حکومت طالبان مذاکرات

پاکستان کے اقتدار پر طویل عرصہ سے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی باری باری حکمرانی اس بات کو ثابت کررہی تھی کہ ملک میں صرف دو ہی طاقتیں ہیں جو پاکستان و عوام پر حکمرانی و اقتدار کا حق رکھتی ہیں مگر مشرف نے میاں نوازشریف کی عوامی حکومت کو رخصتی اور جنرل ضےالحق کی جانشینی کے ذریعے اس تصور کو زائل کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ تیسری قوت ابھی موجود ہے ۔پاکستان کے عوام پر حق حکمرانی کا حق صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ہی نہیں ہے بلکہ تیسری قوت بھی اس حق کی اہل ہے مگر پھر مشرف و افتخار چوہدری کے مابین جاری جنگ میں سول سوسائٹی اور کالے کوٹوں کی شرکت نے مشرف کو نوازشریف و بینظیر کو وطن واپسی کی اجازت دینے اور ملک میں انتخابات پر مجبور کردیا جس کے نتیجے میں قائم ہونے والی منتخب حکومت کو عوامی مارچ نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی پر مجبور کرکے یہ پیغام دیا کہ سب سے بڑی قوت عوام ہیں مگر اس پیغام کا تاثر تادیر قائم نہیں رہ سکا اور عدلیہ و حکومت محاذ آرائی سے یہ محسوس ہونے لگا کہ ایک نئی قوت بھی اس میدان میں اپنی جگہ بنانے کیلئے کوشاں ہے مگر حکمرانوں نے افتخار چوہدری کی مدت ملازمت میں توسیع سے انکار کرکے اس باب کو فی الوقت بند کردیا جس کے بعد تحریک انصاف تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی مگر بیلٹ بکس سے نکلنے والے نتائج اور عمران خان شو میں شریک ہونے والے لوگوں کی تعداد میں عدم یکسانیت نے عمران خان کو خیبر پختونخواہ تک محدود کردیا جس کے بعد عمران خان کیلئے اپنی ڈوبتی سیاسی ناؤ کو سہارا دینے کیلئے ”نیٹو کیخلاف دھرنوں اور طالبان حمایت“ واحد راستہ رہ گیا تو عوام یہ بات جان گئے کہ وہ بھی تیسری قوت نہیں ہوسکتے ۔

وزیراعظم میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کے مشورے اور قوم کے مطالبے کے بر خلاف طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کرکے تیسری قوت کے حوالے سے عوام کو راستہ دکھادیا اور عوام جان گئے کہ پاکستان میں تیسری بڑی قوت طالبان ہیں جوطویل جدوجہد کے بعد بالآخر ریاست وحکومت دونوں سے اپنا وجود منوانے اور مقتدر قوتوں سے برابری کی بنیاد پر بات چیت کیلئے ریاست کو مجبور کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں ۔

میاں نواز شریف کا طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ ابتدائی طور پر ملک بھرمیں تنقید کا باعث بنا کچھ حلقے اسے مسلم لیگ (ن) کا طالبان سے لگاؤ قرار دینے لگے توکچھ کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والے فوج و سیکورٹی اہلکاروں اور دہشتگردی ‘ خود کش حملوں و بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والے معصوم شہریوں کے قاتلوں سے مذاکرات کا مطلب”شہیدوں کے لہو پر سودے بازی اور قاتلوں کو قتل معاف کردینے کے مترادف ہے “ اور وزیراعظم یا پارلیمنٹ کو ایسا کوئی قانونی ‘ آئینی یا شرعی اختیار نہیں ہے کہ وہ عوام ‘ فوج کے شہداءاور بے وجہ قتل کئے جانے والے معصوم عوام کا قتل معاف کرسکیں ۔

