بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
چند دنوں قبل اخبارات میں ملی سرگرمیوں کے حوالہ سے ایک خوش آئند خبر پڑھنے
کو ملی ۔ ۱۰ فروری کے اخبارات نے پٹنہ میں ایسوسی ایشن آف مسلم ڈاکٹرس کی
پانچویں ریاستی اور پہلی قومی کانفرنس کے انعقاد کی رپورٹ شائع کی جس سے
پتہ چلا کہ مسلم ڈاکٹروں کی یہ تنظیم ۲۰۰۹ء میں قائم ہوئی۔ ابتدا میں اس کے
۳۰ ممبران تھے اور اب ان کی تعداد ۱۰۰ سے زیادہ ہوچکی ہے نیز پٹنہ، مظفرپور
، دربھنگہ اور پورنیہ میں اس کی شاخیں بھی قائم ہوچکی ہیں۔ اس تنظیم کے
اغراض و مقاصد میں مذہبی و سماجی تناظر میں سائنسی حقائق کا اطلاق ، طبی
خدمات میں میڈیکل او ر اسلامی ضابطہ اخلاق کی پابندی ، ہمدردی و مساوات اور
اسلامی اقدار کا پاس و لحاظ رکھنا، مسلمانوں کی صحت کے مسائل اور میڈیکل
سائنس پر اسلام کے اثرات کا مطالعہ شامل ہیں۔ کانفرنس میں ہونے والی
تقریروں میں مسلمانوں کے اندر اتفاق و اتحاد کے فقدان پر تشویش کا اظہار
کیا گیا اور عمومی اتحاد کے ساتھ ہی دانشوروں کی صفوں میں اتحاد کو بھی ملت
اسلامیہ کے مفاد میں ضروری قرار دیا گیا ۔ تنظیم کے ذمہ داروں نے کہا کہ
مسلم ڈاکٹروں کا اتحاد وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے جسے شدت سے محسوس کرتے ہوئے
اس تنظیم کی تشکیل کی گئی ۔ بتایا گیا کہ چونکہ مسلم ڈاکٹروں میں ہم مذہب
ہونے کے علاوہ زبان ، تہذیب،وراثت اور بڑی حد تک پسند اور ناپسند میں بھی
یکسانیت پائی جاتی ہے اس لئے ان کا اتحاد اہم ہے اور اس تنظیم کے ذریعہ صحت
کے مسائل پر غور و فکر اور اسلامی اخلاق و آداب کے ساتھ انسانیت کے مفاد
میں کام کرنے کے لئے ڈاکٹروں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا گیا ہے ۔ کانفرنس
میں جھارکھنڈ ، بنگال اور دیگر ریاستوں کے ڈاکٹروں نے شرکت کرکے اتحاد کا
مظاہر کیا اور ملت کو بھی اپنے فروعی اختلافات کو ختم کرکے اتحاد کے ساتھ
زندگی گذارنے اور درپیش چیلنجوں کے مقابلہ کرنے کا پیغام دیا۔ ایسے وقت میں
جب کہ انسانی خدمات سے متعلق تمام پیشوں میں زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول
مقصد زندگی بن گیا ہے اور انسانی مفاد میں کام کرنے کا جذبہ دم توڑ رہا ہے
مسلم ڈاکٹروں کی اس تنظیم کو ’بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی‘ کہا
جائے تو غلط نہ ہوگا ۔
صحت اور مرض کا تعلق براہ راست جسم انسانی سے ہے اس لئے حیات انسانی میں
اسے ہمیشہ بنیادی اور ترجیحی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ اچھی صحت کے بغیر انسان
نہ تو دنیاوی لذتوں سے آشنا ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپنی ان ذمہ داریوں سے
عہدہ بر آ ہوسکتا ہے جو اس پر اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتی
ہیں ۔ اس طرح بیماریوں سے پاک اور صحت مند رہنا ہر انسان کی ضرورت ہے۔
چنانچہ خدمات انسانی کے شعبوں میں طب کو زبردست اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کا
