دینِ اسلام کے بنیادی پانچ ارکان ہیں۔ کلمہ ، نماز ، روزہ
، زکاۃ اور حج ۔ کلمہ ( اﷲ اور رسول ﷺ کایقین ) کے بعد جس حُکم کی طرف قرآن
نے اولین دعوت دی ہے اور جس عبادت کو سرکار رسالتمآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے
اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کہا وہ نماز ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ اس فریضہ کی
ادائیگی پر زور دیا گیا ہے۔ نماز پڑھنے والوں کی ثنا و صفت اور انکی تعریف
و ستائش کچھ اس انداز سے کی گئی ہے کہ منکرین کے دلوں میں بھی جذبۂ عمل کی
ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ اور ساتھ ہی سا تھ قرآن کریم میں اس فریضہ سے غفلت
برتنے والوں کے لئے ایسی وعیدیں بھی موجود ہے کہ بڑے بڑے طاقتوروں کے دل
سینے کے اندر لرز جاتے ہیں۔
نماز نہ صرف خدا وندکریم کی عبادت اور اس کی تقریب کا ایک ذریعہ ہے بلکہ
حکیم مطلق نے اسی ایک نسخہ میں نہ معلوم کتنے امراض کا علاج پوشیدہ کر دیا
ہے۔ خدا کی اطاعت و فر مانبرداری ، وقت کی پابندی ، صفائی قلب ، پاکیزگیء
باطن ، حلم و برد باری ، عجز و انکساری ، جماعت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا
سلیقہ ، امامِ وقت کی اتباع و تقلید اور نہ معلوم ایسی کتنی ہی خوبیا ں
انسان میں اس فریضہ کی ادائیگی سے پیدا ہو جاتی ہیں۔
نماز کی اہمیت کے تعلق سے بے شمار احادیث موجود ہیں۔ سرکار رسالتمآب صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، نماز میرے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور ایک جگہ
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ـ’’ نماز دین کا ستون ہے جس نے نماز
ادا کی اُس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز چھوڑ دی اُس نے دین کو خراب
کر دیا ‘‘
دینِ اسلام کا ہے ستون نماز پڑھنا ہے
اﷲ کا قُرب ہے سکون نماز پڑھنا ہے
دنیا میں کام بن جائینگے نماز پڑھنا ہے
اسباب خود نکل آیئنگے نماز پڑھنا ہے
مومن کی گر چاہے لذّت نماز پڑھنا ہے
رسولِ پاک کی ہے سُنّت نماز پڑھنا ہے
عمران ؔچمکے گی تری بھی قسمت نماز پڑھنا ہے
غذائے روح کی ہے لذّت نماز پڑھنا ہے
دنیا کی عزت و عظمت اور آخرت کی کامرانی و سعادت نماز کے نسخہ شفا میں
موجود ہے۔نماز کے ذریعے انسان اﷲ کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے اور اسکا مقرب
بن سکتا ہے۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب مومن سجدہ کی حالت
میں ہوتا ہے تو اﷲ اور اسکے درمیان کوئی نہیں ہوتا۔شاید ہی ایسا کوئی کام
ہو جس میں اﷲ بندے کے اتنا قریب ہوتا ہو۔صحابہ ، تابعین ، اولیاء اکرام اور
مومنوں کا بہترین ہتھیا ر نماز ہے۔ جسکے ذریعے انہوں نے ظاہری و باطنی
مشکلوں کو شکست دی۔اور ہمیں نماز کی اہمیت وافادیت سمجھائی۔
نماز کی بے شمار کرامتیں کتابوں میں درج ہیں۔میں یہاں پر دو چار واقعوں کا
ذکر کرتا چلوں گا۔ ٭ حضرت طاوس یمانی ؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز مکہّ
مکّرمہ میں مسجد حرام کے باہر بیٹھا تھا۔ ایک اعرابی شتر سوار آیا ۔ اُترا
اور اپنی اونٹنی کو باندھ کر خدا کے سپرد کرکے نماز پڑھنے مسجد حرام میں
چلا گیا۔ اتنے میں ایک چور اُدھر سے گزرا اور چُپکے سے اونٹنی کو کھول کر
رفو چکر ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ اعرابی نماز پڑھ کر مسجد حرام سے باہر
نکلا تو دیکھا اونٹنی ندارد۔ اِدھر اُدھر تلاش کیا کچھ پتہ نہ چلا۔ مجبور
ہوکر آسمان کی طرف مُنھ اُٹھا کر کہنے لگا ۔۔۔۔ ’’ یا اﷲ میری اونٹنی تیری
حفاظت میں سے چوری ہوگئی ہے لا میری اونٹنی کہاں ہے ‘‘ ابھی وہ اعرابی دعا
سے فارغ نہ ہوا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے اونٹنی کی مہا
ر تھامے جبلِ ابو قیس کی طرف سے چلا آرہا ہے۔ اُسکی آنکھوں سے اشک ہائے ندا
مت جاری ہے اور اُسکا داہنا ہاتھ کٹا ہوا گردن سے بندھا ہو ا ہے۔ اُس شخص
نے اونٹنی کے مالک کے پاس آ کر کہا ’ لو اپنی اونٹنی تھا مو۔ اونٹنی کے
مالک نے یہ نظارہ بہ نظر ِ تعجّب دیکھا اور اُسکا کٹا ہو اہاتھ دیکھ کر
پوچھا تم کون ہواور تم پر یہ مصیبت کیوں کر گذری ؟ اُس شخص نے جواب دیا میں
تمہاری اونٹنی کسی ضرورت کی بناء پر چُرائے لے جا رہا تھا جب جبلِ ابو قیس
کے پا س پہنچا تو مجھے ایک تیز رفتا ر شہسوار ہو امیں پرواز کرتا ہوا
دکھائی دیا۔ اُس نے مجھے روک لیا اور میرا داہنا ہاتھ کاٹ کرگردن میں باندھ
کر کہا ۔ ابھی فوراً واپس جاؤاور جس کی اونٹنی چراکر لائے ہواُسے واپس دے
دو ‘ ۔
٭ حضرت معاویہ ؓ نے اپنی دورِ خلافت میں عامر بن قیس ؒ کوشہرِ بدر کر
دیا۔عامر بن قیسؒ شہر سے باہر جنگل میں ایک پہاڑی پر چلے گئے۔ آفتا ب غروب
ہو چکا تھااس پہاڑی پر نصرانیوں کا ایک عبادت خانہ بھی تھا جہا ں ایک راہِب
ہمہ وقت رہتا تھا۔ راہِب نے آپ کو دیکھ کر پوچھا تم کون ہو ؟ عامر بن قیس ؒ
نے جواب دیاـ ‘ مسافر ہوں۔راہِب نے آپ سے کہا ’اگر تمہیں رات گزارنی ہے تو
عبادت خانے کے اندر چلے آؤ یہ پہاڑی درندوں کا مسکن ہے ایسا نہ ہو کہ تم کو
ہلا ک کر ڈالیں۔ حضرت عامر بن قیسؒ نے جواب دیا تم نصرانی ہو اور میں
مسلمان ۔ تم مجھے یہیں پڑا رہنے دو۔ الغرض رات ہو گئی اندھیرا پھیلنے لگا
راہِب نے عبا دت خانے کا دروازہ بند کر لیا۔ جب رات کا کچھ حصّہ گزر گیا تو
راہِب نے کھڑکی سے جھانک کردیکھا کہ مسافر زندہ ہے یا درندوں کا لقمہ بن
چکا ہے۔ پر وہ یہ نظارہ دیکھ کر محو حیرت رہ گیا کہ حضرت عامر بن قیسؒ نماز
میں مشغول ہیں اور آپ کے ارد گرد چار شیر ٹہل رہے ہیں حضرت عامر بن قیس ؒ
نماز سے فارغ ہو کر شیروں کو مخاطب کر کے کہا ’’ اگر تم اﷲ کے حکم سے مجھے
پھا ڑ کھانے کو آئے ہو تو بسم اﷲ میں حاضر ہوں۔ورنہ جاؤ اپنی راہ لو۔ میری
نماز میں خلل اندازی نہ کرو ‘‘ ۔ یہ سُنتے ہی چاروں شیر چلدئیے۔ صبح ہوئی
راہِب عبادت خانے سے نکل کر حضرت عامر بن قیس ؒ کے قدموں پر گر پڑا اور
پوچھنے لگاآپ کو ن صاحب ہیں۔ حضرت عامر بن قیس ؒ نے جواب دیا میں ایک نہایت
گنہگار اور خطاکاربندہ ہوں۔ خلیفہ وقت نے بعض وجہوں پر مجھے شہر بدر کردیا۔
راہب نے کہا اﷲ اﷲ جب گنہگار اور خطاکار لوگوں کی نماز کی یہ کرامت ومنزلت
ہے تو اطاعت اشعار اور فرمانبرداروں کی کیا ہوگی۔ وہ رو پڑا اور فوراً کلمہ
پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔
٭ حجاج بن یوسُف نے قتل کے ارادے سے حضرت خواجہ حسن بصری ؒ کو گرفتار کرنے
کے لئے پیادے روانہ کئے۔اس بات کی خبر کسی طرح حضرت خواجہ حسن بصری ؒ تک
پہنچ گئی۔ حضرت خواجہ حسن بصری ؒ دوڑتے ہوئے حضرت عجمی ؒ کے گھر پہنچے اور
حالا ت سے باخبر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسی جگہ چھپا دو جہا ں وہ پیادے
مجھے دیکھ نہ سکیں۔ حضرت عجمی ؒ نے ان کو ایک حجرہ بتلایا آپ وہا ں نما ز
میں مشغول ہوگئے۔ پیادوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ حسن بصری ؒ حضرت
عجمی ؒ کے مکان میں ہیں تو وہ انکے مکان پر آگئے اور آپ سے پوچھنے لگے۔
حضرت عجمی ؒ نے فرمایا ہاں وہ اندر مکان میں ہیں۔ پیادے مکان کے اندر داخل
ہوئے مگر حضرت خواجہ حسن بصری ؒ نظر نہیں آئے۔ آخر کار پیادے وہاں سے چلتے
بنے۔
اب میں اپنے آخری نقطہ پر آرہا ہوں۔موجودہ دور میں ہمارے اندر بہت سی
خرابیا ں پیدا ہو گئی ہیں۔نیک اعمال میں سُستی پیدا ہوگئی ہے۔ نماز ہر
مسلمان پر فرض ہے اور اس کی عدم و ادئیگی موجب عذابِ الٰہی ہے۔ مسلمان غافل
ہی نہیں بلکہ بے فکر بھی ہیں۔ہمیں کلامِ رب العالمین میں مخاطب کیا گیا ہے
اور سابقہ اُمتوں کے حالات بتلائے گئے ہیں کہ وہ نافرمانی کی سزا میں خوار
و تباہ کی گئی تھیں۔ لیکن ہم اس سبق کو بھو ل گئے ہیں۔ اﷲ کا مُنادی بُلاتا
ہے مگر ہم مسجدوں کی طرف قدم نہیں بڑھاتے۔ ہم اپنے آپ کو رحمتِ خداوندی سے
دور کر بیٹھے ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ جو مسلمان
اذان کی آواز سن کر مسجد کو نہ جائے وہ میری اُمت کا یہودی و نصرانی ہے ‘‘۔
دوسری جگہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ پانچ وقت کی نمازیں
کیا ہیں ، گویا شفاف پانی کی نہریں ہیں جن میں جو شخص پانچ وقت نہاتا ہو۔
ممکن نہیں کے پانچ وقت نہانے کہ بعد بھی وہ میل کچیل سے آلودہ رہے، بلکہ
یقینا وہ پاک ہو جاتا ہے ‘‘۔
نماز میں ہماری سُستیوں کی وجہ سے ہم وہ حاصل نہیں کر رہے ہیں جس کے ہم
حقدار ہیں۔اس دور میں اوّل تو وقت پر نماز ادا کرنے والے حضرات بہت کم ملیں
گے اور اگر مل بھی گئے تونماز با جماعت کون ادا کرتا ہے ؟ اور خوش قسمتی سے
اگر کچھ لوگ ایسے مل بھی گئے جو نماز کی ادائیگی میں وقت وجماعت کا لحاظ
رکھتے ہیں تو ان میں ایسا کون ملے گاجو امام کی اقتداء ان شرائط کے ماتحت
کرتا ہے جن کا اعلان حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا ہے۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’ کیا جو مقتدی امام سے پہلے اپنا
سر اُٹھا دیتا ہے اسکو اسکا خوف نہیں ہے کہ اﷲ اس کے چہرہ کو گدھے کی شکل
سے بدل دے ۔
سبقتِ امام ، صفوں کی ترتیب اور رکوع و سجود کا اہتمام کا خیال کون رکھتا
ہے ؟ سیدنا حضرت بلالؓ کے متعلق مروی ہے کہ آپ صفوں کی برابری کا خاص خیال
رکھتے۔بلکہ بعض روایتوں میں یہاں تک ہے کہ کوڑا لیکر اس شخص کے پیر پر
مارتے جس کے پاؤں آگے پیچھے ہوتے تھے۔رکوع و سجود کے تعلق سے حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ لوگوں میں سب سے بڑا چور وہ ہے جو اپنی نماز
کی چوری کرتا ہو۔ صحابہ نے سوال کیا ، روحی فداک یا رسول ؐ اﷲ ! نماز میں
چوری کیسے ہو سکتی ہے ؟ آپؐ نے فرمایا ۔ نماز کی چوری یہ ہے کہ نماز میں
رکوع اور سجوداچھی طر ح با اطمینان کامل نہ ادا کیا جائے ‘‘۔
آج مسلمان مختلف مصائب کے امراض میں مبتلاء ہیں جن کا علاج صرف نماز
ہے۔لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کے ہم نے جس دینِ اسلام کو قبول کیا ہے اُس دین کے
تمام ارکان پر عمل کریں اور دنیا اور آخرت کو سنواریں۔ اﷲ تعالیٰ ہم تمام
کو لکھنے ، کہنے ، سُننے سے پہلے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ثم آمین |