کون ہے قاتل، کس کو مسیحا جانیں؟

گزشتہ جمعہ (14فروری)دہلی میں کیجریوال کے 49روزہ چوپٹ راج کا خاتمہ ہوگیا اور نئی نویلی پارٹی بلاجواز استعفے کو قربانی کا چولہ پہنا کر اگلے چناؤ کے لئے فضا سازی میں لگ گئی۔ اس واقعہ سے چندروز قبل دانشوران علی گڑھ کی رائے سامنے آئی، ’عام آدمی پارٹی ‘کی ہوا چل رہی ہے، اسی کے ساتھ ہولینا چاہئے۔اس کے بعدایک داناو بینا رہنما کا یہ فرمانا اخباروں کی سرخی بنا کہ ’عام آدمی پارٹی‘ ہمارے لئے سیاسی متبادل ہوسکتی ہے۔ دہلی میں ملی دانشوروں کی مشاورتی میٹنگ میں جب ایک صاحب نے کہاکہ فسادات کی سیاست جیسے اہم امور پر ’عام آدمی پارٹی‘ سے اس کا موقف معلوم کیا جانا چاہئے ، تو ایک دوسرے صاحب نے فرمایا، ابھی نئی پارٹی ہے ، ابھرنے تو دیجئے، پھر سوال کیجئے۔

یہ آراء اس کے باوجود آرہی ہیں کہ اروند کیجریوال کو دہلی میں کچھ کرنے کا جو موقع ملا تھا ، اس میں کچھ خاص کردکھانے کے بجائے، وہ قاعدے قانون توڑکر افراتفری کا ماحول بنانے میں لگے رہے۔عام آدمی پارٹی کوعوام نے اس توقع سے چنا تھا کہ وہ اپنے بلندد بانگ دعووں کو عملی جامہ پہنائے گی اورعوام کو راحت کی سانس آئے گی، مگروائے حسرت!
آئے بھی وہ، چلے گئے، ختم فسانہ ہوگیا

فرقہ ورانہ جانبداری
عام آدمی پارٹی کے طلوع سے ایسا لگا تھا کہ یہ پارٹی ذات، برادری اور فرقہ بندی کی سیاست سے اوپر اٹھ کر سب کی فکر کرے گی، مگر جلد ہی یہ فسوں جاتا رہا۔ اس کو 1984 میں ہمارے سکھ بھائیوں پر مظالم کی تو فکر ہوئی ، ایس آئی ٹی بٹھا دی گئی، مگر ملک بھر میں فرقہ ورانہ فسادات کی سیاست پر، جس کی زد کمزور طبقوں اوراقلیتوں پر پڑتی ہے، ایک جملہ بھی نہیں کہا گیا۔ مظفرنگر اور شاملی دہلی سے دور نہیں، مگر وہاں کے مظلوموں کی دل جوئی ،ان کی حکمت عملی کے خلاف قرار پائی۔ یہ کیا بات ہوئی کہ جس خون خرابے میں صحیح یا غلط کانگریس کے کارکن ملزم بنائے گئے، اروند کیجریوال اس میں تو دلچسپی لیں ، لیکن جس فتنہ و فسادمیں بھگوا کارکنوں کی کار گزاری صاف نظرآتی ہو، ان کی حوصلہ افزائی اور عزت افزائی برسرعام کی جارہی ہو، اس کا ذکر تک نہ ہو؟ حالانکہ فرقہ وریت کی سیاست سے بلند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہرظالم کو ظالم کہا جائے اور ہرمظلوم کے درد کو محسوس کیا جائے اور کہا جائے کہ فساد سے متاثر ہرفرد کو، چاہے اس کا تعلق کسی بھی فرقہ، ذات اور خطے سے ہو، یکساں رلیف فراہم کی جائے۔ سب کو انصاف دیا جائے۔

اسی طرح کا ایک مسئلہ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت ایک فرقے کے نوجوانوں کو دہشت گردی کے بے بنیاد الزام میں پھنسانے کا بھی ہے۔ ایسے کئی کیسوں میں عدالتیں پولیس کے خلاف سخت ریمارکس دے چکی ہیں۔فرقہ پرستانہ عصبیت کے شکار اس طرح کے مظلوموں کے بارے میں پارٹی خاموش ہے۔اگر سیاسی ترجیحات فرقوں کی بنیاد پر طے کی جاتی ہیں تو پھر سیاسی نظریہ فرقہ پرستی سے بلند کہاں رہا؟