براہ راست تعلق خدمت خلق سے ہے ۔ اس اعتبار سے تمام ڈاکٹروں بلکہ علاج و
معالجہ سے وابستہ تمام افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیشہ
کے تئیں مخلص اور ایماندار ہوں اور صحت مند سماج کی تشکیل کے لئے اپنی ذمہ
داریوں کو انجام دیں ۔ لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ ذمہ داری اور بڑھ
جاتی ہے ۔ مسلم ڈاکٹر جس شریعت کے پیروکار ہیں اس کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے
وجود کو صرف اپنے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے مفید ثابت کریں ۔ خدمت
خلق کا جذبہ ہمیشہ ان کے پیش نظر رہنا چاہئے اوراسے صرف ذریعۂ معاش یا
مریضوں کے استحصال کا ذریعہ ہرگز نہیں بننے دینا چاہئے ۔ آج صورت حال یہ ہے
کہ طب و صحت کا میدان جتنا اہم ہے اسی قدر اس میں لوٹ کھسوٹ کا بازار بھی
گرم ہے ۔ ڈاکٹر جنہیں کبھی مسیحا کہا جاتا تھا قاتل بنے بیٹھے ہیں ، حکومتی
بے اعتنائیوں کے علاوہ ڈاکٹروں ، اسپتالوں اور صحت عملے کے غیر انسانی رویہ
نے علاج و معالجہ کو اس قدر دشوار بنا دیا ہے کہ اب یہ کام عام انسان کے بس
سے باہر ہورہا ہے ۔ مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کا غیر ہمدردانہ سلوک ضرورت سے
زیادہ فیس ، مریضوں پر غیر ضروری جانچ کا بوجھ ، سستی دواؤں کی موجودگی کے
باوجود مہنگی دوائیں تجویز کرنا، مخصوص لیب میں جانچ کرانے کی تاکید اور اس
کی پابندی نہ کرنے پر رپورٹ کوغیر معیاری قرار دینا عام بات ہے۔ ڈاکٹر جو
اپنے پیشہ کے تئیں ایمانداری اور مریضوں سے ہمدردی کا حلف لے کر میدان عمل
میں آتے ہیں پریکٹس شروع کرتے ہی طبی اخلاقیات کو طاق نسیاں کے حوالہ کر
دیتے ہیں ۔ اس صورت حال میں میڈیکل اور اسلامی ضابطۂ اخلاق پر عمل کے جذبے
کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کے لئے ایسوسی ایشن کا قیام بے حد لائق تحسین ہے
اور تمام مسلم ڈاکٹروں کو اس تنظیم سے وابستہ ہوجانا چاہئے نیز اس کے دائرۂ
کار کو وسیع کرنا چاہئے ۔ یہ نہ صرف خود ڈاکٹروں کی دنیا اور آخرت بہتر
بنانے کا ذریعہ ہوگا بلکہ تبلیغ اسلام کا بھی ایک اہم وسیلہ ثابت ہوگا۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمان تعلیمی ، معاشی ، سماجی اور سیاسی
پسماندگی کا شکار ہیں جس کے لئے سیاسی سازشوں کے علاوہ خود ان کا اپنا رویہ
بھی کم ذمہ دار نہیں ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی شامت اعمال کے
نیتجہ میں ہی اس صورت حال سے دوچار ہیں ۔ وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ وہ ایک
نظریاتی گروہ ہیں جسے دنیا میں خیر امت بناکر بھیجا گیا ہے ۔ انہیں اپنی
تاریخ پر فخر تو ہے لیکن وہ اس سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہے حالانکہ
اگر ماضی کے آئینہ میں اپنے موجودہ زوال کا حل تلاش کریں تو وہ پھر زمانہ
کی امامت و قیادت کے حقدار ہوسکتے ہیں ۔ ماضی میں انہیں برتری اور سرخروئی
اپنے دین سے والہانہ تعلق ، علوم و فنون میں مہارت اور تحقیق و جستجو سے