عمران خان‘جماعت اسلامی اور فضل الرحمن گروپ کے علاوہ تقریباجماعتوں کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کی کھل کر مخالفت کی گئی ۔ متحدہ قومی موومنٹ نے مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعاضرور کی مگر اس عمل کو پاکستان کے مستقبل کیلئے خطرناک بھی قرار دیا ۔متحدہ مجلس عمل نے اسے سیاسی سودے بازی قرار دیکر اس کی مخالفت کی جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہاں تک کہہ دیا کہ طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں تو پھر آئین تبدیل کردیا جائے البتہ اس صورتحال میں فوج کی خاموش زبان نے مخالفت کرنے والے کو ہوا کے رخ کا پتا دے دیا اور پھرطالبان کی جانب سے مذاکرات کی دعوت قبول کرلیئے جانے کے بعد میاں نوازشریف کے طالبان سے مذاکرات کے فیصلے کو پذیرائی حاصل ہونے لگی ۔ قومی و بین الاقوامی سطح پر ملنے والی اس پذیرائی کے ساتھ امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے کم کردیئے جانے اور طالبان مذاکرات کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیئے جانے سے نہ صرف میاں نوازشریف کا حوصلہ بڑھا بلکہ طالبان سے مذاکرات کے فیصلے کی حمایت بھی بڑھنے لگی جس کے بعد وزیراعظم پاکستان میاں محمدنوازشریف نے اپنے معاون خصوصی عرفان صدیقی ،میجر(ر)محمدعامر،سینئرصحافی رحیم اللہ یوسفزئی اورتحریک انصاف کے رہنماافغانستان میں پاکستان کے سابق سفیررستم شاہ مہمندپرمشتمل چاررکنی مذاکراتی کمیٹی کااعلان کر دیا ۔ جواب میں تحریک طالبان کی مرکزی شوری نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ،جمعیت علماء اسلام(س)کے سربراہ مولاناسمیع الحق ،جماعت اسلامی خیبرپختونخواکے امیر پروفیسرمحمدابراہیم خان،جمعیت علماءاسلام(ف)کے رہنماسابق ایم پی اے مفتی کفایت اللہ اورلال مسجداسلام آبادکے خطیب مولاناعبدالعزیزکواپنی نمائندگی اورمذاکرات کیلئے نامزدکیاجبکہ اس مذاکراتی کمیٹی کے اوپر بھی ایک 9رکنی نگراں کمیٹی قائم کرکے تاثر دیا کہ وہ جلد مذاکرات کی کامیابی کے خواہاںہیں ۔

پاکستان تحریک انصاف نے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں پارٹی کے سربراہ عمران خان کی شمولیت سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ حکومتی کمیٹی میں شامل رستم شاہ مہمندپہلے ہی ان مذاکرات میں تحریک انصاف کی نمائندگی کررہے ہیںجبکہ جمیعت علماءاسلام (ف) نے مذاکراتی کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔

عمران خان کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار نے ان کی قومی سیاست کو زبردست دھچکا پہنچایا اور ان کی گرتی ہوئی ساکھ کیلئے مزید تباہی کے اسباب پیدا کرگیا کیونکہ عمران خان عوام کے ہر فرد کے پاس جاکر اسے یہ بات نہیں سمجھاسکتے کہ انہیں مذاکرات کی کامیابی کی ذرہ برابر امید نہیں ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ جب مذاکرات کی ناکامی کا ملبہ حکومتی مذاکراتی ٹیم پر ڈالا جائے تو اس ٹیم اراکین میں ان کا نا م بھی شامل ہو جبکہ مذاکراتی ٹیم سے باہر رہ کر انہوں نے اپنے لئے ثالث کا کردار از خود تجویز کرلیا ہے ا ور یہ سمجھ رہے ہیں کہ جب مذاکرات ناکام ہوجائیں گے تو وہ حکومت و طالبان کے درمیاں تیسری قوت کے طور ثالثی اک کردارادا کرکے اپنی ڈوبتی سیاسی ناؤ کو بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ اس وقت قوم کو مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی سے زیادہ ان کا ثالثی کاکردار پسند آئے گا ۔
حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا پہلا راؤنڈ کھیلا جاچکا ہے اور اس ملاقات میں جاری ہونے والے اعلامیہ میں کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی جسے امن کی جانب دو طرفہ سنجیدہ عمل قرار دیا جاسکے کیونکہ حکومتی مذاکراتی ٹیم نے مذاکرات میں پانچ نکات اٹھائے۔

