مذاکرات یا وقت گزاری

پاکستان صرف مسلمانوں کو آزادی دلوانے کے لئے حاصل کیا گیا تھاجہاں انھیں مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ مکمل تحفظ کی ضمانت فراہم کی جا سکے پاکستان واضح طور پر دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا جس کے آئین کی تشکیل کے وقت واضح کیا گیا تھا کہ اس کے آئین کا ہر حصہ قرآن اور حدیث کو سامنے رکھ کر تشکیل دیا جائے گا جس کے بعد پاکستان میں رائج ہونے والے تمام آئینوں میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی شرعی قوانین کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا پاکستان کا موجودہ آئین1973 میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا قانون نہیں بنایاجائے گا جو اسلام اور اس کی بنیادی تعلیمات سے متصادم ہوگا اس آئین کی تیاری میں جید علمائے کرام کی مشہور قرارداد مقاصدکو بھی آئین میں شامل کیاگیا آئین کی تشکیل اسلامی شریعت کے تحت کی گئی جب آئین مرتب کیاگیا تو متعلقہ کمیٹی میں جید علمائے کرام مرحوم مفتی محمود' مرحوم شاہ احمد نورانی سمیت مولانا عبدالحکیم اور مولانا غلام غوث ہزاروی جیسی شخصیات شامل تھیں اس لئے اس آئین کے اسلامی ہونے میں کسی شبے کی گنجائش نہیں بچی تاہم کسی بھی آئین کو عصری ضرورتوں کے مطابق مزید بنانے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے دونوں ایوانوں کی دوتہائی اکثریت سے اس میں جہاں کہیں ضرورت محسوس ہو مزید ترمیم کی جاسکتی ہے اسی آئین کے تحت قادیا نیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اسی آئین کے تحت اقلیتوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی ہر فرقے اور ہر مذہب کے لوگوں کو اپنی عبادات اور رسم و رواج کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھے یہ تو وضاحت تھی کے پاکستان کا آئین اسلامی ہے یا غیر اسلامی اب آتے ہیں آج کل کے حالات کی طرف ملک میں بد امنی کو ختم کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے امن مذاکرات کو شروع ہونے سے پہلے ہی اسلامی اورر غیر اسلامی آئین کے ترازو میں تول کر ختم کر دیا گیا اور ان مذاکرات کے شروع میں جس طرح کا ماحول بنا تھا کہ دونوں طرف سے کمیٹیوں کی تشکیل ،اور دونوں کمیٹیوں کا آپس میں رابطے کی وجہ سے لگ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور بر آمد ہو گا حکومت کی طرف سے واضح طور پر لچک دیکھائی جا رہی تھی مگر وہ قوتیں جو پاکستان میں امن نہیں دیکھنا چاہتی انھوں نے طالبان کے پاس قید سیکیورٹی فورسسز کے نوجوانوں کو شہید کروا کے سارا عمل روکوا دیا اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئے جو عناصر نفاذشریعت کا نام لے کر لوگوں کے گلے کاٹ رہے ہیں اور دہشت گردی کے ذریعے معصوم شہریوں کو ہلاک کررہے ہیں تعلیمی اداروں مساجد اور مقابر پر دھماکے کر رہے ہیں درحقیقت یہ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کو مسخ کر رہے ہیں اسلامی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام کو مسخ کرنے کے سلسلے میں غیر مسلموں کے مقابلے میں مسلمانوں نے زیادہ مذموم کردار ادا کیاہے اس کا آغازیزید کے دور حکومت سے شروع ہوتاہے جس میں واقعہ کربلا سب سے بڑی مثال ہے جہاں نواسہ رسول ﷺاور ان کے جانثاروں کے مدمقابل