ہندوستانی تاریخ، آزادی ، سیاست
اور ہندوستانی معاشرے پر بات ہو اور ’فساد‘ کی بات نہ ہو، تو بات ادھوری رہ
جائے گی۔ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے دوران پاکستان اور بھارت کی سرحد کے
قریب فسادات میں پانچ لاکھ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ لیکن ایک سال بعد
1948 میں ہزاروں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ کچھ کو صفوں میں کھڑا
کر کے بھارتی فوجیوں نے فائرنگ کر کے مار ڈالا۔تاہم حکومت کی جانب سے اس
واقعے کی تحقیقات کی رپورٹ کبھی منظرعام پر نہیں لائی گئی ،یہ قتل عام
بھارت کے وسط میں واقع ریاست حیدر آباد میں ہوا۔تقسیم ہند پر تمام ریاستیں
بھارت کا حصہ بننے پر تیار تھیں لیکن حیدر آباد کے نظام کا کہنا تھا کہ وہ
خودمختار ہی رہیں گے۔ ہندو اکثریت کی بھارتی حکومت کو یہ بات پسند نہ
آئی،ستمبر 1948 میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے فوج کو حیدر
آباد میں داخل ہونے کے احکامات جاری کیے۔ فوج نے ظالمانہ کارروائی کرتے
ہوئے مسلمانوں کی دکانیں،مکانوں کو لوٹنے اور تباہ کرنے میں ہندوؤں کی
حوصلہ افزائی کی،کئی موقعوں پر فوج نے خود مسلمانوں کو قتل کیا،کئی دیہات
اور قصبوں میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے مسلمان مردوں کو گھروں سے نکالا اور
اوران کو قتل کیا،اس قتل عام کی تحقیقات پر سندر لال کیمشن بنایا گیا جس کے
مطابق 40 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ہندوستان میں فسادات کا یہ سلسلہ
رکا نہیں بلکہ چلتا رہا۔ آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوئے جن میں لاکھوں
افراد مارے گئے ہندوستان میں کچھ دنوں سے یہ بحث چل رہی ہے کہ سنہ 1984 میں
دو دن کے اندر تقریباً چار ہزار سکھوں کے قتلِ عام کے لیے راہل گاندھی کو
معافی مانگنی چاہیے یا نہیں۔یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب ایک ٹی وی انٹرویو
کے دوران راہل گاندھی سے دہلی کے قتلِ عام کے بارے میں اس وقت کی کانگریس
حکومت کی ذمے داروں کے بارے میں پو چھا گیا۔ راہل گاندھی نے جواب دیا کہ وہ
اس وقت بہت چھوٹے تھے۔اس سے پہلے گجرات کے وزیرِاعلیٰ نریندرمودی سے ان کے
مخالفین یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ گجرات کے سنہ 2002 کے فسادات میں ایک
ہزار سے زائد مسلمانوں کی ہلاکت کے لیے مسلمانوں سے معافی مانگیں۔بھارت میں
فسادات یا تو انتظامی نااہلی کے سبب ہوتے ہیں یا پھر حکومت کی پشت پناہی سے
اس لیے فسادیوں کے خلاف عموماً کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ہزاروں انسانوں
کے قاتل سیاسی تحفظ اور پشت پناہی کے ساتھ بے خوف و خطر گھوم رہے ہیں۔
فسادات میں بڑا نقصان ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کا ہی ہوتا رہا ہے۔گجرات کے
فسادات بھارت کی تاریخ میں پہلے ایسے فسادات تھے جن کی جیتی جاگتی خوفناک
تصاویر لوگوں نے ٹیلی ویڑن کے توسط سے پہلی بار براہِ راست دیکھیں۔سنہ 1984
کے سکھ مخالف فسادات اس سے کہیں بڑے پیمانے پر ہوئے تھے اورفسادیوں نے
انسانیت کے خلاف جرائم کی نئی تاریخ لکھی تھی لیکن چار ہزار انسانوں کے قتل
اور دس ہزار سے زیادہ انسانوں کو مجروح کرنے کے جرم کی پاداش میں شاید دس
افراد کو بھی سزا نہیں ہوئی۔گجرات میں بھی یہی صورت حال تھی۔ متاثرین نے
حقوقِ انسانی کی تنظیموں کی مدد سے رپورٹس درج کرائیں لیکن پولیس نے اس طرح
ان معاملوں کی تفتیش کی کہ ایک کے بعد ایک سارے کیس ڈھے گئے۔ بالآخر سپریم
کورٹ کی مداخلت سے اس کے مقررہ افسروں نے دوبارہ جانچ کی اور مقدمات میں اب
تک سینکڑوں قصورواروں کو سزائیں مل چکی ہیں۔ ان میں مودی کی ایک خاتون وزیر
بھی شامل ہیں۔بابری مسجد کے انہدام کے بعد سنہ 1992 -93 میں ملک کے کئی
