حکومت کے کالعدم تحریک طالبان کے
ساتھ مذاکرات بتدریج اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کی
کابیابی کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں طالبانی کمیٹی کے ایک نمایاں رکن
مولانا عزیز بگڑ گئے ہیں اور انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو
ہی غیر شرعی اور غیر اسلامی قرار دے ڈالا ہے جبکہ ترجمان طالبان شاہد اﷲ
شاہد کا کہنا ہے کہ’’ اگر طالبان کو شریعت کے علاوہ کوئی قانون منظور ہوتا
تو جنگ ہی نہ کرتے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا اصل مقصد شریعت کے نفاذ کے
لئے ہے، ہم جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ شریعت کے لیے ہی لڑ رہے ہیں۔ ابھی جو ہم
مذاکرات کریں گے تو وہ شریعت ہی کے لئے کریں گے۔ حکومت کی جانب سے مذاکرات
کے لئے پیش کی گئی تجاویز کے بارے میں غور کیا جا رہا ہے تاہم مزید فیصلے
وہ اپنی نمائندہ کمیٹی سے ملاقات کے بعد کریں گے۔‘‘ جبکہ پاکستان تحریک
انصاف کے چیئرمین عمران خان کا موقف ہے کہ طالبان نے شریعت کے نفاذ کی کوئی
شرط نہیں رکھی، آئین اسلامی نظام کا ضامن ہے، طالبان کی جانب سے آئینی حدود
کے اندر رہ کر مذاکرات پر آمادگی نے دہشت گردی کو شریعت کے نفاذ سے جوڑنے
کی کوششوں میں مصروف عناصر کو بے نقاب کر دیا ہے۔ طالبان کی جانب سے ماضی
میں پاک فوج سے کئے تمام نو امن معاہدوں میں سے کسی ایک میں بھی شریعت کے
نفاذ کی شرط عائد نہیں کی گئی۔ انہوں نے واضح کیا یہ معاملہ پوری طرح کھل
کر سامنے آچکا ہے کہ آئین پاکستان شریعت کا ضامن ہے اور ریاست کو ماورائے
اسلام کسی قسم کی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔ طالبان کی جانب سے امریکی
جنگ سے پاکستان کی علیحدگی اور ڈرون حملے رکوانے کے مطالبات سامنے آنے سے
ہمارے اس موقف کی تائید ہوتی ہے پاکستان میں دہشت گردی امریکہ کی جانب سے
نام نہاد جنگ کا براہ راست نتیجہ ہے اور اس حوالے سے میں ایک عرصے سے
حکومتوں کو خبردار کر رہا ہوں۔
عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما نے ڈرون حملوں کے
مقامی آبادی پر تباہ کن حدتک منفی اثرات کے پیش نظر ان حملوں میں کمی لانے
کا فیصلہ کیا ہے جو جاسوس طیاروں کے حملوں پر ہمارے دیرینہ موقف کی توثیق
کرتا ہے۔ دس سال قبل قبائلی علاقوں میں فوج بجھوانے سمیت انہوں نے ہمیشہ
عسکری کارروائی کی مخالفت کی ہے۔ آج یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہو چکی ہے
ڈالروں پر پلنے والا گروہ امریکی جنگ اور دہشت گردی کے درمیان یقینی نسبت
سے توجہ ہٹانے کیلئے ان پر بہیودہ تنقید میں مصروف ہے۔ عسکریت پسند سیاسی
جماعتوں کی خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والی قیادت بے بنیاد نظریات
پھیلانے میں مصروف ہے جبکہ این آراو سے مستفید ہونے والے، جن کی خبر سابق
امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزا رائس نے اپنی کتاب میں دی اور ڈالر بٹورنے والے
سیاستدان بھی جان بوجھ کر بات کے ذریعے امن کے قیام کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا گفتگو کا عمل آگے بڑھنے سے ملک سے نفرت اور
خون خرابے کا خاتمہ ہوگا اور امن لوٹ آئیگا۔ جو لوگ کہتے تھے طالبان آئین
کو نہیں مانتے وہ بے نقاب ہو گئے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ طالبان
کے ساتھ امن مذاکرات ناکام ہو جائیں اور مذاکرات کے دوران دھماکے یا حملے
ہو سکتے ہیں مگر آپریشن کی صورت میں دہشت گردی میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہ
بات سچ ہے کہ وزیراعظم نے مذاکرات شروع کرنے میں تاخیر کی ہے، وزیراعظم اور
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی غیر سنجیدگی بالکل واضح ہے اور عمران خان
