شاعری کے حق اور شاعری کے خلاف‘ بہت کچھ کہا اور لکھا
جاتا رہا ہے۔ مذہبی طبقوں کے ہاں بھی اسی دوہری صورت سے دوچار رہی ہے۔
غنائیت کی بنا پر اس کی مخالفت ہوتی رہی ہے' جب کہ فکری حوالہ سے نظر انداز
بھی نہیں کیا گیا۔ خطبات میں شعری قرآت میں آتے رہے ہیں۔ اس کی مخالفت کی'
غالبا ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاعری اپنے عہد کے سیاسی حالات کی بھی
امین ہوتی ہے۔ قصیدے کے علاوہ' تلخ حقائق کو بھی اپنے دامن میں سموئے چلی
جاتی ہے۔ شاعر علامتوں' استعاروں اور اشاروں کنائیوں میں' وہ کچھ کہتا چلا
جاتا ہے' جو اس عہد کے شاہ کے نازک دماغ پر گراں گزرتا ہے۔ شاعر شاہ کے
گماشتوں کو بھی' لفظ کی گرفت میں لے لیتا ہے. بطور نمونہ فقط دو شعر ملاحظہ
ہوں۔
یہاں کوئی مجنوں کا کیا حال پوچھے
کہ ہر گھر میں صحرا کا نقشہ بنا ہے
خیال: رحمن بابا
بار ہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی
اور ہے
غالب
چشم قاتل تھی میری دشمن ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
ظفر
اوہناں دا موڈ خراب ہوندا
کئی واری ویکھیا اے
پر ایتکیں تاں
دوہائی ہوئی پئی اے
مقصود حسنی
سچ گوئی کی پاداش میں شاعر زندگی سے بھی گیے ہیں۔ جعفر زٹلی کو جان سے ہاتھ
دھونا پڑے۔ فیض‘ حبیب جالب وغیرہ کا جیون پرعتاب رہا۔
یہ سب اپنی جگہ‘ شاعر اپنے عہد کی زبان اور اس کے چلن کا بھی امین رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ زبان کو نئے محاورے‘ نئے مرکبات‘ نئی ترکیبات‘ نئی
علامتیں‘ استعارے تشببہات وغیرہ بھی فراہم کرتا چلا آ رہا ہے۔ وہ لفظ کو
نئے معنی اور لفظ کے نئے استعمالات بھی دریافت کرتا چلا آ رہا ہے۔ لسانی
سند کےلیے‘ ہمشہ شعر ہی کو حوالہ بنایا گیا ہے۔ شاعر معاملات کو‘ ناصرف الگ
سے دیکھتا ہے‘ بلکہ اس کا مشاہدہ بھی‘ عموم سے قطعی ہٹ کر ہوتا ہے۔ اس کی
آنکھ‘ وہ کچھ بھی دیکھ لیتی ہے‘ جو عام نہیں دیکھ پاتی۔ یہ کہنا کسی طرح
درست نہیں کہ شاعری لایعنی چیز ہے اور غلط سمت فراہم کرتی ہے۔
زلف و رخسار‘ زندگی سے الگ چیز نہیں ہیں‘ اس لیے ان کے حوالہ سے کہا گیا
بھی غلط نہیں۔ دوسرا شاعر موجود رجحان کی تصویر کشی کر رہا ہوتا ہے۔ لکھنوی
شاعری فحاشی اور لایعنیت کا شکار نظر آتی ہے۔ لکھنوی معاشرت اور عمومی
رجحانات بھی تو یہی تھے۔ اگر تلاش کرنے والی آنکھ سے دیکھا جائے‘ تو کڑی
تنقید بھی نظر آتی ہے۔ موازناتی صورتیں بھی دیکھائی دیتی ہیں۔ شاعر کی
موازناتی آنکھ‘ اوروں سے کہیں بڑھ کر بالغ ہوتی ہے۔ وہ ان سے ٹن ٹائم
ایڈوانس ہوتی ہے۔
برصغیر روز اول سے‘ مختلف نوعیت کے حالات کا شکار رہا ہے۔ چوں کہ اسے سونے
کی چڑیا کی حیثیت حاصل رہی ہے‘ یہی وجہ ہے بیرونی دنیا کی توجہ اس پر مرکوز
رہی ہے۔ بہت سارے علاقوں کے لوگ‘ محتلف حوالوں سے‘ اس ولایت کا رخ احتیار
کرتے رہے ہیں۔ یہ صورت آج بھی موجود ہے۔ دیسی و بدیسی رویتوں‘ مزاجوں اور
رویوں کی آمیزش‘ یہاں بہ خوبی تلاشی جا سکتی ہے۔ ہندوستانی یعنی اردو+
ہندی+ رومن یہاں کی مجموعی زبان رہی ہے اور پورے ہند میں‘ استعمال ہوتی رہی
