بلٹ پروف شیشے کے پیچھے شیر کے
دھاڑنے اور گرجنے کی آوازکچھ گمان ہورہاتھا کہ کسی سکول کا طالب علم تقریری
مقابلے کے لیئے بھرپور تیاری کررہا ہے۔ اتالیقوں کی رہنمائی میں ایسا ہی
ہوتا ہے۔ اپنی سوچ ،فکر اور اپنا دماغ نہ ہوتو بے تکی باتیں محض زور خطابت
دکھانے اور گونگوں بہروں سے داد لینے کے لیئے افکار اور حقائق بیان کرنے کی
کیا ضرورت ہے۔ برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں اسلامیا ت نہیں پڑھائی جاتی اور
نہ ہی وہاں پر قرآنی سورتوں کے تراجم اور احادیث مبارکہ یا فقہی مسائل شامل
سلیبس ہیں۔ ہمارے یہاں اردوقومی زبان ایک آئینی مسودے میں تحریر ضرور ہے
مگر یہ سرکاری کاموں میں مداخلت ہرگز نہیں کرسکتی کیونکہ ہمارے یہاں آئین
کے تحت ہر ادارے کا دائرہ اختیار ہے۔ اردو کی وہی حیثیت ہے جو کسی دور میں
شلوار ، قمیص اور شیروانی کی ہوتی تھی کہ انکے لیئے بڑے ہوٹلوں اور آفیسرز
میسوں میں داخلہ بند تھا۔ ہمارے قدآور لوگ ضرور دوچار ٹپے انگریزی کے بولیں
گے اور پھر انکی بولتی بند تو سیدھے اپنی مادری زبان پنجابی ، پشتو، بلوچی
اور سندھی سے ہی سکون ملتا ہے۔ ہمارے نوخیز لیڈر ابن لیڈر جب پاکستان میں
رونق افروز ہوئے تو بات اردو میں کرنی پڑی ۔ رومن اردو رائج کرنے والے
انگریزوں کا ہمیں مشکور ہونا چاہیئے کہ انہوں نے کالے لوگوں سے بات کرنے کے
لیئے اردو در انگلش کا طریقہ وضع کیا تھا ۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمیں علاقے
کے فوجی بتاتے تھے کہ ہماری لکھائی انگریزی اور مگر پڑھائی اردو ہے۔ اس سے
ہمارے نونہال زرداری ابن زرداری کی مشکل حل ہوگئی۔ہمارے یہاں نقل کا رحجان
ختم نہیں ہوسکتا پنجاب میں میاں شہباز شریف صاحب خود مائیک گرادیتے ہیں۔
چھوٹا کاکا آستینیں چڑھاکر سرپر ہاتھ پھیر کر شہید بھٹو کی نقل اتارتا ہے۔
مگر ایسا ہے کہ دراز گوش نے شیر کی کھال پہن کر جو آواز نکالی تو اصلیت
ظاہر ہوگئی۔
سندھ فیسٹیول کے انعقاد سے نونہال کا ذوق کھل کر سامنے آیا۔ کنجریوں اور
رقاصاؤں کے جھرمٹ میں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ مسلمانوں کی شریعت تو
انہوں نے مسترد کردی لیکن یہ بھی کیا عقلمندی ہے کہ کسی کے کہنے پر فیصلہ
صادر فرمادیا۔کم از کم دین اسلام کا مطالعہ تو کر لیتے۔ چلیں کوئی بات نہیں
بچہ ہی تو ہے۔ اور بچے دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا ہوتے ہیں۔ لیکن ابھرتے
زرداری کی من پسند شریعت عوام تک پہنچ گئی۔ رہامسئلہ طالبان کا تو وہ آپکے
ہرگز دشمن نہیں ۔ ایک مثال بھی ایسی نہیں کہ طالبان نے مادر پدر آزادثقافت
اورفحاشی و بدکاری کی محافل کو نشانہ بنایا ہو۔وہ تو اﷲ کے حضور سجدہ ریز
ہونے والوں کو شہیدکرتے ہیں ۔ داستان ظلم میں مساجد میں نمازیوں کی شہادتیں،
اولیاء اﷲ کے مزارات پر کلام الہی کی تلاوت کرنے والوں کی ہلاکتیں، اسلام
کے قلعہ پاکستان کے محافظین کی شہادتیں ، بازاروں میں غریب عوام اور
مزدوروں کی شہادتیں یہ سبھی کچھ طالبان کا توشہ آخرت ہے۔ ایسی داستان ظلم
تو تاتاریوں کی تاریخ میں پائی جاتی ہے۔ حکومت پاکستان تحریک طالبان
پاکستان پر پابندی لگا چکی ہے۔ اگر طالبان کا تعلق کسی دوسرے ملک سے ہے تو
ان کے ساتھ صلح اور امن کے مذاکرات کا جواز ہے اور اگر طالبان پاکستانی ہیں
تو ان سے امن مذاکرات کا کیا جواز ہے؟پاکستان کے عوام اور محافظین پاکستان
کو قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ ان کا کہنا کہ ہمارے آدمی پاکستان کی مسلح
افواج نے قتل کیئے اس لیئے انہوں نے قتل و غارتگری کا جواز پیدا کر لیا۔
شریعت اسلامی کے مطابق جو قاتل ہے اسی سے قصاص کا حکم ہے۔ نہ یہ کہ دور
جاہلیت کی طرح بے قصور لوگوں کو قتل کیا جائے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ٹی
ٹی پی کے نظریات واضح ہوتے جارہے ہیں۔ پہلے تو ملک کی اکثریت امریکی جارحیت
کے خلاف ان کے بارے نرم گوشہ رکھتی تھی مگر جب سے امن مذاکرات کا ڈھونگ
شروع ہوا اور ساتھ ہی پہلے سے کہیں زیادہ لوگ طالبان کی بربریت کا نشانہ
بننے لگے تو پاکستان کے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ طالبان کا
نفاذ شریعت کے بارے مطالبہ سچائی پر مبنی نہیں۔ شریعت ناحق خونریزی کی
اجازت نہیں دیتی۔ دوسرا یہ کہ خلاف شریعت بے حیائی کی محافل تو طالبان کی
کاروائیوں سے محفوظ ہیں لیکن مساجد میں نمازی محفوظ نہیں۔
کیا پاکستان کے اندر امریکہ اور بھارت کے منصوبے اسی طرح پروان چڑھتے رہیں
گے؟ سعودی عرب میں حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو شریعت کے مطابق سزائے
موت دی جاتی ہے۔ وہاں صرف اسلام کا تعزیراتی نظام ہی نافذ ہے جس کی بدولت
آل سعود کا اقتدار قائم ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ میاں نواز شریف شریعت سے
حکومت کو استحکام دیں ۔ شریعت سے ہی تمام شورشیں ختم ہونگی۔نفاذ عدل میں
مساوات ہوگی اور فیصلے سالوں کی بجائے دنوں میں ہوں گے ۔موجودہ چیف
ایگزیکٹو یعنی ملک کے وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف ملک کے منتظم
اعلیٰ بن کر دکھائیں۔ نج کاری کی ماردھاڑ چھوڑیں ملک کو امن کا گہوارہ
بنانے کے لیئے پورے پاکستان میں اپنی رٹ قائم کریں اور اگر حوصلہ نہیں تو
پھر خود ایک طرف ہٹ جائیں اور تمام اختیارات افواج پاکستان کے سالار اعلیٰ
کے حوالے کردیں۔ |