چیونٹی موٹر سائیکل چلا رہی تھی۔
پچھلی سیٹ پر ہاتھی بیٹھا ہوا تھا۔ حادثہ ہوا تو ہاتھی شدید زخمی ہوگیا۔
چیونٹی محفوظ رہی! بتائیے کیسے؟ ارے …… آپ کس سوچ میں پڑگئے؟ سیدھی سی بات
ہے، چیونٹی نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا نا!
آپ سوچ رہے ہوں گے کالم شروع کرنے کا یہ کون سا احمقانہ انداز ہے۔ ایسی
بچگانہ باتیں تو دوسری تیسری جماعت کے بچے کیا کرتے ہیں۔ آپ اگر ایسا ہی
سوچ رہے ہیں تو آپ کی رائے سَر آنکھوں پر۔ کہیں آپ کا ذہن اِس طرف تو نہیں
چلا گیا کہ ہم نے اپنا کالم ایک بے سَر و پا لطیفے سے شروع کرکے کسی مشہور
کالم نگار کی نقل فرمانے کی کوشش کی ہے! ایسا نہیں ہے جناب۔ ہم نے کسی کی
نقالی کی ہے نہ ہمارے ذہن میں کوئی خلل واقع ہوا ہے۔ ہم کسی کی نقل کریں؟
شوق اگر ہو بھی تو سچ یہ ہے کہ ع
یہ تاب، یہ مجال، یہ جرأت نہیں مُجھے
ہم نے مانا کہ کہ کسی معقول بات سے کالم شروع کرنے کی روش نے ہمیں قدم قدم
رُسوا و ذلیل کیا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں اِس امر کا اعتراف بھی کرنے
دیجیے کہ کسی انٹ شنٹ بات سے کالم شروع کرنا بھی کوئی کھیل نہیں، مذاق نہیں۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بے سَر و پا بات کہنے یا لکھنے والے کو لوگ
’’دانشور‘‘ سمجھ لیتے ہیں! محض دھاک جمانے کے لیے ایسی بات کہنا ہر ایک کے
بس کی بات نہیں جس کا کوئی سَر پیر نہ پایا جاتا ہو۔ ع
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا!
کسی کسی کو اﷲ یہ ’’توفیق‘‘ دیتا ہے کہ وہ سوچے سمجھے بغیر لکھے اور
مقبولیت کے بامِ بُلند تک جاپہنچے! ہم کیا اور ہماری بساط کیا؟ صحافت کے
بُزرگوں نے لکھنے کے جو مُسلّمہ اُصول سمجھائے اور سُجھائے ہیں اُنہی پر
عمل کرتے ہوئے ہم لکیر پیٹنے کی زندہ مثال بن گئے ہیں اور اب تک نیک نامی
کے گوشۂ گمنامی میں پڑے ہیں!
آمدم بر سرِ مطلب۔ چیونٹی اور ہاتھی والا آئٹم جب ہمیں لختِ جگر صباحت نے
سُنایا تو پہلے ہم یہ سمجھے کہ شاید اُس نے ایک مشہور ٹی وی پروگرام میں
سُن لیا ہوگا کیونکہ آج کل اُس میں نام نہاد ’’ذہنی آزمائش‘‘ کے نام پر
اِسی نوعیت کے سوالات پوچھ کر قیمتی انعامات دیئے، بلکہ لُٹائے جارہے ہیں!