ہے اور آج دنیا دوسری بڑی زبان ہے۔ اس زبان میں شاعری کا ذخیرہ اپنی مثل آپ
ہے۔ شعرا نے اپنے اپنے عہد کی بھرپور انداز میں عکاسی کی ہے۔ اس زبان کی
ترقی میں شخصی اور مختلف اداروں کا عمل دخل رہا ہے۔
ہند کے بے شمار اداروں میں‘ گورنمنٹ اسلامیہ کالج‘ قصور بھی‘ اس ذیل میں
اپنے حصہ کا کرداار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے سربراہان میں پروفیسر
غلام ربانی عزیز ایسے عالم فاضل رہے ہیں۔ پروفیسر امجد علی شاکر علم دوست
ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔ پروفیسر راؤ اختر علی شاعر تو نہیں ہیں‘
لیکن شاعر دوست ضرور ہیں۔ مارننگ اسمبلی میں طلبا کو اچھے اچھے شعر زبانی
یاد کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اپنے خطاب میں اچھے اچھے شعروں کا تڑکا
لگانا نہیں بھولتے۔
کالج انتظامیہ مشاعروں کا بھی اہتمام کرتی رہی ہے۔ مشاعروں میں‘ معروف شعرا
کو بھی مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ گویا شعروسخن کی حوصلہ افزائی‘ اس کالج کی
قدیمی روایت ہے۔ کالج سے اچھے اچھے شاعر طالب علم تعلیم کے زیور سے آراستہ
ہو کر‘ زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیتے آ رہے ہیں۔ اسی طرح
اساتذہ اور سٹاف کے لوگ بھی‘ شعر وسخن کے ذوق سے متعلق رہے ہیں۔ یہاں
دستیاب تفصیل درج کر رہا ہوں۔
پروفیسر احسان الہی ناوک‘ شعبہ انگریزی سے متعلق تھے۔ پنجابی اور اردو کے
شاعر تھے۔ نثر میں شوق رکھتے تھے۔ ترجمہ شدہ چیزیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔
جدید اطوار رکھتے ہیں۔ یہ عنصر ان کے کلام میں ملتا ہے۔ ان کے کلام کا
نمونہ دیکھیے۔
قطعہ
دکھ درد زندگی کے سب مسکرا کے جھیل
آہیں دبا دے سینے میں اور آنسووں کو پی
لیکن کسی بھی حال میں مت زندگی سے بھاگ
میں تو یہی کہوں گا کہ ہر حال میں تو جی
الادب شمارہ ١٩٧٠-٧١
احمد یار خاں مجبور‘‘ ابتدائی عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اردو پنجابی اور
فارسی کے شاعر تھے۔ انھوں نے خیام کی رعیایات کا چھے مصرعی ترجمہ بھی کیا۔
نمونہءکلام ملاحظہ ہو
دیکھنا یہ ہے کیا دکھاتی ہے
ایک لغزش اگر بکھر جائے
خیر تو خیر شر اگر نہ ہو ہمراہ
کیا پتہ‘ آدمی کدھر جائے
آرزوئیں ہی آرزوئیں ہیں
دیکھ لیجئے‘ نظر جدھر جائے
‘بابا مجبور۔ شخصیت‘ فن اور شاعری‘
مقالہ ایم فل مملوکہ علامہ اقبا اوپن یونیورسٹی‘ اسلام آباد‘ ١٩٩٥‘ ص١٤٦
ڈاکٹر اختر شمار کا تعلق بھی اس ادارے سے رہا ہے۔ ان دنوں چیئرمین‘
شعبہءاردو‘ ایف سی کالج‘ لاہور ہیں۔ علامہ بیدل حیدری کے‘ شاعری میں سند
یافتہ ہیں۔ کالم نگاری میں بھی کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ یار باش آدمی ہیں۔
انھیں انقلابی فکر کا شاعر کہا جائے‘ تو غلط نہ ہوگا۔ میں انھیں ہمیشہ ترقی
پسند سمجھتا رہا ہوں اور وہ ہیں بھی‘ باطنی سطع پر زبردست صوفی ہیں۔ ان کا
تصوف میں ملفوف‘ یہ شعر ملاحظہ ہو
آخری وقت میں یہ بھید کھلا ہے ہم پر
ہم کسی نقل مکانی کے لیے زندہ ہیں