مسلمان ہونے کے دعویدار اور نمازی تھے وہ جس آخری نبیﷺ کا حکم پڑھتے تھے انہی کے اس نواسے کو شہید کرنے کے لئے جمع ہوئے جسے نبیوں کے سردار ﷺنے اپنے کندھوں پر سوار کیاتھا بلکل اسی طرح یہاں بھی ہو رہا ہے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے شریعت اور اسلام ہی کے نام پر یہ سب ہورہاہے لوگ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ طالبان بتائیں انہوں نے گردنیں کس شریعت کے تحت کاٹیں شریعت قیدیوں کے ساتھ کس قسم کے سلوک کی ہدایت کرتی ہے ہم بھارت کو اپنا ازلی دشمن تصور کرتے ہیں ماضی میں ہمارے ہزاروں قیدی بھارت کے پاس تھے اور بھارت کے قیدی ہماری تحویل میں اس بربریت کا مظاہرہ تو بھارت نے بھی قیدیوں کے ساتھ نہیں کیا جس کا شریعت کی بات کرنے والوں نے کیاہے -

اسلامی تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو فتح مکہ کے واقعات ہمارے سامنے ہیں جہاں ایک قطرہ خون کا بہائے بغیر اسلامی شریعت کا نفاذ کیا گیا اسلامی غزوات میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے حسن سلوک کے قصے بھی آپ نے سنے اور پڑھے ہوں گے اسلام قیدیوں کے ساتھ کس برتاؤ کا حکم دیتاہے اسلام تو وہ عظیم دین اور ضابطہ حیات ہے جو ایک بیگناہ اور معصوم انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کرتاہے اسلام عمل کا دین ہے یہ انسانوں کے باہمی تعلقات اور زندگی کے تمام شعبوں میں ان کے کردار کی نشاندہی کرتاہے دوسروں کی زندگیوں میں اسلام کی جھلک دیکھنے کی خواہش کرنے والوں کو سب سے پہلے اپنے کرداروعمل اور اپنی زندگیوں کا بھی جائزہ لیناچاہیے تھا ۔ان مذا کرات کو ثبوتاژ کرنے میں سارا قصور طالبان کے سر جاتا ہے جنہوں نے مذاکرات کے شروع ہوتے ہی کراچی میں پندرہ پولیس اہلکاروں کو شہید کیا اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کی جس پر حکو مت نے تحمل کا مظاہرہ کیا پشاور میں بازاروں میں بم دھماکوں اور معصوم شہریوں کی ہلاکتوں پر بھی حکومت نے ضبط کیے رکھا لیکن مہمند ایجنسی کے طالبان کی طرف سے ایف سی کے 23 مغوی اہلکاروں کو شہید کرنے کے واقعہ کے بعد حکومت کے لئے یہ ناگزیر ہو گیا کہ وہ اپنے رویوں میں قدرے سختی پیدا کرے جس کے بعد جاری مذاکرات کو روک دینا ہی دانشمندانہ فیصلہ تھا کیونکہ اگر مذاکرات جاری رہتے تو دوسری طرف شاید یہ پیغام جاتا کہ حکومت ان عناصر سے خوف ذدہ ہے اگر طالبان دوبارہ مذاکرات کی طرف آتے ہیں تو ان تمام سوالات کے جواب دینے ہوں گے اور غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کرناہوگا اور تمام گروپوں کی طرف سے مجوزہ اعلان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہوگا دونوں کمیٹیوں کے درمیان ڈیڈ لاک طالبان ہی کے ایک گروپ کی بربریت کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے اس ڈیڈ لاک کو اسی صورت ختم کیاجاسکتاہے جب طالبان کی طرف سے غیر مشروط جنگ بندی کے اعلان اور اس اعلان پر تمام گروپوں کی طرف سے مکمل عمل درآمد کا واضح اعلان کیاجائے گا اگر ایسا اعلان نہیں ہوتا تو یہی سمجھاجاسکتا ہے کہ انہیں مذاکرات سے کوئی سروکار نہیں اور وہ انہیں اپنی کسی حکمت عملی کے تحت وقت گزاری کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227244 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More