کرپشن کا نعرہ
کرپشن کے خلاف عام آدمی پارٹی کا نعرہ خوب چلا۔ مگر یہ کیا بات ہوئی کہ ایک پارٹی کا تو ہرچھوٹا بڑا لیڈر داغی نظرآئے، اور وہ پارٹی جس کا ہر لیڈر سرتا پا نظریاتی کرپشن میں مبتلا ہے، مذہب کو بنیاد پر سیاست کرتا ہے، جس کے متعدد لیڈر مالی کرپشن میں ڈوبے ہوئے پکڑے گئے، اس کے خلاف محاذ سونا رہے؟ کرپٹ لیڈروں کی فہرست ہو یا لوک سبھا کے امیدواروں کی پہلی لسٹ، دونوں میں یہ جانبداری صاف نظر آتی ہے۔اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سرگرم سیاست میں کرپٹ لوگوں کا بول بالا ہو گیا ہے، مگر اروند کیجریوال کو جتنا کانگریس کا کرپشن نظرآتا ہے ،اتنا بھاجپا کا کیوں نظر نہیں آتا؟ حالانکہ بھاجپا نے کرپشن کا بھانڈا پھوڑ ہونے کے بعد اپنے دوقومی صدور اور کئی وزرائے اعلا کو بدلا ۔اس کے کوئلہ مافیا لیڈراورسابق وزیر جیل گئے۔ انتخابی مفاد کی خاطر پھرکرناٹک کے اسی لیڈر کوپھرگلے لگا لیا جس کو کرپشن کی بدولت پارٹی سے نکالا ملا تھا۔ جس پارٹی کو باہر کی کالی دولت کی تو فکر ہے مگر خود مودی کا قدبڑھانے کے لئے بے دریغ دولت بہارہی ہے۔ یہ اگر کالا دھن نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ مگر کیجریوال اس پر سوال نہیں اٹھائیں گے۔ آخر کیوں؟

اختیارات اور کام کا ارادہ
یہ بات درست ہے کہ دہلی کی ریاستی سرکار کو اس طرح کے اختیار حاصل نہیں، جس طرح کے دیگر ریاستی حکومتوں کو حاصل ہیں۔ لیکن جوانتظامی اختیارات اس کے پاس ہیں ان کو بروئے کار لاکر بھی بہت کچھ عوام کا بھلاکیا جاسکتا ہے۔ بہت سی ناانصافیوں کا ازالہ ہوسکتا ہے۔شیلا دیکشت کی سرکار نے انہی اختیارات کواستعمال کرکے گزشتہ دس سال میں دہلی کا رنگ روپ بدل ڈالا۔اسی طرح مزید کام ہوسکتا ہے۔ مگر کیجریوال سرکار پر سیاسی ہواباندھنے کی فکر حاوی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان 49دنوں میں قومی راجدھانی میں حکمرانی مفقود اور آرجکتا ہر جگہ موجود نظر آئی۔ بیشک نظام حکومت میں بہت کچھ خرابیاں ہوسکتی ہیں، مگر ایک اچھا ڈاکٹر اسپتال کی بدانتظامی کو بہانا بناکر بھاگ نہیں جاتا،بلکہ نظام اور مریضوں کی صحت کی بحالی کی تدبیروں میں لگا رہتا ہے۔ ڈاکٹر کی دلچسپی اگر صرف سیاسی شعبدہ بازی میں ہوگی تو وہ بیشک مریض کو بستر مرگ پر چھوڑ کر دھرنوں اور مظاہروں میں لگا رہے گا جیسا کہ اروند کیجریوال نے کیا۔ اگر ان کے 49 دن کے راج کا موازنہ سقے کے دو دن کے راج سے کیا جائے (جس کو ہمایوں بادشاہ نے اس لئے تخت پر بٹھادیا تھا کہ اس نے 1539میں چوسا کی جنگ میں شیرشاہ سوری سے شکست کے بعد بھاگتے ہوئے بادشاہ کو اپنی مشک میں ہوا بھرکر دریائے گنگا پار کرادیاتھا) تو سقے کا پلڑا ہی کچھ بھاری نظر آئے گا۔