شہروں میں فسادات ہوئے تھے۔ سب سے بڑا فساد ممبئی میں ہوا جس میں ایک ہزار
سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔سری کرشنا کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں
اہم قصورواروں کی شناخت کی تھی لیکن ایک ہزار سے زیادہ انسانوں کے قتل کے
لیے ایک بھی شخص کو سزا نہ دی جا سکی۔سیکیولرلالو یادو سنہ 1989 کے
بھاگلپورکے فسادات کے بعد اقتدار میں آئے تھے لیکن انھوں نے 15 برس کے اپنے
دورِ اقتدار میں متاثرین کے لیے کچھ نہ کیا۔ نتیش کی حکومت بننے کے بعد
مقدمہ چلا اور کئی افراد کو عمر قید کی سزا ہوئی اور متاثرین کو معاوضہ
ملا۔ملائم سنگھ یادو نے میرٹھ کے مالیانہ اور ہاشم پورہ محلے کے تقرییاً 50
مسلمانوں کا قتل کرنے والے نیم فوجی فورس پی اے سی کے اہل کاروں کو نہ صرف
یہ کہ بحال کیا بلکہ ان میں سے کئی کو ترقی بھی دی۔ ملائم کی حکومت قصور
وار اہل کاروں کے خلاف مقدمے چلانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے یہ
مقدمہ کئی دہائی سے سماعت کے بغیر پڑا ہوا ہے۔ بھارت میں مقیم مسلمانوں کے
خلاف بھارتی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے امتیازی اور متعصبانہ سلوک کے
باعث ہونے والے فسادات اس اعتبار سے افسوس ناک ہی ہیں کہ ان میں ہمیشہ
انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ماضی میں احمد آباد ، بڑودہ اور گزشتہ برسوں
میں گجرات اور سمجھوتہ ایکسپریس کے اندوہ ناک سانحے ہندو مسلم فسادات کی
تاریخ کا درد انگیز باب ہیں جن کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔بھارت میں گزشتہ
دس سالوں کے دوران فرقہ وارانہ فسادات میں 2500 سے زائد افراد ہلاک
ہوئے۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کے 8473 واقعات ہوئے
جن میں 26 ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ ہلاکتوں کی سب سے زیادہ تعداد
2002 میں تھی جب گودھرا ریل واقعہ کے نتیجے میں گجرات میں 722 واقعات میں
1130 افراد ہلاک اور 4375 زخمی ہوئے تھے۔گجرات کے سنہ 1984 کے فسادات کے
لیے معافی مانگنے کی سیاست کے درمیان کو ئی یہ نہیں مطالبہ کر رہا ہے کہ
مظفر نگر کے فسادات کے مجرموں کو گرفتار کیا جائے اور انھیں سخت ترین
سزائیں دی جائیں کیونکہ یہ نہ کسی کا ایجنڈہ ہے اور نہ ہی کسی کو اس میں
دلچسپی ہے۔اس کی جگہ سیاسی جماعتیں عوامی تقریبات میں اپنے ان رہنماؤں کی
عزت افزائی کر رہی ہیں جن پر فسادات برپا کرنے کا الزام ہے۔ دو چار دن کی
حراست کے بعد سبھی آزاد ہیں۔حکمران کانگریس نے دس برس قبل اپنے انتخابی
منشور میں مذہبی فسادات پر قابو پانے اور متاثرین کی موثر مدد کے لیے ایک
قانون بنانے کا وعدہ کیا تھا۔10 برس کے بعد جب حکومت ختم ہونے کے قریب ہے
اور پارلیمان کا اجلاس ختم ہونے کو ہے تو کانگریس نے پچھلے دنوں ایک بل پیش
کیا۔ بل میں بہت ساری خامیاں تھیں جو بحث کے بعد آسانی سے دور کی جا سکتی
تھیں لیکن سبھی جماعتوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اسے مسترد کر
دیا۔مذہبی فسادات بھارت کی رنگ برنگی جمہوریت کا بد ترین کلنک ہیں۔ پچھلے
30 برس سے ہزاروں قاتل سیاسی پشت پناہی، تحفظ اور قانون سے ماورا ملک کے
مختلف علاقوں میں بے خوف خطر سرگرم ہیں اور انھیں پھر کسی مظفرنگر کی تلاش
ہے۔اقوام متحدہ و دیگر عالمی اداروں کو بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے
مظالم پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔مسلم حکمرانوں کو بھی بھارت میں
مقیم مسلمانوں کی حمایت میں آواز بلند کرنی چاہئے ایک طرف بھارتی افواج
کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم کر رہی ہے تو دوسری طرف انڈیا میں بھی کلمہ
پڑھنے والے محفوظ نہیں۔عالمی برادری کی اس معاملہ پر خاموشی افسوسناک ہے۔ |