عشق حقیقی

 انسان ماضی کے جھروکوں میں جھانکے توکئی سبق اموزکہانیاں، مناظرو نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ہر کہانی و ہر واقعے میں انسان کے لئے نیا سبق ہوتاہے،تاریخ انسانی سے ثابت ہے کہ کائنات میں جتنے بھی عظیم لوگ گزرے ان کی اکثریت کا تعلق غریب گھرانوں وغربت سے رہا ہے،اور جب جب وہ کار زار محبت میں واردہوئے توآزمائشوں وامتحانوں کو منتظر پایا پھربھی سرخرو ہوئے،وقت کے جور وستم نے بار ہا جھنجھوڑا،نچوڑالیکن مٹی کے وہ پتلے اپنی دھن کے پکے، آہنی و فولادی ارادوں کے آمین ،سینے میں،عشق و محبت کے انمول جذبے بسائے و سجائے طوفانوں و آندھیوں میں صبر و استقامت سے کی مثال بنے اور ثابت کیا کہ اﷲ رب العزت کا زمین پرانسان کو اپنا’’ نائب وخلیفہ‘‘ منتخب کرنے کا فیصلہ مبنی بر حق تھا اورہے،تاریخ عشق و محبت کی ایسی لازوال کہانیوں سے مذئین ہے کہ جنہیں جان و مان کر انسان ،انسانیت کے وہ راز جان سکتا ہے جن میں تخلیق انسانیت کی حکمت پہناں ہے۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب دنیا کفر وشرک کا گہوارہ تھی ۔سیدنا حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو اﷲ پاک نے عظیم مقصد کے لئے منتخب کیا، جو آپ نے بطریق احسن نبھایا ۔اﷲ تعالیٰ نے آپکی نسل کو بڑھانے و پھیلانے کا وعدہ فرمایا۔آپ کی عمر مبارک ڈھلنے لگی،آپ نے تو صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیا لیکن حضرت سارہ کے اسرار پر آپ کوان کی کنیزحضرت بی بی ہاجرہ سے نکاح کرنا پڑھا ، جن سے حضرت اسمائیل ؑ پیداہوئے۔طویل انتظار کے بعد عمر کے اس حصے میں بچے کی پیدایش اور اس بچے سے غیر معمولی و والہانہ عقیدت و پیا ر ایک فطرتی عمل تھا ۔لیکن رب کائنات کو کچھ اور ہی مطلوب تھا،اﷲ نے چاہا کہ وہ اپنے اس بندے کا امتحان لے ،کہ اس کا اپنے خالق و مالک سے عشق ویسا ہی ہے یا اولاد نرینہ کی محبت اس پہ حاوی ہو چکی ہے۔’’حکم ہوا کہ اپنے بیوی و نومولود کو بیاباں صحرہ میں چھوڑ آؤ۔اور اس طرح خالق نے اپنے محبوب بندے کو ایک طویل ہجر وفراق میں مبتلا کیا۔لیکن وہ اس آزمائش میں سرخروہوئے، بات یہاں ختم نہیں ہوئی ،وہ قیامت خیز انتظار اختتام پذیر ہوا ہی تھا کہ ایک اور آزمائیش آپ کی منتظر تھی ۔۔۔کہا گیا کہ اپنی سب سے پیاری چیز کو ہماری راہ میں قربان کرو۔۔۔ تب چشم فلک نے وہ منظربھی دیکھاکہ جس کی مثال روز قیامت تک دنیا عشق و محبت میں شائد ہی مل پائے گی جب آپ نے اپنی ’’محبت‘‘اپنے لخت جگر کی گردن پر چھری رکھ دی۔۔۔