اول:- مذاکرات آئین کے مطابق ہونے چاہئیں۔
دوئم :- مذاکرات کا دائرہ کار صرف شورش زدہ علاقوں تک محدود ہوگا اور ان کا اطلاق پورے ملک پر نہیں ہوگا۔
سوئم :- امن و سلامتی کے منافی تمام سرگرمیاں ختم کی جائیں گی۔
چہارم :- کیا حکومتی کمیٹی کو طالبان کی نگران کمیٹی سے بھی بات چیت کرنا ہوگی۔
پنجم :- مذاکرات کا عمل طویل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ قوم خوش خبری سننے کی منتظر ہے۔

دوسری جانب طالبان کی تین رکنی کمیٹی نے بھی حکومتی کمیٹی کے سامنے بھی
اول:- حکومتی کمیٹی کا دائرہ کار اور مینڈیٹ کیا ہے۔
دوئم:- حکومتی کمیٹی طالبان کے مطالبات منوانے کی کتنی صلاحیت رکھتی ہے۔
سوئم :- وزیراعظم اور آرمی چیف سے طالبان کمیٹی کی ملاقات کرائی جائے۔

طالبان کمیٹی نے حکومتی کمیٹی کے مطالبات طالبان تک پہنچائے اور حکومتی کمیٹی نے مطالبات حکومت ارباب اقتدار تک منتقل کئے مگر عوام اس وقت حکومت طالبان مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے سے مایوس ہوگئے جب طالبان کی جانب سے نامزد کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق کایہ بیان سامنے آیا کہ ” آئین ملک میں قرآن و سنت کی بالا دستی کاحکم دیتا ہے اور طالبان آّئین پر عملدرآمد کے لئے لڑ رہے ہیں“جبکہ اسی مذاکراتی ٹیم کے دوسرے رکن اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے اس بیان نے مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے تشویش کو مزید گہرا کیا جب انہوں نے کہا کہ ”حکومت آئین میں رہ کر مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن طالبان اسے مانتے ہی نہیںہیں کیونکہ پاکستان کا آئین ابھی تک اسلامی نہیں بنایا گیا اور اس میں بہت ساری غیر اسلامی دفعات شامل ہیں ہم نیک نیتی سے مذاکراتی عمل میں شامل ہوئے لیکن مذاکرات میں آئین کی شرط لگانے سے تعطل پیدا ہوگا۔ مذاکرات صرف قرآن اور سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں“۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ ان کی اصل لڑائی ہی شریعت کے لئے اور ہمیں اس کے علاوہ کچھ اور منظور نہیں جب کہ حکومت سے مذاکرات کا بھی مقصد ملک میں شریعت کا نفاذ ہے جو اتنا مشکل کام نہیں، ہم سب مسلمان ہیں اور پاکستان بھی اسلام کے نام پر بنا، ہم شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ امریکا سے نہیں پاکستان کے حکمرانوں سے کررہے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب دو گروپ آپس میں ملتے ہیں تو مختلف مطالبات پیش کئے جاتے ہیں اور ہم حکومتی کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ نکات پر غور کررہے ہیں جس پر ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔

اور حقیقت بھی یہی تھی کہ مذاکرات کی نیک نیتی پر شبہ کرنا واقعی درست نہیں تھا اور نہ ہی ان کے نتائج سے توقعات وابستہ کرلینا ٹھیک تھا مگر بوجوہ ایسا ہوا مذاکرات پر ازحد خدشات و تنقید بھی سامنے آئے اور ان کے مثبت نتائج کے بعد مستقبل کے محفوظ و پر امن ہونے کے حوا لے سے بھی ہر طرح سے یقین دلانے کی کوشش کی گئی ۔

