پروفیسر مظہر ۔۔۔۔ سرگوشیاں
کئی بار لکھ چکا کہ قحط الرجال ہے ، ایسا قحط الرجال جس میں علم و حکمت کے
بند کواڑوں میں کوئی ایسا روزن بھی نہیں جس سے روشنی کی ہلکی سی کرن بھی
پھوٹتی دکھائی دے ۔یقیناََ سچائی کی شمعیں روشن کرنے والے چند اہلِ قلم بھی
ہونگے ، لیکن وہ بھی مہر بلب کہ کہیں لوگ اُنہیں رجعت پسند سمجھ کر تضحیک و
استہزا کے نَشتر نہ چلانے لگیں حالانکہ یہ اہلِ نظر کا فرضِ عین ہے کہ جہاں
تک ہو سکے ابدی صداقتوں کی مشعلیں روشن کرکے بھٹکے ہوؤں کی رہنمائی کی سعی
کریں ۔میرے آقا ﷺ نے فرمایا کہ جہاں بُرائی دیکھو ، اُسے ہاتھ سے روکنے کی
کوشش کرو ۔اگر یہ سَکت نہ پاؤ تو زبان سے بُرا کہو اور اگر ایسا بھی نہ کر
سکو تو دِل میں بُرا کہو اور یہ تمہارے کمزور ترین ایمان کی نشانی ہے
(مفہوم) ۔لیکن ہم تو ایمان کے کمزور ترین درجے پر بھی نہیں ۔ہم میں اتنی
ہمت ہی نہیں کہ کوئے صحافت کے ’’کاریگروں ‘‘ اور NGO's کی اُن خواتین کا
مُنہ توڑ جواب دے سکیں جن کی گفتگو میں زہرناکی اور ضمیر استہزاء کے خمیر
میں گُندھا نظر آتا ہے ، جنہیں مُنہ ٹیڑھا کرکے دین ، اکابرینِ دین اور
اسلامی تاریخ میں کیڑا کاری کی عادت پڑ چکی ہے ، جن کے قلم اور زبانیں ہر
وقت شعلے اُگلتی رہتی ہیں ،جن کے غلامانہ ذہن مغرب کی نکالی میں اتنا آگے
نکل چکے ہیں کہ بے ثبات سایوں کو بھی مہرِ درخشاں ثابت کرنے میں جتے رہتے
ہیں اور جن کی کجی اور کَج بحثی اب ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہے۔
فرقانِ حمید میں درج کر دیا گیا’’ رَبّ کو جاننے والے اُس کے عالم بندے ہیں
‘‘۔ یہی عالم بندے جب دینِ مبیں کا پیغام لے کر عرب کے ریگزاروں سے اُٹھے
تو شَرق تا غرب پھیلتے چلے گئے لیکن ہمارے ’’بزعمِ خویش‘‘ فہیم و عقیل
سیکولر دانشورایک طرف تو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ
قُرآن کی بجائے افکارِ مغرب سے جنوں کی حد تک پیار کرتے ہیں۔ حالانکہ جس
دین کی پیروی کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اُس نے تو حکمت کی کتاب میں پوری صراحت
سے یہ درج کر دیا ’’ہم نے قُرآن میں سب کچھ بیان کر دیا ہے‘‘۔لاریب قُرآن
کا مقصود لوگوں کو سمجھانا ہے لیکن نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جن کے دل خوفِ
خُدا سے لبریز ہوں ۔سچ کہا شاعرِ مشرق نے کہ
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآن ہو کر
مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک نامی لکھاری جو رُکنِ پارلیمنٹ
بھی رہ چکے ہیں ، آجکل ’’کالمی درویشوں‘‘ والے لکھاری کی طرح نواز لیگ کے
خلاف آگ اُگلتے رہتے ہیں ۔وجہ یہ کہ 2013ء کے انتخابات میں نواز لیگ نے
اُنہیں ’’ٹَکٹ‘‘ سے محروم رکھا اِس لیے اُن کا نواز لیگ کے خلاف آگ اُگلنا
فطری ہے ۔ اِس لیے ہمیں اُن کی اِس زہر ناکی سے کوئی غرض نہیں لیکن موصوف
نے اپنے کالم میں دینی حوالے سے جو زہر اُگلا ہے وہ بہرحال ایک عامی مسلمان
کے لئے بھی ناقابلِ برداشت ہے ۔ہمیں اِس سے کچھ غرض نہیں کہ موصوف ایمان کے
کس درجے پر ہیں کیونکہ یہ اُن کا اور اﷲ کا معاملہ ہے لیکن جب وہ اپنے غیر
شرعی افکار کا یوں ببانگِ دہل پرچار کریں گے تو پھر معاملہ اُن کی ذات سے
نکل کر ہر مسلمان کے جذبات کا بن جاتا ہے ۔موصوف نے اپنے کالم میں ’’بازارِ
حُسن‘‘ کا نوحہ لکھتے ہوئے فرمایا ہے ’’اب وہ گلیاں جہاں بالکونیوں سے حسین
چہرے جھانکتے تھے اور جہاں سے طبلے کی تال ، ہارمونیم کے سُر اور پازیب کی
جھنکار دل میں مَدھ بھرے جذبات جگاتے تھے ، اب وہاں جوتوں اور کھُسوں کی
دکانیں کھُل گئی ہیں ‘‘ ۔دست بستہ عرض ہے کہ ناچ گانے کی محفلیں تو مکمل
طور پر غیر اسلامی اور غیر شرعی ہیں لیکن حصولِ رزق کے لیے جوتوں اور کھسوں
کا کاروبار نہ تو غیر اسلامی ہے اور نہ ہی غیر شرعی۔ موصوف کہتے ہیں
’’لاہور کی پیشہ رو حسیناؤں کے بہت سے گروہ سمندر پار دبئی کے قدر دانوں کے
پاس چلے گئے ۔ یہ ریاست اسلامی ہے لیکن رقص و موسیقی نے اُن کے قدیم مذہبی
تصورات اور نیکی اور پرہیز گاری کے جذبات کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہیں کیا