وضاحت چاہی تو صباحت نے کہا۔ ’’بابا! یہ ٹی وی پروگرام کا آئٹم نہیں، لطیفہ
ہے!‘‘
ہمیں یہ تو اندازہ تھا کہ آج کے بڑے رکھیں نہ رکھیں، بچے سیاسی شعور ضرور
رکھتے ہیں مگر یہ اندازہ ہرگز نہ تھا کہ اُن کے سیاسی شعور کی سطح اِس قدر
بلند ہوچکی ہے۔ آپ پھر سوچ رہے ہوں گے کہ بچے اور سیاسی شعور؟ اِس لطیفے کا
سیاسی شعور سے کیا تعلق؟ کیوں نہیں جناب۔ آج کل سیاسی شعور لطیفہ بن گیا ہے
یا پھر لطائف کو سیاسی شعور قرار دے کر ہمارے کانوں میں اُنڈیلا جارہا ہے۔
چیونٹی اور ہاتھی والا لطیفہ ہماری سیاست پر انتہائی بلیغ اور جامع تبصرہ
نہیں تو اور کیا ہے؟ یہاں قدم قدم پر یہی تاثر تو مل رہا ہے کہ سیاسی موٹر
سائیکل چیونٹی چلا رہی ہے اور ہاتھی بے چارا حادثات کی نذر ہوتا رہتا ہے!
انگریزی میں مختلف حوالوں سے underdog کی اصطلاح عام ہے۔ اُس شخص یا گروہ
کو ’’انڈر ڈاگ‘‘ کہا جاتا ہے جس کی کامیابی یا فتح کا امکان برائے نام ہو
اور جس کی کامیابی کی پیش گوئی کرنے کے لیے بظاہر کوئی تیار نہ ہو۔ اور وہ
اچانک کامیابی سے ہمکنار ہوجائے!
جیت جانے والا معاملہ انگریزی میں ہوتا ہوگا، ہماری سیاست میں ہر طرف طرح
طرح کے ایسے انڈر ڈاگ پائے جاتے ہیں جن کی فتح کے دور تک آثار نہیں مگر
کامیابی حاصل کئے بغیر ہی وہ آنکھوں کے تارے بنے ہوئے ہیں۔ بعض تو خود کو
تاروں میں تبدیل کرکے آنکھوں میں ٹُھنکے ہوئے ہیں۔
بچوں کی کتابوں میں ایک کہانی پڑھنے کو ملتی ہے کہ کسی دھوبی نے ایک کُتّا
پالا ہوا تھا۔ دھوبی جب اپنی بیل گاڑی پر کپڑے لاد کر دھونے کے لیے نَدی تک
جاتا تو اس کا کُتّا گاڑی کے نیچے چلتا رہتا اور یہی سوچ سوچ کر خوش ہوتا
رہتا کہ پوری گاڑی کا بوجھ اُس نے اُٹھا رکھا ہے! یہی کیفیت اُس گدھے کی
بھی ہوتی ہے جو گاڑی کو کھینچنے والے گدھے کے ساتھ محض دِل بستگی یا دِل
پشوری کے لیے باندھ دیا جاتا ہے! اصل گدھے کے ساتھ باندھے جانے والے
ایڈیشنل گدھے کو ’’پخ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایڈیشنل گدھا یہی سوچ کر خوش ہوتا
رہتا ہے کہ سارا بوجھ وہی اُٹھا رہا ہے جبکہ اصل گدھا تو وہ ہوتا ہے جو بیچ
میں بندھا بوجھ برداشت کر رہا ہوتا ہے! اُس غریب کو سوچنے اور خوش ہونے کا
موقع ہی نہیں ملتا!
یہ کتے اور گدھے والی کیفیت اب خیر سے پورے ملک کی ہے۔ ملک کا بوجھ عوام نے
اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہے مگر اُن کے لیے اِتنی گنجائش ہی نہیں چھوڑی
گئی کہ اِس کارنامے کے بارے میں سوچیں اور فخر کریں۔
سیاسی گدھا گاڑیوں کے ایڈیشنل گدھے اور بیل گاڑیوں کے نیچے چلنے والے کُتّے
خود کو ناگزیر اور عقلِ کُل سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ کوئی لاکھ
سمجھائے کہ زمینی حقیقت کچھ اور ہے، اِس خبط کے دائرے سے باہر آ جاؤ مگر
ایسی تمام باتیں اُن سے کہنا ایسا ہی ہے جیسے کسی دیوار یا مُردے کے گوش
گزار کی جائیں! سیاست کے ایڈیشنل گدھے اور انڈر ڈاگ اِس گمان کے نشے میں
مست ہیں کہ اُنہی کے دم سے ایوان ہائے اقتدار کا رونق میلہ ہے! زبانِ حال
سے وہ بار بار یاد دلاتے ہیں کہ ع
ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤگے جب ہم نہیں ہوں گے
خوش فہمی بھی کیسا قیامت کا نشا ہے کہ اِنسان کو دین کا رہنے دیتا ہے نہ
دُنیا۔ سیاسی انڈر ڈاگ بھی اِس نشے کی موجوں میں بہتے ہوئے دھوبی کے کُتّے
کی طرح گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔ سیانے اور موقع شناس نسل کے انڈر ڈاگ
البتہ گھاٹ بدلتے رہتے ہیں۔ کسی ایک گھر کا نہ ہو رہنا ہی اُنہیں بے گھر
ہونے سے بچاتا ہے!