کچھ تجزیہ کاروں نے مذاکرات کو محض وقت گزارنے کا ذریعہ قرار دیا ان کا خیال تھاکہ سرد موسم کی شدت اور برف باری نے نہ صرف پہاڑی گزرگاہوں کو بند کرکے طالبان کے رسدوکمک روکدی ہے بلکہ برف باری کے اس موسم میں فی الوقت طالبان کے پاس آپریشن کی صورت اپنے مورچوں سے نکل کر فرار ہونا یا جم کر افواج پاکستان سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہو گاا سلئے طالبان نے مذاکرات کا پتا کھیلا ہے تاکہ مارچ کے وسط تک آپریشن کے فیصلے کو موخر کرادیا جائے کیونکہ موسم کی شدت کے خاتمے کے بعدطالبان اپنے علاقوں میں ہر طرح کے آپریشن سے نمٹے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

کچھ تبصرہ نگار یہ کہتے سنائی دیئے کہ حکمران طبقہ طالبان کیخلاف آپریشن کا فیصلہ کرکے اپنے بہت سے تعلقات کشیدہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اسے بھی اپنے محبوب حلقوں کو طالبان کیخلاف آپریشن کیلئے رضامند کرنے کیلئے کچھ مہلت درکار ہے اسلئے اس نے بھی اس موقع کو غنیمت جانا ہے اور فوج کو اعتماد میں لیکر مذاکرات کا آغاز کردیا ہے یعنی حکومت بھی اسی نیت سے طالبان سے مذاکرات کررہی ہے جو طالبان کی ہے ۔

ایک حلقہ اس بات پر زور دے رہا تھا کہ طالبان سے مذاکرات اور پرویز مشرف کیس کا مقصدنجکاری سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے کیونکہ حکومت پاکستان کے 60 سے زائد اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کرچکی ہے اور فوری طور پر PIA کی نجکاری کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری بھی مستقبل قریب میں کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔جبکہ نیشنل بینک‘ الائیڈ بینک اور گیس کی فراہمی کے ادارے کے علاوہ توانائی کے کم و بیش 20 اداروں کی نجکاری کا منصوبہ ہے جنہیں آئی ایم ایف کی ہدایت پر فروخت کرنا لازم ہے اورمذاکرات و مشرف کیس کا ڈرامہ اس نجکاری سے توجہ ہٹانے کیلئے ہے اسلئے نہ تو مشرف کو کوئی بڑی سزا دی جاسکے گی اور نہ ہی مذاکرات کی پٹاری سے خوش گمانی کی تعبیر نکل پائے گی لیکن ہمارا خیا ل ہے کہ طاقت کے استعمال پر اکسائے جانے کے با وجودوزیرِ اعظم نواز شریف صاحب نے دہشتگردی کے ناسور سے نبرد آزما ہونے کیلئے پر امن مذاکرات کے راستے کو اپنا کر انتہائی دانشمندانہ فیصلہ کیاتھا کیونکہ مذاکرات کامیاب ہوجاتے تو ملک میں امن کے قومی خواب کو تعبیر مل جاتی اور ناکامی کی صورت میں حکومت کے پاس ریاستی رٹ برقراررکھنے کیلئے انتہائی آپشن کے استعمال کا اخلاقی جوا زبہرحال موجود ہے کیونکہ بد امنی سے پریشان اور احساس عدم تحفظ کا شکار پاکستان کے عوام ہر حال میں امن ‘ تحفظ اور روزگار چاہتے ہیں ۔

