تحریر:قاری محمد یعقوب شیخ
قوموں، ملکوں، برادریوں، خاندانوں اور قبائل کے درمیان جنگ سوسال رہے یا
ایک ہزار سال آخر کار معاملات مذاکرات کے ذریعہ حل ہوتے ہیں ہر وقت تیر و
تفنگ اور جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
مسلمانوں میں باہمی جنگ و جدال سے عزت و شہرت خراب ہوئی ہے۔ وقار اور رعب
ختم ہوا ہے۔
مسلمانوں کے لئے لازمی ہے کہ وہ اختلافات کی صورت میں اﷲ اور اس کے رسولﷺ
کی طرف رجوع کریں، یعنی (قرآن وسنت) کی روشنی میں حل تلاش کریں۔ وہ اختلاف
داخلی ہو یا خارجی، چھوٹا ہو یا بڑا، سیاسی ہو یا معاشی و معاشرتی ہر قسم
کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ آج ہمارے درمیان اختلاف کی فضاء پائی جاتی
ہے تو یہ قرآن و سنت سے دوری کے سبب ہے۔ ہم نے اﷲ اور رسول کریمﷺ کی اطاعت
سے منہ موڑا اور تعلق توڑا ہے۔ اس لئے اس انجام کو پہنچے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا
فرمان ہے۔ ’’اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی فرمانبرداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف
نہ کرو، ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو
یقینا اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (الانفال 46) اس آیت مبارکہ میں اﷲ
تعالیٰ دو چیزوں کا حکم دیا ہے۔
1۔ اﷲ اور رسول اﷲﷺ کی اطاعت۔ 2۔ صبر کی تلقین۔
ایک کام سے منع کیا ہے وہ ہے لڑائی جھگڑا اور ساتھ ہی اس کا نقصان بیان کر
دیا ہے کہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، یعنی عزت خاک میں مل جائے گی۔ لڑائی
کرنے والے دو گروہوں میں اہل صبر کامیاب و کامران اور فتح مند ہیں کیونکہ
اﷲ تعالیٰ کی تائید و مدد اور نصرت و حمایت ان کے ساتھ ہے۔ یہ مدد اطاعت
کرنے والوں کے مقدر و نصیب میں ہے، لہٰذا مذاکراتی عمل کو پروان چڑھانے کے
لئے اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کولازم پکڑا جائے۔ صبر کا دامن بالکل نہ
چھوڑا جائے، سنی سنائی باتوں پر اعتبار کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر اعتماد
کیا جائے۔ جو باتیں عوام اور میڈیا پر کہنے والی نہیں ان کو عام نہ کیا
جائے۔ قومی، ملی مفادات کو مقدم رکھا جائے، ملکی دفاع اور اسلام کے احیاء
کو مرکزی نقطہ کے طور پر ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ باطل قوتیں اور اسلام
دشمن عناصر مذاکراتی عمل کو ناکام بنانے میں سرجوڑے بیٹھے ہیں وہ کسی شکل
میں پاکستان کے اندر امن و امان کی فضاء کو نہیں دیکھنا چاہتے وہ عوام و
حکام اور افواج پاکستان کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں، وہ بدامنی کے خواہشمند
ہیں، وہ مسالک کا ٹکراؤ، مذہبی لوگوں کی ایک دوسرے سے دوری چاہتے ہیں، وہ
ہمارے درمیان اختلافات پیدا کر کے خود سیاسی، اقتصادی مفادات حاصل کرنا
چاہتے ہیں۔
ان کا معیار مسلمانوں کے لئے اور دوسری اقوام کے لئے کچھ اور ہی ہے۔ امریکہ
کی صورتحال پر غور کر لیجئے وہ بارہ سال پٹنے کے بعد مجاہدین افغانستان سے
مذاکرات کا خواہشمند ہے، اس کے لئے امریکہ نے متعدد اسلامی ممالک اور
ریاستوں کی منت سماجت کی ہے۔ مجاہدین کی فرمائش اور ان کے مطالبات ماننے کو
