اخبارات میں بچوں کے صفحات پر
بچوں کے لیے ایک کھیل "نقطے ملایے"کے عنوان سے شائع ہوتا ہے جس میں ان
نقطوں کو جب ایک دوسرے سے ملایا جاتا ہے تو کسی چیز کی شکل بن جاتی ہے ۔وہ
کبھی کسی جانور یا کسی گاڑی،کار،، ٹریکٹر وغیرہ کی ہوتی ہے۔ہم آپ چونکہ بچے
نہیں رہے اس لیے ہم بھی آپ کو ایک کھیل ـ " نقطے ملایے" کے بجائے نام بدل
کر "نکتے ملایے"دے رہے یہ کچھ خبروں کے نکات ہیں جو آج کل کے اخبارات میں
شائع ہوئے ہیں ۔ان نکات کو ملا کر آپ خود طے کر سکتے ہیں کہ اس کے نتیجے
میں کیا شکل بنتی ہے ۔مذاکرات کی یا آپریشن کی ۔ویسے تو اگر دیکھا جائے تو
عوام کی کیفیت بھی اس معصوم بچے کے مانند ہی ہو گئی ہے جو اپنے گھر میں
لڑائی جھگڑا دیکھتا ہے کہ اس کا باپ اس کی ماں پر تشدد کرتاہے اس سے جھگڑا
کرتا ہے ،وہ جب اہنے کام پر چلا جاتا ہے تو اس کی دادی اس کی ماں کو بات
بات پر ڈانتی ڈپٹتی ہے اور اگر اس کی ماں کا تعلق غریب گھرانے سے ہے تو اس
میں اور زیادہ شدت آجاتی ہے پھر وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس کی پھوپھوئیں
بھی اس کی ماں کو جلی کٹی سناتی ہیں اس کے معصوم بچے حونقوں کی طرح آنکھیں
پھاڑے ایک دوسرے کا منہ تکتے ہیں اور اپنی ماں کی مظلومیت پر انتہائی دل
گرفتہ ہوتے ہیں اور کبھی کبھی با آواز بلند رونے بھی لگتے ہیں اور کبھی
ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ رونا چاہتے ہیں لیکن خوف سے رو نہیں پاتے آنسوؤں کے
گھونٹ پی کر صرف سسکاری مارتے ہیں ،اگر اپنے کان اس بچے کے سینے تک لے
جائیں تو اس کی سسکاہٹ سنی جا سکتی ہے ۔کیا ریاست پاکستان جو ہماری ماں کے
مانند ہے اس کی کیفیت آج اس مثال جیسی نہیں ہے کہ ہر ناراض گروپ چاہے وہ
پہاڑی علاقوں کے ہوں ،میدانی علاقوں کے ہوں یا شہری علاقوں کے ہر ایک ریاست
کی رٹ کو چیلنج کررہاہے ۔اسی تمثیل کو تھوڑا اور آگے بڑھاتے ہیں وہ لڑکی
حالات سے بے بس ہو کر اپنے شوہر سے کچھ دن کے لیے اپنے میکے جانے کی اجازت
لیتی ہے ۔جہاں اسے اپنے باپ کی شفقت اور ماں کی پیار بھری ڈانٹیں شدت سے
یاد آتی ہیں۔دھوپ کی تپش میں کچھ دن کے لیے والدین کے شجر الفت کی ٹھنڈی
چھاؤں میں آنا چاہتی ہے ۔لیکن یہاں کا ماحول بھی تبدیل ہو چکاہے ۔باپ یاتو
مرچکا ہے اور اگر زندہ ہے تو بیمار ہے اور بیٹوں کے رحم کرم پر اور ماں کی
آواز میں بھی وہ گرج اور خود اعتمادی محسوس نہیں ہوتی جو پہلے کبھی اس کی
ذات کا حصہ تھی ۔بھائیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں یہاں بھی پہلے جیسا ٹھنڈی
چھاؤں والا ماحول نہیں ہے وہ آئی تو دو تین دن کے لیے تھی لیکن شام کو اس
کے کانوں میں اپنی بھاوج کا وہ جملہ کانوں تک آتا ہے جو وہ اس کے بھائی سے
پوچھتی ہے کہ "آپ کی یہ بہن صاحبہ جو بچوں کے ساتھ آدھمکی ہیں کب تک رہیں
گی"سسرال کی مسلسل ٹنشن نے اس کے صبر اور حوصلوں کو تو پہلے ہی توڑ کر رکھ
دیا تھا اب یہ طنزیہ جملے بھی اس کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں چنانچہ وہ
اپنا سامان سمیٹتی ہے اور کوئی بہانہ بناکر اپنے گھر یہ سوچ کر واپس جاتی
ہے کہ جب ساری زندگی اس جہنم میں ہی گزارنا ہے دو دن کی گھٹن والی چھاؤں کا
کیا فائدہ جس کی ہواؤں میں پہلے جیسی بہار کی خوشبو بھی نہ رہی ۔کیا یہ
حقیقت نہیں ہے کہ ایشیا میں پاکستان اور ایران کی دوستی ٹھنڈی چھاؤں کے
مانند تھی ریجنل کوآپریشن ڈویلپمنٹ جس کا مخفف آرسی ڈی تھا اس کے تحت
پاکستان ایران ترکی تینوں ممالک میں کیسی مثالی یگانگت تھی آج یہ وقت آگیا
ہے کہ ایران بھی ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے ،اس کے بھی تیور بدل گئے ہیں ۔خیر
یہ جملہ معترضہ ذرا طویل ہو گیا ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ ہمای
طرف سے دیے ہوئے نکتے ملایے اور پھر دیکھیے کیا شکل بنتی ہے ۰امریکی فوج کی
سنٹرل کمانڈ(سینٹکام)کے سربراہ جنرل لائٹ جے آسٹن نے راولپنڈی میں بدھ
18فروری کے دن پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت سے اہم ملاقاتیں کی ہیں جن میں