دنیا میں ہر انسان کی خواہش ہے دولت شہرت عزت و طاقت ملے ۔لیکن ان کے ساتھ ساتھ ہر انسان کی کوئی نہ کوئی پسند،کوئی محبت ،کوئی عشق ضرور ہوتا ہے کچھ ایسا کہ جس سے وہ والہانہ عقیدت رکھتا ہے ، جسے وہ بے پناہ پسند کرتا ہے اس سے محبت کرتا ہے ،اس میں کوئی بھی چیز چاہے وہ خوبصورت ہو یا نہ ہو اس کے من کو بھائے وہ اس کے لئے کچھ بھی کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے ،ان کئی ایک چیزوں میں سے وطن بھی ایک ہے جو لوگوں کو اس عشق میں ویسے ہی جان سے گزرنے پر مجبور کر دیتا ہے جیسے شمع پروانے کو ۔۔۔تخلیق کائنات تو خالق حقیقی کا کرشمہ بے مثال ہے اور یہاں موجودات اس کی نشانیاں ہیں ۔ہمارے ارد گرد پھیلے خوبصورت رنگ و حسیں نظارے سب اس کے کارہائے نمایاں ہیں اور ہمارا دیس ’’جموں کشمیر‘‘ بھی بلا شعبہ قدرت کی اعلیٰ ترین نشانیوں میں سے ایک ہے ۔اور وطن سے محبت کا جذبہ کسی بھی انسان کے اندر زیادہ یا کم موجود رہتا ہے۔ہاں مگر وہ لوگ جو حکم قرآن کے مطابق اﷲ رب العزت کی نشانیوں پر غور و فکر کرتے ہیں تحقیق کرتے ہیں وہ اس کی کسی بھی تخلیق پر فریفتہ ہوتے ہیں تو وہ کیفیت انہیں یا تباہ و برباد کر دیتی ہے یادو جہاں میں آباد و شاد ۔۔۔کہ اگر وہ محبت عشق کا روپ دھارتے ہی اسے خالق سے غافل کر دے تو وہ برباد ہوا چہ جائیکہ اس محبت کی جستجو میں اپنے معبود کو پا لے،اس کے قریب کر دے تو وہ دو جہانوں میں کامیاب و بامراد ٹھہرا،اور وہ عشق جو معبود ملا دے وہی’’ عشق حقیقی‘‘ ہے اور اس کی نشانیوں سے پیارومحبت خود بخود ثانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے’’ عشق مجازی‘‘بن جاتا ہے،تو یوں وطن سے محبت تو سب کرتے ہیں لیکن صیح معنوں میں اس کے عاشق کم ہی ہوا کرتے ہیں ،اور وہ جو اپنے معشوق کی عظمت و شان کی خاطر قربانیوں کی تاریخ رقم کرتے ہیں بے شک وہ عاشق وطن ٹھہرے ،اور جنہیں اپنے محبوب وطن کی خوبصورتی و عظمت و جازبیت میں خالق مخلوق نظر آیااور اس محبت نے یہ شعور بخشا کے یہ تخلیق اس قدر حسین ہے تو اس کا خالق و مالک کا حسن کتنا بے مثال ہوگا۔۔۔اورپھر اس کے عشق میں ڈوب جاتے ہیں وہی عشق حقیقی کا مزا لیتے ہیں۔ قارئیں کرام!’’ شعور فردہ‘‘ شہید کشمیر محمد مقبول بٹ کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے دوران اسیری اپنے دوست احباب کو لکھے تھے اور ان تمام خطوط کا بغور جائزہ لینے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا میں حق بجانب ہوں کہ شہید کی اپنے دیس سے محبت میں تو کسی بھی شک و شعبہ کی گنجائش نہیں لیکن اﷲ کی اس خوبصور ت نشانی ’’اس خوبصورت‘‘وطن کی محبت جو عشق کے بلند مقام پر پہنچ چکی تھی نے شہید کشمیر کو اپنے معبود برحق سے ملا دیا تھا اوریہی وہ کیفیت ہوتی ہے جب عاشق کو اپنے معشوق کے لئے جان قربان کر دینا آسان بنا دیتا ہے اورانہیں وطن کی اس محبت نے عشق حقیقی کی اس منزل پر پہنچا دیا تھا جس کی کوئی بھی تمنا کرے۔۔۔وہ محبت جو عشق کی صورت اختیار کر لے۔۔۔ جو عشق بندوں کو اپنے رب سے ملا دیتا ہے۔۔۔ وہ عشق جو اسمائیل کو زبح کرنے اور زبح ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔۔۔ وہ عشق جو تپتی ریت پر ننگا گھسیٹنے پر بھی اﷲ اکبر کا نعرہ مستانہ بلند کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔۔۔ وہ عشق جو ’’محبوب خدا ﷺ‘‘کو اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور کرتا ہے وہ عشق جو یعقوب ؑ کو چالیس برس ہجر فراق میں گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔۔۔ وہ عشق جوتیس برس زلیخان کا امتحان لیتا ہے پھر جب وہ وقت کے جھوٹے خداؤں سے دلبرداشتہ ہو کر یوسف کے خدا کے در پر دستک دیتی ہے ۔۔۔جب دروازہ کھلتا ہے تو یوسف سے زیادہ حسین معبود یوسف نظر آتا ہے جو اسے ایک نئی زندگی عطاء کردیتا ہے۔۔۔ وہ عشق جو ایک ماں کو زندگی بھر کے انتظار کے بعد بڑھاپے میں ہونے والی واحد اولاد ایک خوبصورت و نومولود معصوم بچی ’’مریم مقدس ‘‘کو اپنی محبت و شفقت سے دور کر کے بے اولادوں کی طرح زندہ رہنے اور پھر اسی حالت میں مر جانے کے لئے مجبور کرتا ہے ہاں وہی عشق تھا جو محبت کی سڑھیاں چڑھتا رہا عشق کی دہلیز پار کی تو معشوق سے زیادہ حسین معبود سے ملا دیا اور پھرمعبود کے عشق نے تہاڑ جیل کے خوفناک پھانسی گھات جیسے ڈراؤنے حصار کو پھولوں کی سیج میں بدل دیا اور اپنی سب سے انمول متاع زندگی کومسکراتے ہوئے خالق دو جہاں کے حوالے کر دیا ۔یہ عمل سرانجام دینے والوں کے ازہیان میں کیا تھا ۔۔۔؟لیکن خدا وند تعالیٰ کے ارادے تمام ارادوں پر حاوی ہوتے ہیں اور جو لوگ محبت کی انمول چوکھٹ پرایک بارپاؤں رکھ دیں پھر واپسی ممکن نہیں اورپھر وہ قدم بقدم سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے اس مقام عظیم پر پہنچ جاتے ہیں جو انبیاء اولیا کی معراج ہوتا ہے تو پھران غیر معمولی انسانوں کے لئے حق کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دینا محض ایک معمولی سا کانٹا چبھنے کے جیسا ہوتا ہے ۔

Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 75262 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.