ہمارے معاشرے میں لوگوں کا غیر سیاسی رویہ

آج کل ہوٹلوں پر اکژ ڈبل گریبی سے پرہیز کریں ،ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں ،500 اور 1000 والے افراد پہلے کاونٹر سے معلوم کریں کے ساتھ ساتھ سیاسی گفتگو منع ہے،کا لوٹ بھی لکھا ہوا ملتا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ دکانوں ،گھروں ،اسکولوں ،کالیجوں ،یونیورسٹیوں ،نصابی کتابیوں حتیٰ کہ واش روم میں بھی سیاسی گفتگو منع ہے پارلیمنٹ و اسمبلیوں میں منع نہیں ،کیوں منع نہیں یہ پوچھنا منع ہے۔

دنیا کے نامور فلاسفر اور سیاست کے باپ ارسطو اور باقی سب اصیا ں یا باقی کوئی اور رشتدار ہے اس نے انسان کو سیاسی حیوان قرار دیا ہے شکر ہے معاشی اقتصادی یا وحشی انسان قرار نہیں دیا۔

خدادادِمملکت پاکستان میں قراردادِمقا صد کے مطابق سب حکمران اﷲ کی طرف سے آئیں گے جو کے آج تک آرہے ہیں ۔کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں یہاں ایک آنکھ سے کانا ،کاندھوں پر اڈھائی کلو کے ستارے و میڈل سجائے ہوئے اور 6 بائے 2 کی موچھوں کے ساتھ ایک حکمران آیا ،چوں کہ وہ ایک آنکھ سے کانے تھے اس لیے سب کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے ،اس نے ملکی سیاست میں نہ مٹنے والی یادیں چھوڑیں ہیں اس کو صفائی کا بہت خیال تھا اس کے زمانے میں ملک کی چلیں کراچی کی ایم اے جناح روڈ کا منظر دیتی تھیں بچوں اور جانوروں کو میمپرز پہنانے کی روایت بھی اسکے دورِ حکومت میں چلی۔

ہماری سیاست میں اچانک پرانے زمانے میں کوئلے پے چلنے والی ٹرین کی طرح ایک آواز آتی ہے،بولنے والا دیکھائی نہیں دیتا پر اس کی آواز کی اردگرد لوگ ایسے اکھٹے ہوتے ہیں جیسے چیونٹیا ں مٹھائی ہے ،پھر پتہ چلنا ہے ارے میاں ! یہ تو باہر کی آواز ہے ،کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ چار وناں وپیار اوربا ! بڑی لمبی جدائی ! لوگ اس آواز کی مٹھا س پر جمع ہوتے ہیں بھئی یہی تو اصل سیاست ہے بیٹھو باہر اور باتیں اندر کی کرو وہ الگ با ت ہے کچھ پتہ ہو نہ ہو۔

سیاست کو زیادہ صا ف و پاک کرنے کے لیے لسا نیت کے ہنر کی ما نند انٹا ر ٹکا کی گھنی برف سے پہار جیسا ایک آدمی ملتا ہے جو مذہب و سیاست کو ملاکر دین ودنیا الگ کی بات کر تا ہے حلوہ اور دودھ کھانے پینے کا کوئی موقع ضا ئع نہیں کرنے کا قائل ہے اس کے مطابق امریکا مخالف کُتا بھی جنت میں جائیگا ارے میاں ! پھر ہم کیوں جائیں گے ! آپ کہا ں جائیں گے!