لوک پال بل
لوک پال بل کے جس معاملے کو بہانا بناکرانہوں نے استعفا دیا، اس سے بھی ان کی منشاء قانون سازی سے زیادہ سیاسی شعبدہ گری نظرآتی ہے۔ پہلے کہا کہ بل کے لئے خصوصی اجلاس رام لیلا میدان میں لگایا جائیگا، پھر کہا کہ آئی جی انڈو راسٹیڈیم میں ہوگا اور آخر میں جب اسمبلی ہاؤس میں ہی اجلاس ہوا، تو اس کو لائیو ٹی وی چینلوں پر دکھانے کا بندوبست کیا گیا۔بل پیش کرنے کے لئے مقررہ ضابطوں کو بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ اگر دلچسپی قانون سازی میں ہوتی، توبل کو اسمبلی میں لانے سے پہلے اس پر ایل جی کی رائے ہموار کرنے میں کیا قباحت تھی؟اگر ایل جی سے پیشگی رائے مشورے کا ضابط غلط ہے تواس کو عدالت میں چیلنج کیا جاتا۔یہ مزاج کہ ہم جس کو درست سمجھیں، بس وہی درست ہے، آمرانہ ذہنیت کی علامت ہے، جس کی جمہوری نظام میں کوئی جگہ نہیں۔ نظام میں مطلوبہ تبدیلی کا تقاضا یہ ہے کہ صبر و تحمل سے کام لیا جائے اورموجودہ نظام کو تاراج کئے بغیر حکمت کے ساتھ اسی میں سے راستہ نکالا جائے۔ مگر یہ کام تب ہی ہوسکتا ہے جب سیاسی ہوا باندھنا نہیں ، کچھ اچھا کرنا مطلوب ہو۔

ملت غور فرمائے
اپنے ان ملی رہنماؤں سے جوناتجربہ کار اورخودسر عام آدمی پارٹی میں سیاسی متبادل تلاش کررہے ہیں، ہم عرض کرتے ہیں کہ اس دریا میں غوطہ لگانے سے پہلے یہ بھی غور فرمالیجئے کہ دریا نکلا کہاں سے ہے، اس کا پانی کیسا ہے؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ عام آدمی پارٹی کا جنم انا ہزارے کے اندولن سے ہوا ، جس کی پشت پر سنگھ پریوار کھڑا ہوا تھا۔ سنگھ نے جیسے ہی اپنی بیساکھی ہٹائی ، ممبئی میں انا ہزارے کا آندولن اوندھے منھ گر پڑا۔اس تحریک کو کھڑا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ بھاجپائی کرپشن سے عوام کی توجہ ہٹائی جائے اور ملک میں افراتفری، بددلی اور مایوسی کا ماحول پیدا کیا جائے۔ عام آدمی پارٹی آج تک یہی کررہی ہے۔ یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ خود غرض آمریت افراتفری کے بطن سے ہی جنم لیتی ہے۔ مہاراشٹرا کے سابق آئی جی، ایس ایم مشرف نے اپنی شہرہ آفاق کتاب’ ’کرکرے کے قاتل کون؟‘‘ میں سنگھیوں کے اس سازشی منصوبے کا خاکہ کھینچا ہے جس کا مقصد ملک کے جمہوری نظام کو عوام کی نظروں میں بے توقیر کرکے ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس میں آمریت کے لئے راستہ صاف ہوجائے۔ 15ویں لوک سبھا کے آخری اجلاس میں ’مرچی گن‘ تو نکل آئی،پارلیمنٹ کے احاطے میں پولیس بھی بلانی پڑی۔ وہ سیاہ دن بھی آ سکتا ہے جب گولیاں چلیں اور فوج کو مداخلت کرنی پڑجائے۔ ہمیں یہ نہیں بھول جانا چاہئے کہ ہر ادارے میں سنگھی ذہنیت سرایت کرچکی ہے۔ استعفا دے کر یا ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد سول حکام، پولیس اور فوج کے افسران کی بھاجپا میں شمولیت، ہریانہ میں سابق فوجیوں کے جلسے میں مودی کی شرکت اور ان کے ساتھ حال ہی میں سبکدوش آرمی چیف کی موجودگی، کس طرف اشارہ کرتی ہے؟