حاصل ہوئی ، انہوں نے سماج کے مجبوروں ، محکوموں، بے کسوں اور کمزوروں کی
دست گیری کی ، دنیا کی بھلائی صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھی بلکہ انسانی
معاشرہ کی صلاح و فلاح اور خدمت خلق کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ ان کے
اخلاق وکردار کی بلندی نے انہیں عام انسانوں کی نگاہ میں بلند کردیا جب کہ
آج وہ اپنی عملی و اخلاقی کوتاہی کے سبب بے وزن ہوکر رہ گئے ہیں۔ پہلے
مسلمان اپنے کردار و عمل کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے جب کہ آج کی تلخ حقیقت
یہ ہے کہ وہ جس سماج میں رہتے ہیں اس پر ان کی کوئی چھاپ نہیں ہے ، وہ عملاً
سماج کے لئے غیر متعلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ چونکہ سماج کے کمزور ، محروم اور
ضرورت مند طبقوں کے تعلق سے وہ کچھ نہیں سوچتے اس لئے ان کا وزن بھی محسوس
نہیں کیا جاتا ہے ۔ موجودہ حالات میں تعلیمی معاشی اور سیاسی میدان میں
برادران وطن کے مقابلہ میں آنا ان کے لئے بیحد مشکل ہے لیکن وہ اپنی اخلاقی
قوت کے ذریعہ اپنا وزن محسوس کر اسکتے ہیں۔ اگر وہ رحمت و شفقت اور اعلیٰ
اخلاقی قدروں کے سفیر بن جائیں تو زندگی کے دوسرے شعبوں میں پچھڑنے کے
باوجود وہ اپنی عظمت اور اہمیت کا احساس کرا سکتے ہیں کیونکہ یوں تو اس ملک
میں سب کچھ ہے لیکن اخلاقی قدروں کا زبردست فقدان ہے اور اس خلا کو رسول
رحمت کی امت ہی پورا کر سکتی ہے ۔اگر ہر شعبہ کے مسلمان اپنی دینی و منصبی
ذمہ داری کا ادراک کر لیں تو انقلاب لا سکتے ہیں جس کی اشد ضرورت ہے ۔خدمت
خلق، انسانیت کی خیر خواہی اور بھلائی کا درس ہمیں اپنے رسول کی زندگی سے
ملتا ہے۔ آپ کی حیات مبارکہ میں انسانیت پسندی کے متعدد پہلو نظر آتے ہیں ۔
آپ اپنے اہل خانہ ،ساتھیوں ،خویش و اقارب ، پڑوسی ، غلام ، بچے ، بوڑھے،
کمزور طبقات ، فقرا و مساکین سب کے لئے درد مند دل رکھتے تھے حتی کہ آپ کی
شفقت و ہمدردی جانوروں کو بھی حاصل تھی ۔ خدمت انسانی کے اس رویہ سے متاثر
ہوکر غیر مسلم جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور جن لوگوں نے اسلام کو
نیست و نابود کر دینے کا بیڑا اٹھایا تھا انہوں نے بھی اسلام کے دامن عافیت
میں پناہ لی ۔ آج مسلمان ملک میں دھرتی کا بوجھ سمجھے جارہے ہیں اور ان پر
عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے لیکن اگر وہ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوکر
میدان عمل میں آئیں تو وہ سماج کی ناگزیر ضرورت بن سکتے ہیں۔ اگر وہ اپنے
کردار و عمل سے ثابت کردیں کہ وہ صرف اپنے لئے نہیں جیتے ہیں بلکہ سب کے
دکھ درد میں کام آنے والے ہیں ، بھوکوں ، ننگوں ، مریضوں، بیواؤں ، یتیموں
، ضرورت مندوں اور محتاجوں کی دست گیری کرنے والے ہیں تو وہی لوگ جو آج
انہیں دھرتی کا بوجھ سمجھ رہے ہیں اپنی آنکھوں کا تارا بنا لیں گے اور اپنے
سر وں پر بیٹھانے کے لئے خود کو مجبور پائیں گے ۔ یہی وہ میدان ہے جس میں
