قصور جمہوریت کا نہیں!

با خبر حلقوں کا قیاس ہے کہ آج کل ایک ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کا قیام زیر غور ہے جو دو یا تین سال کے لیے قائم کیا جائے گا۔ یہ سیٹ اپ ملک کا سیاسی نظام سدھارنے ، لاقانونیت کے خاتمے، سیاستدانوں کی مالی بے ضابطگیوں کا حساب کرنے اور ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کام کرے گا۔ یعنی جمہوری تقاضوں کی انجام دہی اور جمہوری حکومت کے فرائض کی تکمیل کے لئے ایک غیر جمہوری سیٹ اپ کو بروئے کار لایا جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اپنے تمام منفی پہلووں کے باوجود جمہوریت یا جمہو ری نمائندے اسقدر ناکام اور نا اہل ہیں کہ انکی غلطیوں کو سدھارنے کے لئے ان پر کبھی آمریت اور کبھی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ مسلط کر دیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی جمہوری حکمرانوں کی مالی بے ضابطگیوں، معاشی عدم استحکام یا ملکی تحفظ کو جواز بناتے ہوئے جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی تو ملک مزید عدم استحکام اور بد حالی کا شکار ہوا۔وطن عزیز کے دولخت ہونے کا سانحہ ہو یا غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے دہشت گردی جیسے وبال کا تسلط۔۔یہ سب غیر جمہوری حکومتوں ہی کی دین ہیں۔ہمارے ہاں فوجی حکمرانوں اور افسرشاہی نے ملک کا سیاسی نظام بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر، جمہوریت اور جمہوری اداروں کو یر غمال بنائے رکھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج اور افسر شاہی کوسیاست میں دخیل اور ملوث ہونے کے مواقع خود سیاست دانوں نے فراہم کیے۔ہمارے ہاں جمہوریت کبھی ناکامی سے دوچار نہیں ہوئی بلکہ یہ جمہوری حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کی ناکامی ہے جنہوں نے فوجی یا دیگر مداخلت کا جواز فراہم کیا۔

قیام پاکستان کے فقط 13 ماہ بعد قائد اعظم کی وفات سے نہ صرف قیادت کا بحران پیدا ہوگیا بلکہ سیاستدانوں کے باہمی اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے۔ مسلم لیگ جو کہ قومی سطح کی تحریک بپا کر کے علیحدہ ملک کا قیام عمل میں لائی، قیام پاکستان کے بعد خود کو قومی سطح کی سیاسی جماعت ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہی، قائد اعظم کے علاوہ ذ یادہ تر لیڈران مقامی یا علاقائی سطح کے سیاستدان تھے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ نہ تو قومی سطح کی سیاست کر سکے اور نا ہی قومی معاملات پر جامع اور واضح لائحہ عمل اپنا سکے۔ لیاقت علی خان مہاجر تھے لہذا ان کی بنائی ہوئی پالیسیاں صوبوں کی بجائے مرکز کو زیادہ سے زیادہ اختیارات کی فراہمی تک محدود تھیں۔ ان کی کابینہ میں ایک گروپ بنگالی تھا جو خواجہ نظام الدین کی سر براہی میں قائم تھا۔ جبکہ خواجہ شہاب الدین پنجابی گروپ کی سربراہی کرتے تھے۔ لیاقت علی خان، ممتاز احمد دولتانہ ، نواب افتخار حسین ممدوٹ کی باہمی اختلافات نے بھی جمہوریت کو نقصان پہنچایا اور جمہوری اقدار کو پنپنے نہ دیا گیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد صورتحال مزید خراب ہوتی چلی گئی۔ ایوب خان اپنی سر گزشت میں لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان کی وفات کے بعد جب وہ کراچی میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین اور کابینہ کے دیگر اراکین سے ملے تو انکی خود غرضی اور بے حسی کا عالم یہ تھا کہ کسی نے لیاقت علی خان کا ذکر تک نہ کیا۔سیاستدانوں کے انہی شدید اختلافات اور عداوتوں نے ایوب خان کے مارشل لاء کی راہ ہموار کی ۔

