ایک انگریز سائنسدان اس خیال میں گم تھا کہ
ایسی کونسی نئی تحقیق سامنے لائی جائے جوآج تک کسی اور سائنسدان نے نہ کی
ہو۔ اسی اثناء میں اُس کے پیٹ سے گیس خارج ہو گئی اور وہ سوچ میں پڑ گیا کہ
یہ گیس آخر جاتی کہاں ہے۔ اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اُس نے گیس پر
تجربہ شروع کر دیا اور اپنے تجربے کی روشنی میں بتایا کہ انسانی جسم سے
خارج ہونے والی زہریلی گیس خلاء میں جمع ہو کر نہ صرف آلودگی کا باعث بنتی
ہے بلکہ مختلف بیماریوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ سائنسدان نے اپنی حکومت کو
مشورہ دیا کہ اگر وہ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے فلٹریشن پلانٹ لگا دے جو
انسانی جسم سے خارج ہونے والی گیس کو ذخیرہ کر سکیں تو نہ صرف ملک سے
آلودگی ختم ہو سکتی ہے بلکہ اس گیس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بھی
خاتمہ ہو جائے گا۔ پاکستانیوں نے اس سائنسدان کے تجربے سے یہ دیسی نسخہ
اَخذ کیا ہے کہ تمام پاکستانی ایک دن میں جتنی گیس خارج کرتے ہیں اگر حکومت
پورے ملک میں فلٹریشن پلانٹ لگا کر یہ گیس ذخیرہ کر لے تو اس سے راولپنڈی
شہر کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے اور اگر ہر پاکستانی روزانہ مولیوں والے
پراٹھے، آلو اور گوبھی کھائے تو پھر انسانی جسم سے خارج شدہ گیس نہ صرف
پورے ملک کی ضرورت پوری کر سکتی ہے بلکہ یہ گیس ہم پڑوسی ممالک کو بھی
فروخت کرسکتے ہیں۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں آج کل ہر ایک کی زبان سے
یہی ایک لفظ بار بار سننے کو ملتا ہے کہ گیس بند ہے۔ پاکستان میں گیس کا
بحران شدت اختیار کر تا جا رہا ہے۔ سی این جی اسٹیشنوں پر جائیں تو گیس بند،
صنعتوں کیلئے گیس بند، گھروں میں گیس بند، صرف ایک انسانی گیس اِس پابندی
سے آزاد ہے۔ برسوں سے انسانی معدوں میں پیدا ہونے والی گیس ضائع ہو رہی ہے
بلکہ برصغیر پاک و ہند میں حکماء کی حکمت ہی اس زہریلی گیس کے اخراج پر ہو
رہی ہے۔ ماضی میں ارجنٹائن کے سائنسدان گائے کے معدے میں پیدا ہونے والی
زہریلی گیس کو قابل استعمال بنا کر اس سے گاڑیاں چلانے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔
گائے کے معدے میں پیدا ہونے والی زہریلی گیس کو پائپ کی مدد سے سلنڈر میں
منتقل کیا جاتا ہے اور پھر قدرتی گیس بنائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق
روزانہ ایک گائے کے معدے سے اڑھائی سو سے تین سو لیٹر تک قدرتی گیس بنائی
جا سکتی ہے۔ برصغیر کے باشندے ایک وقت میں اتنا کچھ ڈکار لیتے ہیں کہ ان کے
معدے ارجنٹائن کی گائیوں سے بھی زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں۔ رہی بات ان میں
گیس پیدا ہونے کی تو جتنی گیس اس خطے کی اشرف المخلوقات کے معدوں میں پیدا
ہوتی ہے شاید ’’سوئی‘‘ کے مقام سے بھی دستیاب نہ ہو۔ حکومت چاہے تو ملک سے