مسلمان آسانی سے برداران وطن سے سبقت لے جاسکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری
ہے کہ ان کے اندر مسلمان ہونے کا احساس پیدا ہوجائے۔
جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا گیا کہ چونکہ ڈاکٹروں کا تعلق براہ راست عام
لوگوں سے ہوتا ہے اس لئے وہ اگر اپنے پیشہ میں اسلامی اصول و آداب کا پاس و
لحاظ رکھیں تو صرف انہیں کے ذریعہ انقلاب آسکتا ہے ۔ ڈاکٹر چونکہ مریضوں کے
علاج میں اپنی توانائی اور وقت صرف کرتے ہیں اس لئے مریضوں سے فیس لینا ان
کا حق ہے ، انہیں پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے
ہوئے مریضوں سے پیسے لیں لیکن آج جس طرح سے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور
مریضوں پر بے انتہا بوجھ ڈالا جارہا ہے نیز ڈاکٹر دواساز کمپنیوں کے اشتہار
کے طور پر کام کر رہے ہیں اس کا کوئی جواز نہیں ہے اور مسلم ڈاکٹر اس سے
احتراز کر لیں تو وہ ممتاز مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنے علم و فن اور
مریضوں کے تئیں اخلاص ان کا سرمایہ ہونا چاہئے۔ اس وقت صحت کا مسئلہ عالم
گیر نوعیت کا حامل بن گیا ہے اور اس کے حل کے لئے اسی سطح پر کوششیں بھی
ہورہی ہیں ۔ خود ہمارے ملک میں بھی صحت کے تئیں عوامی شعور بیدار کرنے کے
لئے کوششیں کی جارہی ہیں جس کا فائدہ بھی نظر آرہا ہے لیکن مسلمان بالعموم
اپنے اندر تبدیلی نہیں پیدا کر رہے ہیں ، ایسوسی ایشن آف مسلم ڈاکٹرس کو اس
پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔ اسی طرح میڈیکل سائنس کی ترقی نے نت نئے مسائل
بھی پیدا کئے ہیں اس سلسلہ میں اسلامی موقف کی وضاحت اور اس پر عمل ضروری
ہے جس کی طرف کانفرنس میں اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ بہر حال مسلم ڈاکٹروں کی
یہ تنظیم جس مقصد کے تحت قائم کی گئی ہے وہ بلاشبہ اہم ہے اور ہم اور ہمارے
جیسے عام لوگوں کی تمام تر نیک خواہشات اس کے ساتھ ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ
دیگر پیشوں سے وابستہ مسلمانوں کے لئے یہ تنظیم قابل تقلید نمونہ بنے گی ۔
الحمد ﷲ انسانی خدمات کے دیگر شعبوں میں بھی مسلمان موجود ہیں ، اگرچہ ان
کی تعداد کم ہے اور وہ منتشر ہیں ۔ اگر تمام پیشوں سے وابستہ افراد انہیں
بنیادوں پر اپنی اپنی تنظمیں قائم کر لیں تو اس کے اچھے اثرات ظاہر ہوں گے
اور اس سے نئی نسل کو بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ ملے گا ۔ ساتھ ہی اگر مسلمان
اپنی اور اپنے سماج کی اصلاح کے ساتھ ساتھ سیاست، معاش اور تعلیم کو بھی
اخلاقی قدروں کا پابند بنانے کی ٹھان لیں اور معاشرہ کے کمزور ،محروم ،
مجبور اور بے سہار الوگوں کا سہارا بننے اور ان کے درد کی مسیحائی کرنے کی
کوشش کریں اور اخلاقی قوت بن کر ابھریں تو وہ اس ملک کے لئے غیر معمولی
اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں اور یہی ان کا اصل کردار اور مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔
(مضمون نگار ’الہدیٰ‘ کے مدیر ہیں) |