اسلم طاہر شعبہءاردو سے متعلق رہے ہیں۔ بانسری بجانے میں مہارت رکھتے تھے۔
اردو اور پنجابی میں شعر کہتے ہیں۔ فارسی سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ حال ہی
میں انھوں نے ایم فل کا مقالہ بعنوان “مقصود حسنی - شخصیت اور ادبی خدمات‘
بہاؤالدین زکریا‘ یونیورسٹی‘ ملتان کو جمع کروایا ہے۔ بطور نمونہ دو شعر
دیکھیے
وہ جوئے علم و عرفاں‘ ہم جس کے خوشہ چین
کم فہم جس کے دم سے ہو جاتے ہیں ذہین
وہ روح رواں اردو شعبے کی جو ہیں ڈین
وہ نرم خو صورت مادام ڈاکٹر روبینہ ترین
پروفیسر اظہر علی کاظمی‘ خوش طبعی میں جواب نہیں رکھتے تھے۔ ان کا دستر
خوان بڑا فراخ تھا۔
مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ بڑا عمدہ شعری ذوق رکھتے تھے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ
بھی شائع ہوا تھا۔ بطور ذائقہ دو شعر ملاحظہ ہوں
ایک مشت پر بجائے خود نشانی چھوڑ کر
ہو گیا خاموش کوئی نغمہ خوانی چھوڑ کر
پا گیا وہ مقصد ایمان وایقاں کاظمی
للیت جس کو آئی بدگمانی چھوڑ کر
الادب ٢٠١٠-١١
اکبر راہی لائبریری سے وابستہ تھے۔ کتب بینی کا شوق رکھتے تھے۔ اچھا شعری
ذوق پایا تھا۔
پروفیسر اکرام ہوشیارپوری شعبہء اردو کے صدر اور الادب کے مدیر اعلی تھے۔
سنجیدہ طبع تھے۔ خاموش مگر متحرک شخصیت کے مالک تھے پاکستانیت ان کی رگ رگ
میں بسی ہوئی تھی۔ افسانہ ڈرامہ اور تنقید لکھتے تھے۔ اردو اور پنجابی میں
شاعری کرتے تھے۔ یہ دو شعر ان کی فکری پرواز کو واضح کرتے ہیں
میں ملا تھا تم ملے تھے‘ ذکر اس کا چھوڑیئے
اب ملیں یا نہ ملیں‘ فکر اس کی چھوڑیئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرا ملنا بھی عجب تھا اور بچھڑنا بھی غضب
کچے دھاگے ٹٹ چکے اب کس سے رشتہ جوڑیئے
الادب شمارہ ١٩٨٠-٨١
امجد علی انجم کالج کے شعبہءاردو سے متعلق ہیں۔ شعری ذوق پایا ہے۔ بطوریہ
شعر ملاحظہ ہو
ہیر رانجھا‘ شیریں فرہاد کے قصے پرانے ہوئے انجم
ہر سو اب تیرا میرا پرچار ہے‘ مانو کہ نہ مانو
پروفیسر امجد علی شاکر‘ کالج کے پرنسپل تھے. ان کا پرنسپل شپ کا عرصہ‘ سب
سے زیادہ ہے۔ پیدل چلنے میں ان کا ڈھونڈھے سے‘ ثانی نہ مل سکے گا۔ شعرونثر
میں برابر کی مہارت رکھتے ہیں۔ انھوں نے مقصود حسنی کے شعری مجموعے۔۔۔۔۔اوٹ
سے۔۔۔۔۔ کو پنجابی لباس دیا۔ ان دنوں شاہدرہ کالج میں بطور پرنسپل فرائض
انجام دے رہے ہیں۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہو
اک شہر ناپرساں تھا شاید
جس کا اک بھولا بھٹکا
رستہ بھول کے آیا
میں نے واں پر لوگوں کو
اپنا جانا۔۔۔۔۔۔۔۔ان سے پیار کیا
میں نے شہر کی کالی راتوں میں
سچ کے دیپ جلائے
چار طرف سے آندھی آئی
ہر اک دیپ بجھا
میں نے پھر یہ دیپ جلائے
شہر ناپرساں
الادب شمارہ ٢٠٠٦-٧
پروفیسر تنویر حسین شعبہءسیاسیات سے متعلق رہے ہیں۔ کلام میں وجاہت اور
عصری جبریت کے اشارے بڑے واضح نظر آتے ہیں۔ یہ دو شعر ان سے ہیں
حوادث روزوشب ہر موڑ پر ہر آن ہوتے ہیں
ہزاروں لوگ ہیں‘ جو بےسروسامان ہوتے ہیں
................