بڑی جماعتیں جب حکومت بناتی ہیں تو اِس گاڑی کو چلاتی بھی ہیں۔ دِل پشوری
کے لیے وہ چند ایک چھوٹی جماعتوں کو بھی بزم آرائی اور تَفنّنِ طبع کے طور
پر ساتھ رکھتی ہیں۔ یہ ’’پخیں‘‘ رفتہ رفتہ خود کو اصلی یعنی مرکزی گدھا
سمجھنے لگتی ہیں۔ اور پھر نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ بھرے ایوان میں ایک یا
دو نشستیں رکھنے والی جماعت کا لیڈر بھی وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے
لگتا ہے! جب بھی ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے، بہت سے لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ کائنات کے خالق نے خواب دیکھنے پر کوئی پابندی عائد کی
ہے نہ کم از کم مطلوبہ قابلیت کی شرط رکھی ہے!
ہم نے سیاست کے میدان میں خود رَو پودوں کا صفایا کرنے کا اہتمام نہیں کیا
جس کے باعث اب ہر طرف یہی لہلہاتے نظر آرہے ہیں۔ رائی کا ہر دانہ خود کو
پربت ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ جس سے مشاورت کیجیے وہ عقلِ کُل کے درجے پر
فائز ملتا ہے۔ اگر عمارت کی تزئین کے لیے لگائے جانے والے برقی قمقمے خود
کو برقی رَو کا منبع سمجھنے لگیں تو کوئی کیا کرے؟ سیاست میں ڈیڑھ اینٹ کی
مسجد بنانے والوں کا یہی المیہ ہے۔ اور اُن سے بڑھ کر تو یہ پوری قوم کا
المیہ ہے۔ وہ بے چاری سمجھ نہیں پارہی کہ اِس صورت میں کس نوع کی طرزِ فکر
و عمل اختیار کرے۔
حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
زخم اِتنے ہوگئے ہیں کہ بخیہ گری کی منزل گزر چکی۔ بے شک اب تو محل نوحہ
خوانی کا ہے مگر اِس کی سکت کس میں ہے؟ اور اگر نوحہ گر کو ساتھ رکھنے کی
بات کیجیے تو اِس کا بھی مقدور نہیں۔ سیاسی بازی گر نظر بندی کا جو کھیل
قوم سے کھیل رہے ہیں اُس کے نتیجے میں صرف وہی ہوسکتا ہے جو ہو رہا ہے یعنی
قوم خون کے آنسو رو رہی ہے۔ مگر یہ آنسو بھی کب تک ساتھ دیں گے؟ سیاست کے
انڈر ڈاگز اور ’’اوور ڈاگز‘‘ سے نجات پانے کی کوئی نہ کوئی صورت تو تلاش
کرنی ہی پڑے گی۔ یہ منزل اِس وقت خاصی دور معلوم ہوتی ہے۔ تب تک دِل و جان
پر کیا کیا گزر جائے، کون جانتا ہے۔
اب دیکھیے کیا حال ہمارا ہو سَحَر تک
بھڑکی ہوئی اِک آگ سی ہے دِل سے جگر تک! |