سیاستدان اپنے ذاتی اختلافات اور اقتدار کے حصول کی جنگ میں مصروف رہے اور آئین ساڑھے آٹھ سال بعد بن سکا ۔ تب تک گورنر جنرل/ صدر کا عہدہ طاقت کا مرکز بن چکا تھا۔ بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے گورنر جنرل غلا م محمدا ور بعد میں افسر شاہی اور فوجی پس منظر کے حامل گورنر جنرل اور صدر سکندر مرزا کا جھکاؤ اور انحصار سیاستدانوں کی بجائے فوج اور افسر شاہی کی طرف رہا اور یوں شروع سے ہی فوج اور افسر شاہی سیاستدانوں پرہاوی رہیں۔ ملک کے پہلے صدر نے فقط دو سال میں چار وزراء اعظم کو گھر بھیجا جو کہ سیاستدانوں کی کمزوری کا مظہر تھا۔ 1958میں ایوب خان نے سکندر مرزا کی مدد سے سول حکومت کا تختہ الٹ دیااور فقط 20دن بعد سکندر مرزا کو گھر بھیج کر اقتدار کا بلا شرکت غیر مالک بن بیٹھا۔ ایوب خان کا دور آمریت ہویا یحیٰ خان کا ،ہمارے سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے خلاف سازشوں اور اقتدار کے حصول کی جنگ میں ان آمروں کی نہ صرف راہ ہموار کی بلکہ ان کے بازو مضبوط کرتے ہوئے ان کے ساتھ شامل اقتدار بھی رہے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں بنگلہ دیش کے خلاف کی جانے والی فوجی کاروائی اور بعد میں انڈیا کے ساتھ جنگ میں پاکستانی فوج کی پسپائی کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا۔ کسی حد تک یہ صورتحال بھی سیاستدانوں کی پیدا کر دہ تھی۔ حصول اقتدار کے لیے ذوالفقار علی بھٹو اور عوامی لیگ کے شیخ مجیٰب الرحمن کی باہمی چپقلش ملکی مفادات اور سلامتی پر غالب رہی ،یوں ہم پاکستان کا ایک حصہ گنوا بیٹھے ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاستدان کچھ سبق سیکھتے مگر کچھ ہی عرصہ بعد بھٹو صاحب کے دور حکومت میں سیاستدانوں کی باہمی جنگ و جدل ایک بار پھر شروع ہو گئی۔ بھٹو صاحب نے ISI کاسیاسی ونگ قائم کیا۔ جسے وہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی لیئے استعمال کرتے رہے۔ ٓآنے والے وقت میں جمہوری حکمران اس سیاسی ونگ اور دیگر ایجنسیوں کو اپنے مخالف سیاست دانوں کے خلاف استعمال کرکے سیاسی نظام اور اقدار کو مزید کمزور کرتے رہے۔ بھٹو صاحب نے اپوزیشن کی بھٹو مخالف تحریک کو کچلنے کے لیے فوج کا استعمال کر کے جنرل ضیاء کو اقتدار پر قابض ہونے کا موقع فراہم کیا۔ سیاستدانوں نے اس اقدام پر احتجاج نہ کیا بلکہ سراہا۔ آنے والے وقت میں بہت سے سیاستدان ان کے ساتھ شامل اقتدار رہے۔ 1988سے 1999تک PPPاور مسلم لیگ سیاسی محاذ پر ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار رہیں۔ ایک کی حکومت گرائی جاتی تو دوسرے کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا جاتارہا۔ 1999میں جنرل پرویز مشرف کے بر سر اقتدار آنے پر سب سے زیادہ نقصان انہیں دونوں جماعتوں کو ہوا۔ اس دور میں بھی موقع پرست سیاست دانوں نے ق لیگ کی صورت میں اقتدار حاصل کرنے کا موقع غنیمت جانا اور جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بد نامی اور پا مالی کا سبب بنے ۔

مگر اس تمام صورتحال کے باوجود بد ترین جمہوریت بھی بجا طور پر آمریت سے بہتر ہے۔ تقریبا دس سالہ آمریت کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو توقع کی جارہی تھی کہ ہمارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں تدبر اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی و جمہوری اداروں کی مظبوطی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہیں گی اور غیر سیا سی قوتوں کو اپنے اوپر ہاوی ہونے کے مواقع فراہم نہیں کیے جائیں گے۔ میثاق جمہوریت کی صورت میں کیا گیا معاہدہ سیاسی نظام کو مستحکم بنانے کے حوالے سے مشعل راہ تھا۔مگر موجودہ دور میں بھی مختلف سیا سی جماعتوں کے مابین اختلافات اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں جاری رہیں۔ اس تمام صورتحال میں بھی یہ پہلوبے حد مثبت ہے کہ حکومت سے تمام تر اختلافات اور کڑی تنقید کے باوجود تقریبا تمام سیاسی جماعتیں اس حوالے سے متحد اور یکسوہیں کہ حکومت ہٹانے کے لئے کسی غیر جمہوری قوت کا ساتھ نہیں دیا جائے گا۔اپوزیشن جماعت مسلم لیگ(ن) اس حکومت کے غیر جمہوری خاتمے میں کسی طرح حصہ دار نہ بننے پر فرینڈلی اپوزیشن کی چھاپ لگوا چکی ہے۔تمام تر اختلافات اور منفی صورتحال کے باوجود متفقہ آئینی ترامیم، الیکشن کمشنر کا انتخاب اور نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے کئے گئے فیصلے بہت مثبت ہیں جو کہ جمہوری حکومت میں ہی کئے جا سکتے تھے۔ ۔ اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے مابین اختلافات کے باوجود اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے بھی (ماضی کی روایات کے بر عکس)کسی آمرانہ یا غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدان اپنے باہمی اختلافات، ایک دوسرے پر نکتہ چینی اور حصول اقتدار کی خواہش کے باوجود جمہوی اداروں اور جمہوری نظام حکومت کو بچانے کے لئے کوشاں رہیں۔ دوسری طرف جمہوری حکمرانوں کی غلطیوں کی سزا جمہوریت کو قطعا نہیں دی جانی چاہئیے اور نہ ہی جمہوری ادوار کی نا اہلی کا ازالہ کسی آمرانہ یا ٹیکنو کریٹ نظام سے ممکن ہے۔ جمہوری نظام جاری رہنا چاہیئے اور کسی ایک جمہوری حکومت کی نااہلی کا کفارہ ایک نئی جمہوری حکومت کو ہی کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے نہ کہ کسی طویل تجرباتی سیٹ اپ کو۔
Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25385 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.