نوازشریف کی جگہ ہوتے تو تو مذاکرات کی سربراہی خود کر تے۔ امریکہ نے ہمیشہ
پاکستان میں امن کی مخالفت کی ہے اور اس سے پہلے بھی جب حکومت کے طالبان سے
مذاکرات ہو رہے تھے تو اسی دوران امریکہ نے ڈرون حملہ کر کے مذاکرات اور
امن کی کوششوں کو ختم کر دیا اور اب بھی امریکہ کی جانب سے ایسی کسی سازش
کا خطرہ موجود ہے ۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد کا کہنا تھا کہ اگر
طالبان کو شریعت کے علاوہ کوئی قانون منظور ہوتا تو جنگ ہی نہ کرتے۔ حکومت
کے ساتھ مذاکرات کا اصل مقصد شریعت کے نفاذ کے لئے ہے، ہم جو جنگ لڑ رہے
ہیں وہ شریعت کے لیے ہی لڑ رہے ہیں۔ ابھی جو ہم مذاکرات کریں گے تو وہ
شریعت ہی کے لئے کریں گے۔ حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لئے پیش کی گئی
تجاویز کے بارے میں غور کیا جا رہا ہے تاہم مزید فیصلے وہ اپنی نمائندہ
کمیٹی سے ملاقات کے بعد کریں گے۔۔ مولانا عبدالعزیز کی مذاکرات میں شمولیت
سے انکار کے بعد نمائندہ کمیٹی کے بارے میں شاہد اﷲ شاہد کا کہنا تھا وہ اب
بھی ان کے نمائندے ہیں، ان کی مشکلات بھی دور ہو جائیں گی۔ حکومت کیساتھ
ملاقات کا اصل مقصد نفاذ شریعت ہے۔
مولانا عبد العزیزنے۔ لال مسجد میں اپنی شوریٰ کے ساتھ پریس کانفرنس سے
خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک مذاکرات میں شریعت کے نفاذ پر بات
نہیں کی جاتی وہ مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہم مذاکرات سے علیحدہ
نہیں ہوئے لیکن تب تک مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے جب تک حکومت وعدہ نہ کرے
کہ آئین پاکستان نہیں بلکہ قرآن اور سنت کی روشنی میں مذاکرات ہوں گے۔
طالبان آئین کو نہیں مانتے، معاملات کیسے آگے بڑھیں گے؟آئین’’ اسلامی
‘‘ہوتا تو کوئی تنازعہ ہی نہ ہوتا، قوم کو دھوکہ و فریب نہ دیا جائے۔ آئین
کی بنیاد قرآن و سنت کو بنایا جائے تو گارنٹی دیتا ہوں تنازعہ ختم ہو جائے
گا۔ حکومت کہتی ہے مذاکرات آئین کے تحت کئے جائیں، طالبان اس آئین کو نہیں
مانتے، معاملات کیسے آگے بڑھیں گے۔ آئین کی شرط نہ لگائیں ورنہ مذاکراتی
عمل میں تعطل پیدا ہو گا۔ آئین کی بجائے قرآن کی شرط رکھی جائے، اگر طالبان
قرآن و سنت کا انکار کریں گے تو حکومت کی ساتھ مل کر جہاد کرونگا۔حکمرانوں
نے اپنے مقاصد کیلئے بنایا، آئین کی وجہ سے ملک مسائل کی آماجگاہ بن گیا،
پورا نظام غیر اسلامی ہے۔ سودکو شرعی عدالت کی جانب سے حرام قرار دیئے جانے
کے بعد سپریم کورٹ نے اس حکم کوکیوں کالعدم قرار دیا۔؟ ہمیں کہا جاتا ہے کہ
پہلے امن ہو پھر شریعت نافذ ہو گی، لیکن ہم کہتے ہیں کہ دوا دو گے تو علاج
ہوگا اور جب ملک میں شرعی نظام ہوگا، قاتلوں اورچوروں کو سزائیں ملیں گی تو
پھر بم بھی نہیں پھٹیں گے اور امن بھی ہوگا۔
مولانا عزیز ہارڈ لائنر ہیں اور چند دنوں سے وہ اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے
ہوئے ہیں جوکہ بالکل غلط ہے اور غیر شرعی بھی ہے تاہم حکومت کا مسئلہ یہ ہے
کہ وہ جس سوچ کے ساتھ مذاکرات کررہا ہے وہ سوچ ہی غلط ہے ۔ہمارا موقف اب
بھی یہی ہے کہ طالبان سے مزاکرات کئے جائیں تاہم گمراہ سوچ کو تبدیل نہیں
کیا جاسکتا ۔شریعت کے نفاذ کا مبالبہ تو وہ کرے جو خود شریئت کا پابند ہو ،محض
داڑھی رکھ لینے سے شرعی سوچ کا اظہار نہیں ہوتا بات عمل سے نظر آتی ہے اور
ان کا عمل ،بلکہ بد عملی دنیا اور قوم کے سامنے ہے ۔بے گناہوں کو خودکش
حملوں میں آگ اور خون میں نہلانا کس شریعت میں جائز ہے؟ کومسی شریعت یا
دنیا کا نظام بے گناہوں کے قتل عام کی اجازت دیتا ہے؟ کوئی بھی ایسا نہیں ،پھر
یہ کس شریوت اور کس اسلام کی بات کرتے ہیں ۔یہ سب ڈھکوسلے ہیں اور واک اوور
حاصل کرنے اور نئی صف بندی کی چالیں ہیں اس پراکسی وار کو اب ہماری قیادت
اور سپاہ وطن کو سمجھنا ہوگا ۔ |