علاقائی سلامتی (امریکی سلامتی)کے لیے کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے بدھ
18فروری کی رات گئے ایک اہم پیش رفت میں پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے
طالبان جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ،انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق
طیاروں نے رات 12بجے جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر بمباری کی جس سے متعدد جنگجو
ہلاک ہوئے ۔
جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ امن کو ایک
اور موقعہ دینے کے الفاظ سے خطرے کی بو آتی ہے ۔اصل آپریشن کرنا ہے یا
کرانا ہے باقی سب کہانیاں ہیں۔طالبان سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کسی اور
نے بنائی ۔ڈاکٹر کمزور ہو تو مریض کو قصاب کے حوالے نہیں کیا جاتا۔
بدھ کو اسلام آباد میں پارلیمانی داخلہ کمیٹی کے اجلاس میں متحدہ کے نبیل
گبول نے ملک میں ایمر جنسی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کی بات کرنے
والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔مسلم لیگ کی تہمینہ دولتانہ نے کہا کہ
ہمیں جمہوری نظام کو مستحکم کرنا چاہیے ۔نبیل گبول اور تہمینہ دولتانہ کے
درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
معروف صحافی سلیم صافی نے کہا ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے فیصلہ نواز شریف
اور ان کے چند ساتھیوں کا تھا اس میں فوجی قیادت شامل نہیں تھی اسی طرح
طالبان کے تمام گروپس میں بھی مذاکرات کے حوالے سے ہم آہنگی نہیں تھی ۔
سرکاری مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اکوڑہ خٹک میں
ہونے والی ملاقات کا ملتوی ہونے کا افسوس ہے مہمند ایجنسی کے واقع کے بعد
بھی میں چاہتا تھا کے طالبان کمیٹی سے ملاقات ہو جائے لیکن ہمارے دیگر
دوسرے ساتھی اس ملاقات کے لیے تیار نہ تھے۔
طالبان کے ترجمان شاھد اﷲ شاھد نے کہا ہے کہ جس دن مہمند ایجنسی کا واقعہ
پیش آیا اس روز بھی فورسز نے ہمارے دس ساتھیوں کو نشانہ بنایا حکومت یقین
دہانی کرائے کہ مستقبل میں ہمارے لوگ نہیں مارے جائیں گے ۔
وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا بھارت نے بھی پاکستانی قیدیوں سے ایسا سلوک
نہیں کیا ٹی ٹی پی کے جواب میں لائحہ عمل بنائیں گے اگر وہ ایک وار کریں گے
تو ہم دو وار کریں گے ۔ملکی دفاعی اداروں کی صلاحیتوں کے بارے میں کسی کو
شک نہیں ہونا چاہیے ۔
طالبان کمیٹی کے ایک رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ بھارت نے کبھی کشمیر
یوں پر بمباری نہیں کی ۔طالبان کے خلاف متوقع آپریشن سے بڑے پیمانے پر نقل
مکانی ہو رہی ہے۔جنگ بندی کے نہایت قریب پہنچ گئے تھے ،اگر فریق بن گئے تو
مذاکرات کاعمل بہت دور چلا جائے گا۔
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے کہا ہے کہ مذاکرات مخالف کئی قوتیں
بات چیت سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔حکومت ایف سی اہلکاروں کے قتل اور طالبان
کے الزامات کی تحقیقات کرائے ،فوج اور طالبان کو لڑانے کی کوشش کی جارہی ہے
۔آپریشن کے نتائج خوفناک ہوں گے۔قوم میں مایوسی پیدا ہو گئی ۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے فیصلہ کر لیا کہ طالبان
سے اب مذاکرات نہیں ہوں گے فوج سے اپنے دفاع کا حق واپس نہیں لے سکتے
،آپریشن کا فیصلہ پہلے ہی کرلیا تھا ،عسکری قیادت سے طویل مشاورت کی گئی ہے
،ڈائیلاگ کو آگے بڑھانا زیادتی ہو گی ۔
حکومت اور طالبان کے مذاکرات میں انا پرستی منطق پر حاوی ہو گئی ،طالبان کے
نئے مطالبات قابل عمل اور نرم ہیں ،اس کے باوجود دونوں کمیٹیوں کے درمیان
خلیج ہے،طالبان یہ یقین دہانی طلب کررہے ہیں کہ جنگ بندی کے بعد طالبان
ارکان کو پولیس فورسز کی حراست میں ہلاک نہیں کیا جائے گا،معروف صحافی
انصار عباسی کا تجزیہ
قارئین درج بالا خبریں اور بیانات پچھلے تین دن کے اخبارات سے لیے گئے ہیں
۔اب ان نکات آپ خود ہی جوڑ لیں اور پھر اس سے جو شکل بن جائے سمجھ لیجئے اب
وہی کچھ ہونے والا ہے۔ |