گیس کا بحران ختم کرنے کیلئے انسانی گیس کو بطورِ ایندھن استعمال میں
لاسکتی ہے۔ اگر ہمارے سائنسدان انسانی جسم میں پیدا ہونے والی گیس کو ذخیرہ
کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نہ صرف توانائی اور ایندھن کا مسئلہ مستقل
بنیادوں پر حل ہو سکتا ہے بلکہ اس گیس کے اخراج سے انسانیت بھی سکھ کا سانس
لے سکتی ہے۔ ہمارے سائنسدان اس قدر مصروف ہو چکے ہیں کہ انہیں اِس طرف
دھیان ہی نہیں رہتا جبکہ مغربی سائنسدان انسانی جسم سے خارج ہونے والی گیس
پر کچھ نہ کچھ تجربات کرتے رہتے ہیں۔ اِن سائنسدانوں نے بیڈ میں گیس خارج
ہونے کا یہ توڑ نکالا ہے کہ کیمیکلز سے تیار شدہ انڈرویئر پہننے سے بدبو
اورآواز نہیں آئے گی۔ یعنی رات کو بیڈ میں سونے کے دوران گیس خارج ہونے پر
اگر کوئی اپنے پارٹنر کو بیڈ سے باہر نکال دیتا ہے تو اب اس بات کی نوبت
نہیں آئے گی، کیونکہ اب ایسے انڈرویئر بنائے گئے ہیں جن کے ذریعے خارج کی
گئی گیس سے بدبو ختم ہو جاتی ہے۔ اِن انڈرویئرز میں ایسے کیمیکلز لگائے گئے
ہیں جو انسانی گیس دو سو گنا زیادہ تیزی کے ساتھ فلٹر کرتے ہیں جس کے نتیجے
میں گیس کی بدبو بالکل ختم ہو جاتی ہے اور دونوں پارٹنرز میں سے کسی کو بھی
ایک دوسرے کی گیس کی بدبو نہیں آتی۔ اس کے علاوہ اس انڈرویئر کو پہننے کے
بعد بدبو کے ساتھ ساتھ گیس خارج ہونے کی آواز بھی نہیں آتی۔ پاکستان میں
گیس کا بحران اس حد تک جاری ہے کہ ہفتے میں اگر ایک یا دو دن کیلئے سی این
جی اسٹیشنوں پر گیس ملتی بھی ہے تو اس کے حصول کیلئے گاڑیوں کی لمبی قطاریں
لگ جاتی ہیں اور خلاء سے گزرنے والا مسافر یہی سمجھتا ہے کہ شاید پاکستان
نے ترقی کرکے دیوارِ چین کی طرز پر اپنی دیوار بنالی ہے۔ اب تو ہمارے
حکمران بھی کسی اور ملک جاتے ہیں تو میزبان ملک کے سربراہان پہلا سوال یہ
کرتے ہیں کہ جب پاکستان میں گیس تک موجود نہیں توآپ نے ایٹم بم کیسے بنا
لیا۔ خود میاں صاحب نے بھی یہ اعتراف کر دیا ہے کہ اُن کے دورہ امریکا کے
دوران مسٹر اوباما اس طرح کا طنزیہ سوال کر چکے ہیں۔ بھٹو نے بہت پہلے کہا
تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے مگر بعد کے حکمرانوں
نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ عوام واقعی گھاس کھانے پر مجبور ہو گئے
ہیں۔ بہرحال بات گیس کی ہو رہی تھی، اس وقت دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ گیس
بھی ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے پاکستان میں گیس
کے بحران کا نام تک لوگوں کے ذہن و گمان میں نہیں تھا مگر اب گیس کے حوالے
سے حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ گیس برائے نام ہی دستیاب ہے۔ ایسی
صورتحال میں انسانی جسم سے خارج ہونے والی گیس کو اگر ذخیرہ کرکے صنعت
چلائی جائے تو کتنا مزا آئے۔ پاکستانی سائنسدانوں سے میری درخواست ہے کہ وہ
اس ٹیکنالوجی کوآگے بڑھانے میں مغربی سائنسدانوں کا ساتھ دیں۔ |