لیکن یہاں مذہبی تصورات ہمیشہ خطرے کی زد میں سمجھے جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے
کہ ہمارے علماء ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ مسلمان
بنانے کو اپنی زندگی کا فریضہ بنائے ہوئے ہیں ‘‘۔عرض ہے کہ ایک عالمِ دین
کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ مسلمانوں کو احکاماتِ الٰہیہ سے متواتر آگاہ
کرتا رہے جو ہمارے علماء سر انجام دے رہے ہیں ۔
مجددِ وقت ، مجتہد العصر سیّد ابو الا علیٰ مودودی کے بارے میں وہ فرماتے
ہیں کہ’’ جب پاکستان وجود میں آ گیا تو مولانا نے وقت ضائع کیے بغیر اِس’’
غیر اسلامی ملک‘‘ کی طرف ہجرت کی اور اپنے مذہبی تصورات کی ترویج کے لیے
جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی ۔ کاش مولانا مودودی اُن نظریات پر قائم رہتے
جن کا اظہار اُنہوں نے مسٹر جناح کے حوالے سے تواتر کے ساتھ کیا اور اِس
غیر اسلامی ملک میں ہجرت نہ کرتے تو شاید ہماری قسمت بہت مختلف ہوتی‘‘
۔موصوف نے بالکل ٹھیک فرمایا ہے لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ اگر موصوف خود
ہجرت کرکے کہیں اور چلے جاتے تو یہ پاکستان اور پاکستانیوں پر اُن کااحسانِ
عظیم ہو تا کیونکہ پاکستان جس مقصد کے لیے معرضِ وجود میں آیا وہ مقصد
محترم لکھاری کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے البتہ حضرت ابو الاعلیٰ مودودی
نے اپنی ساری زندگی اسی مقصد کے حصول کے لیے صرف کر دی لیکن محترم لکھاری
کو اُس مقصد کے حصول کی بجائے ناچ گانے اور ’’بازارِ حسن‘‘ میں ہی کشش نظر
آتی ہے ۔یہی وہ لوگ ہیں جو ہمہ وقت بابائے قوم کو سیکولر ثابت کرنے کی سعیٔ
لاحاصل کرتے رہتے ہیں۔اِس بحث میں اُلجھے بغیر کہ بابائے قوم کا مطمعٔ نظر
سیکولر پاکستان تھا یا اسلامی پاکستان ،کیا موصوف یہ بتلا سکتے ہیں کہ
ہمارا آئین اسلامی ہے یا سیکولر ؟۔کیا یہ آئین اُس پارلیمنٹ نے منظور نہیں
کیا تھا جس میں علماء کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی ؟۔اور کیا اسی
آئین کے تحت موصوف نے پارلیمنٹ میں حلف نہیں اٹھایا تھا؟ ۔اِس آئین کے
آرٹیکل 1کے مطابق ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ہے ۔ آرٹیکل2میں
مملکت کا مذہب اسلام اور قر دادِ مقاصد آئین کا ابتدائیہ ہے ، آرٹیکل 227
میں تمام قوانین کو قُرآن و سُنت کے مطابق وضع کرنے کی گارنٹی دی گئی ہے
اور اِس مقصد کے حصول کے لیے آرٹیکل 228 کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کا
قیام اور آرٹیکل 203 کے تحت وفاقی شریعت کورٹ کے قیام کا ذکر ہے ،
آرٹیکل260 کے تحت حضورِ اکرم ﷺ کو خاتم النبین اور قادیانیوں کو غیر مسلم
اقلیت قرار دیا گیا ہے ، آرٹیکل62 اور 63 میں اراکینِ پارلیمنٹ سینٹ و
صوبائی اسمبلی کے انتخاب کے لیے شرائط بتائی گئی ہیں ۔یہ شرائط اسلامی نظام
کے عین مطابق ہیں ۔ آرٹیکل42 اور 91 کے مطابق صرف مسلمان ہی صدرِ مملکت اور
وزیرِ اعظم بننے کے اہل قرار دیئے گئے ہیں ۔اگر آئینِ پاکستان کو اُس کی
اصل روح کے مطابق نافذ کر دیا جائے تو لاریب یہ ایک مکمل اسلامی آئین ہے
۔محترم کالم نگار نے ایک پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے یقیناَہم سے زیادہ آئین
کا مطالعہ کر رکھا ہو گا ۔کیا اُنہیں حسین چہروں ، طبلے کی تال ، ہارمونیم
کے سُر اور پازیب کی جھنکار کے لیے اِس آئین میں کوئی گنجائش نظر آئی ہے؟۔
اُنہوں نے انتہائی کرب کے عالم میں لکھا ہے کہ ہماری قسمت میں مولانا محمد
احمد لدھیانوی اور بھارت کے حصّے میں فلمی شاعر ساحر لدھیانوی آ گئے ۔ساحر
لدھیانوی کے ناقابلِ فراموش فلمی گیت برِ صغیر کے کروڑوں دلوں کی دھڑکن بن
گئے جب کہ محمد احمد لدھیانوی کی ہدایت گناہ گار انسانوں کو اِس دُنیا اور
اُس کی الائشوں سے نجات دلاتے ہوئے فی الفور آسمانوں کی راہ دکھاتی ہے ۔عرض
ہے کہ کسی مے نوش فلمی شاعر کا کسی عالمِ دین سے موازنہ بہرحال صحافتی آداب
کے منافی ہے اور اخلاقی آداب کے بھی۔ |