بد امنی نے جہاں امن و سکون غارت کیا ہے وہیں کاروبارو تجارت کو بھی برباد اور تعلیم و صلاحیتوں کو بھی تباہ کردیا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی پستیوں کا شکار ہورہا ہے اور آہستہ آہستہ ہر گھر میں دہشتگرد پیدا ہوتے جارہے ہیں جو خود کش حملے ‘ بم دھماکے اور انسانوں کو قتل کرنے والے دہشتگردوں سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ مقدر کا رونا روتے ‘بیروزگاری کا عذاب سہتے اور استحصال کے باعث مایوسی میں بغاوت کی حد سے گزرتے یہ نوجوان اپنی ہی گھر والوں کیلئے تکلیف کا باعث بنتے جارہے ہیں اور ان کی بے راہ روی ‘ مشتعل مزاجی ‘ نفسیاتی تباہی کے باعث گھر وں کا ماحول آہستہ آہستہ ایسا ہوتا جارہا ہے کہ گھر کے افراد ہر لمحہ اذیتناک زندگی جی رہے اور ہر پل تکلیف دہ موت مررہے ہیں اسلئے قوم کو اس اذیت سے نجات دلانے کیلئے کاروبار و تجارت ‘ تعلیم و معیشت کو فروغ دینا اور احساس تحفظ کے ساتھ ادب و ذوق اور تفریح کے مواقعوں کو بڑھانا ہوگا مگر یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب ملک میں مکمل امن قائم ہو اور امن کیلئے ہر راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے چاہے وہ راستہ مذاکرات ومحبت کا ہو یا جنگ و قتل کا اور یہ رویہ صرف طالبان سے ہی نہیں بلکہ ہراس فرد ‘ طاقت اور جماعت کے ساتھ اپنانے کی ضرورت ہے جو معاشرے میں بد امنی اور تباہی کے اسباب پیدا کررہا ہے مگر پہلے ہر ایک کو ایک موقع سمجھنے اور سمجھانے کا اور ایک مہلت سدھرجانے کی دینی لازم ہے جبکہ مہلت گزرتے ہی کوئی بھی عذرقبول کئے بغیر وہی کرناضروری ہے جو ریاست کو بچانے اور دشمن سے نبٹنے کا آخری حربہ ہوتا ہے یعنی جنگ اور قتل مگر ہمیں وتوقع تھی کہ طالبان سے مذاکرات میں کامیابی اس نوبت تک جانے ہی نہیں دے گی !

لیکن دوران مذاکرات دہشتگردی کا تسلسل برقراراور خود کش حملے ملسل جاری رہے کراچی میں پولیس ٹریننگ کالج اور مہمند میں ایف سی پر حملے نے نے مذاکرات کے عمل میں رخنہ ڈال دیا حکومتی کمیٹی نے طالبان کمیٹی سے ملنے سے انکار کردیا اور طالبان کمیٹی نے حکومتی کمیٹی کے اس رویئے کیخلاف احتجاجی پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت پر آپریشن کی تیاریوں کا الزام لگاتے ہوئے آپریشن کو قومی مستقبل کیلئے خطرناک قرار دے دیا جبکہ تحریک طالبان نے ان حملوں کو سیکورٹی اداروں کا طالبان قیدیوں کے ساتھ سلوک اور ان کے ماورائے عدالت قتل کا رد عمل قرار دیا جبکہ کچھ تجزیہ وتبصرہ نگار یہ بھی فرمارہے ہیں کہ مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی آرمی چیف راحیل شریف کا دورہ سعودی عرب جس مقصد کیلئے تھا وہ ظاہر ہوچکا ہے اور سعودی شہزادے کے دورہءپاکستان اور پاکستانی قیادت کے ملاقات کے بعدحکومتی کمیٹی کا طالبان کمیٹی سے ملاقات سے انکار جبکہ طالبان کمیٹی کا حکومت و فوج پر آپریشن کی تیاریوں کے حوالے سے الزام دانشمندوں کو آنے والے وقت کا پتا دے رہا ہے جس کے حوالے سے دانشور بہت دور تک دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس آئینے میں انہیں پرویز مشرف کا روشن مستقبل ہی نہیں بلکہ ایران وسعودی عرب اتحاد ‘اسرائیل و امریکہ مخاصمت ‘بھارت وچائنا اقتصادی دوستی ‘برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت ‘ قابل تکریم مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے اور مسئلہ کشمیر کے بھارت و پاکستان کی خواہشات کے برخلاف حل جیسے حالات و واقعات دکھائی دے رہے ہیں ۔
دانشمندوں کی اس مستقبل بینی کا احوال جو بھی ہو ہماری دعا ہے کہ پاکستان میں امن ہونا چاہئے تاکہ ہم اس وقت سے محفوظ رہ سکیں جب بڑھتی ہوئی غربت انسان کو بھوک کی جانب لے جاتی ہے اور بھوک انسان کو انسانی گوشت کھانے اور خون پینے پر مجبور کردیتی ہے ۔ اللہ ہمیں اس وقت سے محفوظ رکھے !

آمین

Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 147144 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More