کسی نے کہا خوب ہے زمانے کے دیکھے ہیں رنگ ہزار ایک صاحب ہمیشہ چین ،روس ،امریکا گھومتا رہا پر بہاول نگر بھول کر بھی نہیں آیا ، تقریر میں ایسا بولتے مٹک توڑ دے اور ساتھ ملنگ کی طرح ناچنے لگے جند پوری کرنے میں اتنا سخت کہ لینے آجائے ،جھوٹ تو اسکے منہ سے بھو ل کر بھی نہ نکلے اسکا جیتا جاگتا ثبوت یہ کہاس نے ہر مہینے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے کئے پر ا جتک وہ ختم نہ ہوئی لوگ بچارے و عدوں کے مطابق ختم ہونے کی راہیں دیکھتے خود اپنی راہیں بھول گئے

لوجی یہاں کے سیاست کے رنگ بھی دیکھ لو،انقلاب چاہیئے سب اسلام آباد چلو ،بس پھر کیا سب بچے ،بوڑھے ،مرد اور خوا تین انقلا ب کے پیچھے دوڑ پڑے جیسے انقلا ب اسلام آباد میں چُھپا کوئی دہشتگرد ہو ۔خیر انقلا تو نہ آیا ہر ہفتے تک ان لوگوں کی نگاہیں اسلام آبا د کی سردی میں انقلاب کی راہ دیکھتی سوکھ گئی ۔پھر اچانک رات کو وہ موصو ف ان لوگوں کے خواب میں آیا ۔مبارک ہو! مبارک ہو! انقلاب پکڑا گیا بہت شیطان تھا سردی کی قلہ سے ایک فرم کینٹیر میں چُھپا بیٹھا ۔آپ کی کامیابی ہوئی مبارک ہو،اب جا ن چھوڑو ، مجھے باہر جانا ہے انقلاب آپ کے گھر میں خوشحالی لے کر جلد پہنچ جایئگا ۔

لوجی یہ بھی دیکھ لو ۔اس موصوف کے بیٹے ،پوتے ، اپنی ڈیوٹیوں سے عمرے پوری کرنے کی وجہ سے ریٹا ئیر ہوگئے ۔ پر اس صاحب کا خیا ل ہے ــــــ '' ابھی تو میں جوان ہوں '' کبھی سنا تھاآ ل دیکھ بھی کیا کہ پیار پرانا نہیں ہوتا اس کا سیاست سے اتنا گہرا پیار ہے کہ جو بھی کر والو ۔پر پیاری کرسی نہ چھینو ۔کہتے ہیں اس موصوف کے پیچھے ایک شکتی ہے جو اسے چلا رہی ہے وہ سبز رنگ کی ہے یہ صا حب جب اُسے پیتے ہیں تو کچھ بھی کرواتے ہیں اسے اپنی اس شکتی سے اتنا پیار ہے ایک دفعہ سندھ میں سیلاب آیا لوگوں نے پوچھا سائیں ! سندھ دوب رہا ہے تو صاحب نے کیا تاریخی جواب دیا ،ا رے بابا ! سند ھ ڈوبے تو ڈوبے مگر میری وہ شکتی نہ ڈوبے ۔اُسے سندھ کی تعلیم بہت عزیز ہے اسلئے وہ طلبہ لیپ ٹاپ تو نہ دے سکا پر شکتی والے ڈنڈے کونڈے دینے کو کہا جو اس بچارے کے بس میں تھا ۔

اب آ پ ہی اندازا لگائیں جب ایسے جوان ہوشیا ر ،ایماندار ، حب الوطن سیاستدان ہونگے اور وہ ایسے سیاست کرینگے لوگ اسی اتنا ہی اچھا سمجھے گے کہ اس کے پاس تک نہ جائیں گے

لحا ظہ خبردار! مملکت ِخداداد کا ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے آپ کا یہ فرض ہے آپ سیاست سے کنار ہ کشی کریں اور مملکت کے عمور کے بارے میں جاننے کی کوشش نی کریں کیوں کے یہ ٹینشن ،جنجھجٹ ،وقت کا ضیاء اور صحت کے لیے مضر ہے کیوں کے اس سے عوام اکھٹا ہو کر اپنے حقو ق کے لیے جدو جہد کرتے ہیں اور معاشرتی مسا ئل اور اس کے حل کا سوچتے ہیں ۔
HAFIZ SHOAIB
About the Author: HAFIZ SHOAIB Read More Articles by HAFIZ SHOAIB: 2 Articles with 1438 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.