بھی تیار ہے تاکہ واپسی کا باعزت راستہ میسر آ جائے، اس کے لئے وہ بہت کچھ
کرنے کرانے کو بھی تیار بلکہ اب تو بے تاب ہے اور جہاں تک بات ہے طالبان
پاکستان اور حکومت پاکستان کے مابین مذاکرات کی تو وہ اس کا مخالف ہے۔ جب
بھی مذاکراتی سلسلے کی ابتدا ہوتی ہے بات چیت کا آغاز ہوتا ہے وہ کسی
کمانڈر پر ڈرون حملہ کر دیتا ہے۔ درجنوں لوگوں کو موت کی وادی میں دھکیل
دیتا ہے۔ انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑا دیتا ہے۔ جس سے غم و غصے کی لہر
اٹھتی، انتقام کے جذبے پروان چڑھتے ہیں اور مذاکراتی عمل پھر نقطہ صفر پر
چلا جاتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خطے کے لوگوں کو سزا کس بات کی دی جا رہی
ہے؟ اور کس کے کہنے پہ دی جا رہی ہے؟
سزا تو جرم کے نتیجے میں دی جاتی ہے ان کا جرم کیا ہے؟
بس پاکستان کے ان لوگوں کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان، نظریہ
پاکستان اور آئین پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ کشمیر کے مظلوموں کے یہ محافظ
ہیں۔ جدوجہد آزادیٔ کشمیر میں ان کی نمایاں خدمات ہیں۔ موجودہ آزاد کشمیر
ان کی مجاہدانہ کوششوں سے ملا ہے۔
انڈیا کا قبائلی عوام کے خلاف پرانا کینہ، بغض اور عداوت ہے۔ امریکہ انڈیا
کے اشارے پر کارروائی کرتا ہے، دراصل وہ پاکستان کے اس طاقتور خطے اور
جنگجو لوگوں کو کمزور کرنا چاہتاہے۔ حب الوطنی کی سزا دینا چاہتا ہے۔
وطن عزیز میں اگر حالیہ مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں، امن و امان کا سلسلہ
شروع ہو جاتا ہے تو اس کا سب سے بڑھ کر نقصان بھارت، امریکہ اور دیگر ان
ملک دشمن طاقتوں کو ہو گا جو پاکستان کے استحکام اور امن و امان کو لمحہ
بھر برداشت نہیں کر سکتے۔
سب سے بڑا فائدہ ہے کہ امن و امان قائم ہو گا۔
معیشت مستحکم ہو گی۔
خوف کا خاتمہ ہو گا۔
ہماری کھوئی ہوئی عزت ہمیں واپس ملے گی۔
مذاکرات کے سلسلہ کو آگے بڑھانے کے لئے مولانا سمیع الحق اور وزیراعظم
پاکستان کے درمیان ابتدائی ملاقات میں یہی بات سامنے آئی کہ جنگ بندی ہونی
چاہئے۔ بعدازاں طالبان کمیٹی اور حکومتی کمیٹی منظر عام پر آئیں۔ دونوں طرف
ارکان و ممبران سنجیدہ مزاج اور درددل رکھنے والے ہیں۔ امید یہی ہے کہ یہ
مذاکرات کامیاب ہوں گے۔ اتحاد و اتفاق کی فضاء کو فروغ ملے گا۔ امن و امان
قائم ہو گا تو ملک مستحکم ہو گا۔ دفاع مضبوط ہو گا۔ ملک کا منظر بدلے گا۔
خوشحالی آئے گی، ترقی کی راہیں کشادہ ہوں گی۔ نشان منزل جو ہماری آنکھوں کے
سامنے دھندلے ہو چکے ہیں، واضح ہوں گے اور منزل تک پہنچنا آسان ہو گا۔ خوشی
اس بات کی ہے کہ مولانا سمیع الحق پروفیسر ابراہیم، عرفان صدیقی، میجر (ر)
عامر اور مولانا یوسف شاہ کا کردار اس سلسلے میں مخلصانہ اور ہمدردانہ ہے،
بزرگی کے باوجود جواں ہمت اور بلند حوصلے کے حامل ہیں۔
خوش آئند بات یہ ہے طالبان کا اس کمیٹی پر اعتماد اور مولانا سمیع الحق کا
ان میں بے حد احترام ہے۔ اس اعتماد اور احترام سے امن کی خوشیاں اور مسرتیں
دیکھنے کو ملیں۔ امن کا سورج طلوع ہو۔ اﷲ کے حضور یہی ہماری دعا ہے۔
قاری محمد یعقوب شیخ تحریک حرمت رسولﷺ کے جنرل سیکرٹری ہیں
|