الله نے انسان کو‘ بیک وقت‘ ان گنت صلاحیتوں سے سرفراز
فرمایا ہے لیکن انسان ان میں سے‘ ایک دو صلاحیتں استعمال کر پاتا ہے۔ جوایک
سے زیادہ استعمال میں لے آتا ہے‘ وہ اس پر اتراتا ہے‘ حالاں کہ اس میں
اترانے والی کوئی بات ہی نہیں اور ناہی حیرت والی بات ہوتی ہے۔ وہ دئیے میں
سے استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ کسی خیال کو دئیے وسائل کے حوالہ سے تجسیم
فراہم کی جاتی ہے۔ غیر موجود کو تصرف میں لایا جائے تو اترانے کا پہلو ضرور
نکلتا ہے۔
پروفیسر راؤ اختر علی چند ایسے لوگوں میں ہیں‘ جو ایک وقت میں کئی صلاحیتوں
کو استعمال میں لا رہے ہیں۔ وہ بہترین منتظم تو ہیں ہی‘ شجر کاری میں بھی
کمال رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر انگریزی کے استاد ہیں لیکن علوم اسلامیہ میں
قابل تحسین معلومات رکھتے ہیں۔ جمعہ یا کسی دوسرے خطاب میں سننے لائق ہوتے
ہیں۔ دفتری خط و کتابت میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے ڈاافٹس ادبی نوعیت کے
ہوتے ہیں۔ تعمرات‘ لائبریری امور ہوں یا پبلک ڈیلنگ‘ مہارت رکھتے ہیں۔ اصل
کمال یہ ہے کہ‘ تکبر سے دور بھاگتے ہیں۔ کوئی ان کے کام کی تعریف کرئے‘ تو
یہ کہہ کر ‘آپ کچھ زیادہ سے کام نہیں لے رہے‘ شرمندہ کر دیتے ہیں۔ یہ جملہ
اس انداذ سے کہتے ہیں کہ بناوٹ کا کوئی نہیں پہلو نکلتا۔
کچھ دن ہوئے‘ معلوم ہوا کہ‘ وہ اسٹیج ڈرامے سے بھی دل چسپی رکھتے ہیں۔
ڈینگی مہم کے حوالہ سے‘ انھوں نے ایک ڈرامہ ‘زندگی سے پیار کرو‘ کروایا۔ یہ
ڈرامہ پسند کیا گیا۔ اس ڈرامے کے رائٹر پروفیسر جیکب پال‘ ہدایت کار
پروفیسر طارق جاوید‘ ملبوسات کا اہتمام پروفیسر ارم شہزاد جب کہ پروفیسر
محمد اشرف نے اسٹیج کی ڈرامائی فضا تشکیل دی۔ ڈرمائی کرداروں میں
عبدالرحمن‘ علی احمد‘ معصب عثمان محمد طفیل‘ امجد علی اور علی حسن نمایاں
تھے۔ خدا لگتی یہی ہے‘ کہ ہر کسی نے اپنی اپنی سطع پر قابل تحسین کام کیا۔
سب کچھ زندگی کے قریب قریب تھا۔ ڈینگی کو کنڈوم چڑھانے میں‘ کوئی کسر باقی
نہ رہی۔
عملی بھاگ دوڑ اور کوششوں کے سبب‘ ڈینگی کو سر کیا جا چکا ہے اور سب
اجتماعی اور انفرادی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ
مخلص کوششوں کے نتیجہ میں‘ ناممکن‘ ناممکن نہیں رہ پاتا۔ وزیر اعلی پنجاب
اسی مخلصی سے پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن آفس سے ڈینگی عناصر کا خاتمہ
کرنا چاہیں تو‘ یہ ناممکن اور کٹھن گزار منزل بھی طے ہو سکتی ہے۔ اگر وہ
سنجیدہ توجہ دیں گے تو وہاں سے کینسر اور ایڈز کے وائرس کا بھی کھوج لگا
سکیں گے۔
کالج کے ابتدائی عہد میں‘ ڈرامہ اسٹیج کرنے کی روایت نہیں ملتی۔ اس کا آغاز
١٩٦٤ میں پروفیسرمبشر احمد کے دور میں ہوا۔ باقاعدہ ڈرامٹیک سوسائٹی کا
قیام عمل میں لایا گیا۔ کالج انتظامیہ کا تعاون اس سوسائٹی کو حاصل تھا۔
پروفیسرمبشر احمد کے بعد پروفیسر اکرام ہوشیارپوری نے‘ اس سوسائٹی کو مزید
فعال بنایا۔ ان کے عہد میں ڈرامے اسٹیج بھی ہوئے اور ناظرین میں‘ شہر کے
معززین کے علاوہ‘ لاہور وغیرہ سے معززین کو بھی مدعو کیا گیا۔ ان کے ساتھ
ڈرامہ کاروں کے ساتھ ساتھ‘ اساتذہ کے بھی فوٹو لیے گئے۔ ان میں سے بہت سے
فوٹو گرافس پروفیسر اکرام ہوشیارپوری باقاعدہ ریکارڈ میں رہے۔ کالج میگزین
الادب میں ڈراموں کی رپورٹس اور فوٹوگرافس بھی شائع ہوئیں۔ ان ڈراموں میں
شامت اعمال‘ احمد شاہ ابدالی‘ ٹیپو سلطان نے شہرت حاصل کی‘ تاہم پروفیسر
اکرام ہوشیار کا ڈرامہ ‘دیکھی تیری دنیا‘ نے سوسائٹی کی دھاک بیٹھا دی۔
گردش زمانہ دیکھیے‘ انتظامیہ کی تبدیلی کے علاوہ بہت سے عناصر‘ شخصی و
انتظامی ترجعحات کے زیر اثر‘ سب قصہءپارئنہ ہو کر رہ گیا۔
کالج میگزین میں بھی ڈرامے شائع ہوئے۔ ان میں پروفیسر اکرام ہوشیارپوری‘
منیر راج‘ شیث خاں اور چوہدری ظہور احمد کے ڈرامےشامل ہیں۔
|