلئے
کوئی جسمانی سزا نہیں تو پھر ہمیں عدالتوں، پولیس اور جیلوں کی کیا ضرورت
ہے۔ اگر ایک عام ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر سزا اور جرمانہ دیا جاتا ہے
تو آئین کی دھجیاں اڑانے والے کیلئے عام معافی کیوں؟۔ عدل و انصاف کے شعبہ
میں عدالتی نظام بھی امریت کے شکنجے میں رہا ہے اور حال ہی میں وکلاء اور
سول سوسائٹی کی بھرپور تحریک آخر رنگ لائی اور 16 مارچ 2009 ء میں تمام جج
بحال ہوئے اور ایک آزاد عدلیہ سامنے آئی جس سے عوام کو بہت سی توقعات
وابستہ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیا سیاسی ماحول اور اسکا رد عمل کونسے
جمود کو توڑنا چاہتا ہے؟
اگر گزشتہ ایک دھائی پہ نظر ڈالی جائے تو یہ واضع ہوتا ہے امن و امان کی
صورت حال تو ایک طرف، ملک پاکستان میں کسی شبعہء زندگی میں کوئی خاطر خواہ
پیش رفت نہیں ہوئی۔ ابھی حال ہی میں ہم اپنا 63 واں یوم آزادی منا چکے ہیں
مگر حال یہ ہے کہ ان گزشتہ برسوں میں عوامی آزادی کا گراف نیچے کیطرف آتا
نظرآ رہا ہے۔ عوام جس چکی میں پس رہے ہیں اسکا کیا حل نکالا گیا ہے؟ ضرورت
اس بات کی ہے کہ میڈیا کی ترجیحات عوامی بد حالی اور انکے مسائل کے حل کو
ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قائم ہونی چاہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ |