وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف کے بعد اب ان کے چھوٹے
لیکن سیاسی لحاظ سے طاقتور بھائی جناب شہباز شریف نے بھی کہہ دیا ہے کہ
بھارت بلوچستان کی شورش میں ملوث ہے جس کے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں۔شہباز
شریف اس سے پیشتر بھی یہ بات جناب نواز شریف کی طرح کہہ چکے ہیں کہ بھارت
کے ساتھ تعلقات اس وقت تک بہتر و بحال نہیں ہو سکتے جب تک مسئلہ کشمیر ،سیاچن
اور پانی کی بندش جیسے جھگڑے حل نہیں ہو جاتے۔دونوں بھایؤں کی ان باتوں اور
خیالات سے کوئی پاکستانی کبھی اختلاف کر ہی نہیں سکتا کیونکہ بھارت کے ساتھ
ہمارا تنازع ہی ان امور پر مبنی رہا ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پڑوسی
بدلے نہیں جا سکتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لڑائی اور جھگڑا بھی ہمیشہ
پڑوسیوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے ۔اس لڑائی اور جھگڑے کی بنیاد اس وقت ہی پڑتی
ہے جب ایک پڑوسی دوسرے کا حق چھینتا اور زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔بھارت
ہمارا سب سے اہم اور سب سے ایک بڑا پڑوسی ہے لیکن کیا کریں کہ اس پڑوسی نے
آج تک تو ہمارا وجود ہی دل سے تسلیم نہیں کیا۔اس بھارت نے تو کشمیریوں کو
بھی آج تک ان کا وہ حق خودارادیت دینے کا معمولی شائبہ بھی نہیں دکھایا جس
کا وعدی اس نے ساری دنیا کے سامنے1948میں اقوام متحدہ میں جا کر اس وقت کیا
تھا جب اسے مجاہدین اور پاکستانی قبائل کی یلغار کے نتیجے میں کشمیر ہاتھ
سے نکلتا دکھائی دے رہا تھا۔وہی اقوام متحدہ دنیا کو حق دیتی ہے کہ عراق پر
بار بار حملہ کیا جائے ۔افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جائے۔بلکہ ساری
دنیا کو حکم دیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے ملک انڈونیشیا اور سوڈان کو توڑ کر
عیسائی مشرقی تیمور اور عیسائی جنوبی سوڈان بنا دیا جائے اور اگر مسلمان
ملک چوں چراں کریں تو سوڈان کے صدر عمر البشیر کے عالمی عدالت سے ناقابل
ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے جاتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں کا مرتکب پایا گیا ہے۔اور جب سوڈان کو توڑ دیا جاتاہے تو وہی وارنٹ
غیر موثر قرار پاتے ہیں۔دوسری طرف مسلمانوں ما مسئلہ فلسطین ہو یا
فلپائن،برما ہو یا تھائی لینڈ،بھارت کے اند ر مسلمانوں پر بے پناہ مظالم
ہوں یاحال ہی میں وسطی جمہوریہ افریقہ میں ان کا انتہائی ظالمانہ قتل عام
اور ملک سے ان کو مکمل بے دخل کرنا یا اور کرۂ ارضی پر پھیلے جابجا
مسلمانوں کے مسائل و مظالم۔اقوام متحدہ ہر جگہ صرف خاموش تماشائی ہے۔اقوام
متحدہ کے انہی جرائم میں سے ایک جرم مسئلہ کشمیر بھی ہے۔
تقسیم ہند کے ہر فارمولے کے تحت کشمیر پر ہر لحاظ سے پاکستان کا حق بنتا
تھا لیکن وہ اسے نہ دیا گیا۔پھر کشمیریوں نے اپنے زور بازو پرتحریک آزادی
شروع کی۔موجودہ تحریک آزادی کا آغاز 1988میں ہوا تو کشمیروں نے خون کے دریا
بہا د یئے لیکن بھارت کے سامنے سر نہیں جھکایا ۔ پاکستان میں اس تحریک کے
ساتھ اخلاقی حمایت میں اضافے کے لئے 1990میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے
سالانہ دن کا بھی آغاز ہوا۔اس سال بھی پانچ فروری کو پاکستان و مقبوضہ
کشمیر سمیت دنیا بھر میں ’’یوم یکجہتی کشمیر کا اہتمام کیا گیا۔ اس روز
دنیا بھر میں کشمیر پر بھارتی قبضے کی مذمت کے ساتھ ساتھ اقوام عالم اور
اقوام متحدہ پر زور دیا گیا کہ وہ کشمیریوں کی آواز کو سنے اور ان کا 67
سال قبل تسلیم کیا گیا، حق خودارادیت انہیں دیا جائے۔ اس موقع پر کشمیر کے
مقدمے حکومت سنبھالنے کے بعد ہر فورم پر موثر انداز میں اٹھانے والے
وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد پہنچے،
ریاستی اسمبلی سے خطاب کیا اور کشمیریوں کو اپنے بھرپور تعاون وحمایت کا
یقین دلایا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن اور آگے بڑھنے کے
لئے بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہو گا ورنہ مسائل جوں کے توں رہیں گے اور
تعلقات بھی استوار نہیں ہو سکیں گے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر یہ مسئلہ
لٹکتا رہا تو دونوں ممالک میں ایٹمی جنگ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں
دیا جا سکتا اور سرحد پر بھی کشیدگی بھی قائم بھی رہے گی۔ بھارت کو چاہئے
کہ کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کر کے انہیں اب یہ حق دے دیا جائے۔
یوم یکجہتی کشمیر اور جناب نواز شریف کے اس بیان کے دو روز بعد ہی نئی دہلی
سے خبر آئی کہ بھارت بین الاقوامی سرحد کے ساتھ ساتھ مقبوضہ جموں سیکٹر میں
179 کلو میٹر طویل وہ دیوار بنانے کا سلسلہ شروع کرنے والا ہے جس کا اعلان
تقریباً اڑھائی ماہ قبل کیا گیا تھا۔ یہ دیوار 137 فٹ چوڑی اور 10 میٹر
بلند ہوئی۔ اس میں فوجیوں کے مورچے اور کیمرے نصب ہوں گے جبکہ دوسری طرف
فوج کے لئے دفاع بھی مہیا ہو گا۔ بھارت نے اس دیوار کے حوالے سے کہا ہے کہ
اس کا مقصد مقبوضہ جموں کشمیر میں مجاہدین کی آمدورفت کو روکنا ہے کیونکہ
مجاہدین کی وجہ سے ریاست کا امن امان مسلسل مخدوش ہے۔
بھارت کی جانب سے کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہ دینا اور پھر اب انہیں
خاردار تاروں کی دیوار کے بعد کنکریٹ کی وسیع و بلند دیواروں سے گھیرنے کا
منصوبہ بتاتا ہے کہ وہ کسی صورت کشمیر کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہے اور دنیا
میں کوئی اسے روکنے والا بھی نہیں ہے۔ کشمیری قوم نے بھارت سے آزادی کے لئے
جو ممکن تھا وہ کر دکھایا ہے۔ بھارت نے ان کی گردن پر 10 لاکھ فوج مسلط کر
کے ان کے دل و دماغ پر پہرے بٹھا رکھے ہیں لیکن اس کے ساتھ اس کا یہ دعویٰ
بھی کبھی تھمنے کا نام نہیں لیتا کہ کشمیر میں اب حالات بدل چکے ہیں اور اب
ہر طرف لوگ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ جہادی معرکے انتہائی کم اور عوامی
تحریک دم توڑ چکی ہے حالانکہ یہی بھارت ساری حریت قیادت کو ایک لمحہ آزاد
کرنے پر تیار نہیں۔ سید علی گیلانی 4 سال بعد چند دن کے لئے رہا ہوئے تو
بھارت نے حالات دیکھ لئے تھے کہ کس طرح کشمیری ان کی آواز پر لبیک کہہ کر
لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر تھے۔ انہیں صرف چار جلسوں کے ہی بعد دوبارہ
پابند سلاسل کر دیا گیا۔ دیگر حریت رہنما بھی ایک دن آزاد ہوتے ہیں تو دو
دن قید۔ مسرت عالم سے لے کر ڈاکٹر قاسم فکتو تک ہزاروں کشمیری بھارتی جیلوں
میں پڑے ہیں۔ اگر بھارت سچا ہے تو فوج واپس بلا کر نہیں بلکہ ان حریت
قائدین کو رہا کر کے ہی دیکھ لے تاکہ اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے۔
کشمیریوں نے جو تحریک چلائی ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اب چاہئے
تو یہ تھا کہ ہمارے حکمران ان لازوال قربانیوں کو آگے بڑھانے کے لئے میدان
میں آتے۔ مسلمانوں کے ملک توڑ کر مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان الگ ملک بن
گئے۔ وہاں کی تحریکیں کشمیر کے مقابلے میں عشر عشیر کا بھی درجہ نہیں
رکھتیں، لیکن چونکہ ان کے وکیل امریکہ اور اس کے حواری ممالک تھے اس لئے وہ
کامیاب ہو گئیں جبکہ کشمیر لٹکا ہوا ہے۔ اگر پاکستان صحیح معنوں میں میدان
عمل میں آ کر کشمیر کی تحریک آزادی کا وکیل بن جائے تو بہت کم عرصہ میں خطے
کا نقشہ بدل سکتا ہے۔
مسلم دنیا اور او آئی سی سمیت ہر فورم کا بھارت کے خلاف استعمال کیا جائے۔
ہر پاکستانی سفارتخانہ اور قونصلیٹ ایمان داری سے کام کرے تو کایا پلٹ سکتی
ہے۔ لوہا گرم ہے بس پاکستان کے اس پر آہنی ضرب لگانے کی دیر ہے۔ اﷲ کرے
وزیراعظم نواز شریف جس طرح پورے اخلاص سے کشمیر کا نام لیتے ہیں وہ اس کو
آگے بڑھا کر منزل تک پہنچانے والے بھی بن جائیں اور بھارت کے ساتھ اس وقت
تک کسی قسم کی دوستی ،تجارت یا تعلقات کی بحالی کا فیصلہ نہ کریں جس سے
ہمارے مقدمات کمزور ہوں اور ہم بھارت کی غلام یا طفیلی ریاست بن جائیں۔ |