کسی مفلس کا اب تنویر تو دیواں نہیں چھپتا
کہ اہل زر یہاں اب صاحب دیوان ہوتے ہیں
پروفیسر طارق جاوید‘ شعبہ کامرس سے متعلق ہیں۔ نوجوان ہیں اور کچھ کر گزرنے
کے جذبے سے سرشار ہیں۔ نثر بڑی خوب صورت لکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں شائع
ہوتی رہتی ہیں۔ شعر کا بھی ذوق پایا ہے۔ ان کی شاعری عصری کرب کو واضع کرتی
نظر آتی ہے۔
نمونہءکلام ملاحظہ ہو
رات کو جو سڑکوں پہ ناکے لگاتے ہیں یہ
بڑی دولت وہاں سے کماتے ہیں یہ
پجارو اور مرسڈیز کو جانے دیتے ہیں
سکوٹر اور سوزوکی کو روک لیتے ہیں
یہ نوکر تو سرکاری ہیں
پر لگتے بھکاری ہیں
نظم: پیام بنام سرکار
پروفیسر عباس تابش شعبہءاردو سے متعلق رہے ہیں۔ شعری ذوق رکھتے تھے۔
پروفیسر عبدالغفور ظفر‘ شعبہءاسلامیات سے متعلق تھے۔ کھرے سچے اور بےباک
انسان تھے۔ سیمابی طبعت اور مزاج کے آدمی تھے۔ شعرونثر سے برابر کا ذوق
رکھتے تھے۔ ایک محفل میں‘ ان کی بہاریہ نظم سننے کا اتفاق ہوا۔ کمال کی
روانی اور کمال کی فصاحت تھی۔
پروفیسر عبدالغنی‘ شعبہءانگریزی سے متعلق تھے۔ بڑی جاندار اور شاندار شخصیت
کے مالک تھے۔ پنجابی اور اردو میں کہتے تھے۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہو
ہوش و خرد کی بستی ہے
میرے جنون مجھ کو لے چل
اک اک کرکے چور ہوئے
یاں خوابوں کے تاج محل
گھڑی گھڑی پربت پربت
بوجھل بوجھل اک پل
دیوانوں کی بستی میں
میرے جنون مجھ کو لے چل
الادب ٢٠٠٧-٨
پروفیسر عبدالرحمن عابد‘ اس کالج سے متعلق تھے۔ خوب صورت شعری ذوق رکھتے
تھے۔ خوش کلام شاعر تھے۔
پروفیسر محمد سعید عابد‘ شعبہءاسلامیات سے متعلق تھے۔ بڑے عالم فاضل تھے۔
علامہ اقبال اور استاد غالب‘ ان کے مطالعہ میں رہتے تھے۔ خوش فکر شاعر تھے۔
یہ دو شعر ان سے ہیں
خواب علو دین کی جو تعبیر چاہیے
پیش نگاہ اسوءشبیر چاہیے
عابد نہ ہو سکی کوئی تدبیر کارگر
اب تو بس اک نعرہءتکبیر چاہیے
مقصود حسنی‘ شعبہءاردو سے متعلق رہے ہیں۔ اردو‘ پنجابی اور انگریزی میں
کہتے ہیں۔ بطور نمونہ یہ نظم ملاحظہ ہو
جب تک
وہ قتل ہو گیا
پھر قتل ہوا
ایک بار پھر قتل ہوا
اس کے بعد بھی قتل ہوا
وہ مسلسل قتل ہوتا رہا
جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی
جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جاتا
وہ قتل ہوتا رہے گا
وہ قتل ہوتا رہے گا
پروفیسر ندیم احسان‘ راؤ‘ ۔شعبہءانگریزی سے متعلق ہیں۔ بڑی پیاری شخصیت
رکھتے ہیں۔ یہی عنصر ان کے کلام میں پایا جاتا ہے۔ ان کا کلام مختلف رسائل
میں چھپتا رہتا ہے۔ یہ تین شعر ان سے ہیں:
رمز باطن نہ کھل سکی لیکن
صورت حسن بے حجاب ہوئی
................
تجھ کو مزدوری فرہاد کا احساس کہاں
اوج پر رہتا ہے قسمت کا ستارا تیرا
.......................
جو توڑ دے فسون زر
وہ مرد خود شناس ہے
پروفیسر نیامت علی‘ شعبہءانگریزی سے متعلق ہیں۔ صوفی منش ہیں۔ بڑی صاف
ستھری شخصیت کے مالک ہیں۔ اردو انگریزی اور پنجابی میں کہتے ہیں۔ ان کی
پنجابی کافیوں میں ورفتگی پائی جاتی ہے۔ نثر بھی لکھتے ہیں۔ افسانہ نگار
ہیں۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہو۔
ہر مرض کی جب شفا تو نے بنائی
ہر طرف پھیلے مرض لادوا ہیں
ہو کبھی بارش فضل کی اس چمن میں
خوش نوا بلبل سراپا التجا ہیں
تجزیہء شعر وسخن میں پروفیسر یونس حسن کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ اس ذیل میں
ان کے چالیس سے زائد مقالہ جات مختلف ادبی رسائل وجراعد میں شائع ہو چکے
ہیں۔
یہ تفصیل یقینا نامکمل ہے لیکن میں نے دستیاب مواد پیش کر دیا ہے۔امید ہے
اہل ذوق احباب اس میں اضافہ کرتے رہیں گے۔ |