یہ نام نہاد سیکولر علاقائی پارٹیاں اور لیڈر موقع کی تلاش میں ہیں، اقتدار میں حصہ شرط ہے،چھوڑ کر جانے والوں کو واپس آنے میں دیر لگے گی ۔ ملائم سنگھ یادو کا یہ کہنا کہ یوپی میں الیکشن بھاجپا اور ان کی پارٹی کے درمیان ہوگا ،اس سیاسی سازش کا پتہ دیتا ہے جس کے نتیجہ میں مظفرنگر اور شاملی ہوا۔ ان کو اگر کلیان سنگھ کو گلے لگانے میں اعتراض نہیں ہوا تو مودی کے ساتھ ساجھیداری میں کون مانع ہوگا؟ سوشلسٹ ذہنی طور سے سنگھی نظریہ کے ہمیشہ قریب رہے ہیں۔

صورتحال کے اس مختصر جائزے سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ وہ ہم ناظرین کی صوابدید پر چھوڑدیتے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے چند متبادل ہیں۔ ایک طرف سنگھ پریوار ہے، جس کی ہرممکن کوشش یہ ہے کہ اقتدار پر اس کا قبضہ ہوجائے۔ دوسری طرف علاقائی چھوٹی پارٹیاں ہیں، جن کو سنگھ پریوار کے ساتھ جانے میں کوئی اصول یا نظریہ مانع نہیں۔ اب بچی کانگریس جس نے پرفریب اعلانوں سے سنگھ کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں۔ حال ہی میں اعلان ہوا، مسلمانوں کے لئے چار یونیورسٹیاں قائم کی جائیں گیں۔ جو مرکزی سرکار اپنی ہی پارٹیوں کی زیرحکومت ریاست مہاراشٹرا میں مسلم یونیورسٹی کا ایک سنٹر قائم نہیں کراسکی ،وہ چاریونیورسٹیاں کیونکر قائم کرادے گی؟ ہوم منسٹر صاحب بار بار اعلان کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار بے قصور نوجوانوں کے معاملات صاف کئے جائیں، مزید گرفتاریاں نہ کی جائیں، مگر خود یو پی اے کی زیرحکومت ریاستوں میں کیا حال ہے؟گزشتہ پارلیمانی الیکشن سے قبل اعلان کیا گیا کہ مسلمانوں کو چھ فیصد ریزرویشن دیا جائیگا، ایک وزیر نے تو نوفیصد تک کا اعلان کردیا، ملائم سنگھ یادو نے بھی خوش کن اعلانات کی جھڑی لگادی، مگرملا کچھ نہیں، البتہ سنگھیوں کو اپنا ووٹ بنک مستحکم کرنے کا موقع مل گیا۔الزام یہ ہے کہ اقلیت کی منھ بھرائی کی جاتی ہے، حالانکہ سچر کمیٹی نے صاف کردیا کہ منھ بھرائی نہیں کی گئی ، غار میں دھکیلنے کی پالیسیاں اختیار کی گئیں۔

ان وجوہ سے کانگریس سے بددلی بجا ہے، لیکن ایسے منظر نامے میں جب کہ ملک میں جمہوریت اور تکثیری معاشرت داؤں پر لگی ہوئی ہے،آمریت کا اندیشہ سر پر منڈلا رہا ہے، ہمیں سوچنا ہوگا کہ سیکولر آئین اور جمہوریت کی بقا کی خاطر جذبات سے اوپر اٹھ کر دانشمندی کے ساتھ کوئی بڑا فیصلہ کرنا چاہئے یا اس طوفان میں ناؤ کو منجدھار میں جاکر ڈوب جانے دینا چاہئے، بھلے ہی اس کے بطن سے کوئی ہٹلر، کوئی مسولونی اور کوئی نریندر مودی ملک پر قابض ہوجائے؟ آج بس اتنا ہی۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164115 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.